حضرت ام عبداللہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنتِ ابی حثمہ کا تعلق قریش کے خاندان بنوی عدی سے تھا۔ ان کا نکاح حضرت عامرؓ بن ربیعۃ العنزی سے ہوا۔ وہ بنی عنز بن وائل میں سے تھے اور بنو عدی کے حلیف تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے والد خطاب نے ان کو فرطِ محبت سے اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔
دونوں میاں بیوی کو اللہ تعالیٰ نے نہایت صالح فطرت سے نوازا تھا، انھوں نے دعوتِ حق کے بالکل ابتدائی زمانے میں قبول اسلام کا شرف حاصل کیا اور مشرکین کے جور و ستم کانشانہ بن گئے۔ جب کفارِ مکہ کا ظلم و ستم حدسے بڑھ گیا تو میاں بیوی نے حضورِ اکرمﷺ کی ایماء پر سن ۵ بعدِ بعثت میں ہجرتِ حبشہ کا قصد کیا۔ حضرت لیلیٰؓ اونٹ پر سوار ہونے کو تھیں (یا ہوچکی تھیں) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں آگئے۔ وہ ابھی تک کفروشرک کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے تھے۔ انھوں نے حضرت لیلیٰؓ سے پوچھا، ام عبداللہ کدھر کی تیاری ہے؟ انھوں نے جواب دیا، تم لوگوں نے ہم کو بہت ستایا ہے اس لیے ہم گھربار کو خیر باد کہہ رہے ہیں، خدا کا ملک تنگ نہیں ہے جہاں سینگ سمائیں چلے جائیں گے اور جب تک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مخلصی کی کوئی صورت پیدا نہ کرے وطن سے دور ہی رہیں گے۔
حضرت عمرؓ کو ان پر بہت ترس آیا اور کہا ’’صحبکم اللہ ‘‘ (اللہ تمہارے ساتھ ہو) جب وہ چلے گئے تو حضرت لیلیٰؓ کے شوہر عامرؓ بن ربیعہ بھی آپہنچے، حضرت لیلیٰؓ نے ان کو یہ واقعہ سنایا تو بولے: ’’عمر اس وقت تک مسلمان نہ ہوں گے جب تک خطاب کا گدھا ایمان نہ لائے گا۔‘‘ گویا ان کے نزدیک جس طرح گدھے کا قبولِ اسلام ناممکنات میں سے ہے، اسی طرح حضرت عمرؓ کا شرفِ ایمان سے بہرہ یاب ہونا بھی ناممکن تھا۔ لیکن حضرت لیلیٰؓ نے کہا کہ ’’مجھے دیکھ کر عمرؓ پر سخت رقت طاری ہوگئی تھی کیا خبر اللہ ان کا دل پھیر دے۔‘‘
حضرت عامرؓ نے فرمایا،کیا تم یہ چاہتی ہو کہ عمرؓ ایمان لے آئیں؟ حضرت لیلیٰؓ نے کہا ’’ہاں۔‘‘
یہ واقعہ تھوڑے بہت لفظی اختلاف کے ساتھ متعدبہ اہل سیر نے بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت لیلیٰ ؓ کی تمنا یوں پوری کی کہ اگلے ہی سال حضرت عمرؓ سعادت اندوز ِ ایمان ہوگئے اور اسلام کے قوی دست و بازو بن گئے۔
حضرت لیلیٰؓ اور حضرت عامرؓ کو حبش گئے ہوئے صرف تین ہی مہینے گزرے تھے کہ سرورِ عالم ﷺ اور مشرکین مکہ کے مابین مصالحت کی خبر مشہور ہو گئی۔ مہاجرین حبشہ نے یہ خبر سنی تو ان کا ایک گروہ شوال سن۵ بعدِ بعثت میں مکہ واپس آگیا۔ اس میں حضرت لیلیٰؓ اور حضرت عامرؓ بھی شامل تھے۔ مکہ کے قریب پہنچ کر واپس آنے والے اصحاب کو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی لیکن اب انھوں نے الٹے پاؤں واپس جانا مناسب نہ سمجھا اور قریش کے کسی نہ کسی سردار کی پناہ حاصل کرکے مکہ میں داخل ہوگئے۔ حضرت عامرؓ بن ربیعہ اور حضرت لیلیٰؓ نے عاص بن وائل سہمی کی پناہ حاصل کی۔اس واقعہ کے بعد مسلمانوں پر مشرکین کے ظلم و ستم میں اور شدت پیدا ہوگئی۔ اس پر حضورؐ نے پھر ہدایت فرمائی کہ مظلوم لوگ حبش کی طرف ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ سن ۶ بعدِ بعثت کے آغاز میں تقریباً ایک سو مظلومین کا ایک قافلہ عازم حبشہ ہوگیا۔ اس دوسری ہجرت حبشہ کے مہاجرین کی فہرست میں بھی تمام اہل سیر نے حضرت عامرؓ اور حضرت لیلیٰؓ کا نام صراحت کے ساتھ لیا ہے۔ حبشہ میں چند سال غریب الوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد حضرت عامرؓ اور حضرت لیلیٰؓ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حضورؐ کی ہجرت الی المدینہ سے کچھ عرصے پہلے مکہ واپس آگئے اور پھر چند دن بعد حضور ﷺ کے اذن پاک سے مدینہ منورہ کی طرف مستقل ہجرت کرگئے۔ علامہ ابن سعد کاتب الواقدی کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے والی خواتین میں حضرت لیلیٰؓ بنت ابی حثمہ کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔
مورخ ابن اثیر نے حضرت لیلیٰؓ کے اس امتیاز کا ذکر بھی خصوصیت سے کیا ہے کہ قدیم الاسلام ہونے کی بنا پر انہیں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ (فی الحقیقت یہ امتیاز سارے ہی سابقین اولین کو حاصل ہے)۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت لیلیٰؓ بنت ابی حثمہ نے رسول اکرمﷺ کے سامنے اپنے کمسن فرزند سے کہا: ’’یہاں آؤ تم کو کچھ دو ںگی۔‘‘
حضورؐ نے پوچھا: ’’تم اس کو کیا دینا چاہتی تھیں۔‘‘
عرض کیا: ’’کھجور‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اس کو کچھ نہ دیتیں تو میں تم کو جھوٹاسمجھتا۔‘‘
سالِ وفات اور زندگی کے دوسرے حالات کی تفصیل نہیں ملتی۔