بظاہر یہ سوال زیادہ معقول سوال نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے آپ اسے پڑھتے ہی ہنس دیں لیکن یہاں سوال صرف ’’مسکراہٹ‘‘ کا ہے۔ جس کے آرٹ سے کم ہی لوگ واقف ہوتے ہیں۔
اسٹوڈیو میں آپ نے فوٹو گرافر کو ہزاروں بار ’’ذرا مسکرائیے‘‘ کہتے سنا ہوگا، لیکن نتیجہ، وہی صفر۔ کئی دوستوں اور عزیزوں کے فوٹو دیکھئے۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش سے دعویٰ کیا تھا کہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کھنچوائے ہیں لیکن جب فوٹو تیار ہوکر آئے تو معلوم ہوا کہیں تو پوری بتیسی باہر نکل پڑ رہی ہے، کہیں مسکرانے کی کوشش کی بھی ہے تو عجیب بسورتی صورت بن گئی ہے۔ اس جادو پر بجائے مسکرانے کے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
ہنسنے کا کام جتنا سہل ہے، مسکرانے کا اتنا ہی مشکل۔ بس منہ اس طرح کھلے کہ پورے ہنسیں تو ڈاڑھوں کو چھوڑ کر تمام دانت ہلکی سی آواز کے ساتھ دکھائی دینے لگیں۔ لیجیے ہنسی کا کام ختم، کبھی کبھی ہنستے وقت آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ ایسے وقت آنکھوں کو ’’مسکراتی آنکھوں‘‘ سے کیوں کر تعبیر کیا جاسکتا ہے۔کچھ چہرے قدرت خود ہی مسکراتے ہوئے پیدا کرتی ہے۔ انہیں ہم آپ مسکراتے چہرے کہتے ہیں۔ اسی طرح ’’مسکراتی آنکھوں‘‘ کا ذکر بھی آپ نے سنا ہوگا۔ بعض چہروں پر سوتے وقت بھی مسکراہٹ کھیلتی دیکھی گئی ہے۔ لیکن ان گنے چنے چہروں کا ذکر چھوڑئیے۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ کس طرح مسکرائیں۔
مسکراہٹ کا پہلا اصول تو یہی ہے کہ آپ کے دانت نظر نہ آئیں۔ دانتوں کا نظر آنا ہنسی میں شامل ہوجاتا ہے۔ یعنی لوگ صرف ہونٹوں سے مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ اور تمام چیزوں پر تو افسردگی چھائی ہے، آنکھیں جذبات سے عاری ہیں لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ نما نقش چپکا ہوا ہے۔ اس گھبراہٹ سے تو بہتر ہوگا کہ کوئی سرے سے مسکرائے ہی نہیں۔ مسکراہٹ تو ہمیشہ خوشی کا پیش خیمہ سمجھی جاتی ہے۔ جس کے ذریعہ خوش گوار خیالات کی عکاسی مقصود ہوتی ہے۔ باقی چہرے کو بھی تو مسرت کے اظہار میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔
اس طرح کی بھر پورپاور ر خلوص مسکراہٹ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسی مسکراہٹ کا تحفہ دوسرے کو دیں گے، ویسی ہی مسکراہٹ اس کے جواب میں آپ کو بھی ملے گی۔ تجربہ کر دیکھئے۔ صبح کو آپ نہایت سلیقہ سے مسکراتا ہوا چہرہ لے کر ملنے جلنے نکلیں، آپ محسوس کریں گے کہ جو شخص بھی آپ سے ملتا ہے، خندہ پیشانی سے مسکراتا ہوا۔
دوسری بات یہ کہ مسکراہٹ کے درمیان آپ کے چہرے پر تازگی اور شگفتگی ہونی ضروری ہے۔ایسے چہرے میں کوئی جاذبیت نہیں ہوتی جو مسکرا کر خیر مقدم نہ کرے ہر وقت ڈروانی شکل بنائے رکھنا، اپنی عمر کو کم کرنے کے علاوہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ زندگی سے اکتائے ہوئے ہیں۔ دوسرے لوگ یہ خیال کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آپ اچھے مزاج کے مالک نہیں ہیں، کیا معلوم آپ کاپارہ کس وقت چڑھ جائے۔ اس طرح آپ دوستوں کی محفل میں تو کم از کم چڑچڑے مشہور ہوجائیں گے۔
ماحول بھی کافی حد تک مسکراہٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ گھر میں اگر ماں باپ مسکرا کر ایک دوسرے سے بات نہ کریں تو اس کا اثر بچوں پر ضرور پڑے گا۔ بچے بھی عجیب سی پریشانی اور الجھن سے دوچار ہوجائیں گے۔ اور یوں یہ زہریلی ہوا سارے گھر کو جھلسا دے گی۔
بہتر ہوگا کہ گھر کا ماحول ایسا خوشگوار بنادیا جائے کہ دل خود بخود مسکرانے کو چاہے، یہ مسکراہٹ کیونکہ قدرتی ہوتی ہے، اس لیے اس کا اثر آپ کی صحت پر خاطر خواہ پڑے گا۔ آپ ہر مصیبت اور پریشانی دکھ اور درد کا مقابلہ کرنا سیکھ جائیں گے جو ہر انسان کو بہر حال پیش آتے رہتے ہیں۔ مصیبت اور تکلیف میں مسکرانا بھی آرٹ ہے۔مسکرانے کا طریقہ مردوں عورتوں سب کے لیے سیکھنا ضروری ہے۔ کیا آپ اس دکاندار سے کچھ خریدنے پر آمادہ ہوجائیں گے جو ناک بھوں چڑھا کر بات کرنے کا عادی ہو، جس کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ آپ کو اپنا سامان تجارت دکھا کر احسان کررہا ہے، یقینا آپ دوکاندار سے جلد از جلد رخصت ہوجانا چاہیں گے۔ ایک مہینے کے اندر ہی اندر وہ دکاندار سر پکڑے بیٹھا نظر آئے گا۔ اس کے برعکس دوسرا دوکان دار جو نہایت خندہ پیشانی سے مسکرا کر سودا کرنے کے آرٹ سے واقف ہے اس کی دوکان پر گاہکوں کی بھیڑ ہوگی۔
یہ تو خیر ایک معمولی مثال تھی۔ لیکن اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ زندگی کے ہر شعبے میں مسکراہٹ چہرے پر لائے بغیر کامیابی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اگر مسکرانا آپ کی عادت میں شامل نہیں ہے تو آج ہی مسکرانا شروع کیجیے اپنے دوستوں سے رائے لیجیے کہ آپ مسکراتے ہوئے کیسے لگتے ہیں۔ یا پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر مختلف انداز سے مسکرائیے اور اپنا جائزہ لیجیے۔ مسکراہٹ کا جو ڈھنگ بھی پر اثر اور پُر کشش نظر آئے اسے ہی اپنے لیے مستقل قرار دے لیجیے۔
اگر آپ دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، دوستوں اور عزیزوں کے دل موہ لینا چاہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ گھر میں مکمل سکون اور خوشگوار ماحول پروان چڑھے، اگر آپ اپنی تکلیفوں کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اگر آپ اپنے چہرے کی جاذبیت بڑھانا چاہتے ہیں تو یاد رکھئے کہ آپ کو مسکرانے کا فن سیکھنا ہی ہوگا کیونکہ اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔