ماں رجّی کی بیٹی نوراں کی شادی میں گیارہ دن باقی تھے کہ اس کے گھر چوری ہوگئی۔ چور جہیز کا سامان لے گئے۔ یہ واقعہ جس نے سنا، توبہ توبہ کرنے لگا۔ جب میں تفتیش کے لیے وہاں پہنچا تو کئی بزرگوں نے کہا: ’’جناب! جب مائی رجّی جیسی غریب اور شریف عورت کے گھر چوری ہوجائے تو پھر سمجھئے قیامت آنے والی ہے۔‘‘
مائی رجّی کے ساتھ سب کو ہمدردی تھی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھی۔ اس کی بیٹی تب سات آٹھ برس کی تھی۔ عزیز و اقارب سب محنت کش اور بے چارے نادار تھے۔ انھوں نے مائی رجی کو دوسری شادی کرنے پر بہت زور دیا لیکن مائی رجّی جو اس وقت جوان تھی اس نے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد عزیز و اقارب سب منہ موڑتے چلے گئے۔ مائی رجّی محنت مزدوری کرنے لگی۔ یوں اس نے اپنی جوانی گزار دی اور پال پوس کر اپنی بیٹی کو جوان کردیا۔
مائی رجّی بہت محنتی، ایماندار اور عبادت گزار خاتون تھی۔ اس کے چہرے پر ایک تقدس تھا۔ شام پور قصبے کی ایک گلی کے نکّڑ پر مائی رجّی کا کچا مکان تھا۔ کچی لیپی پوتی چار دیواری کے اندر چھوٹا سا صحن تھا جس کے سامنے دو کوٹھریاں تھیں اور ایک طرف چھوٹا سا باورچی خانہ بھی۔ اس گھر کے بعد کھلا میدان سا تھا جہاں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔ چھوٹا سا تالاب بھی بنا ہوا تھا جس کے بعد کھیتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ چاردیواری چھوٹی تھی، کوئی بھی دیوار پھلانگ کر اندر آسکتا تھا۔
نُوراں کے جہیز کا سامان، چھ جوڑوں پر مشتمل تھا آدھے تولے سونے کی نتھ چار ماشے کی انگوٹھی اور سونے کی چھ چوڑیاں جو ایک تولے کی تھیں۔ یہ سامان ایک پرانے جستی ٹرنک میں تھا جسے مائی رجّی نے ایک تالا بھی لگا رکھا تھا۔ جہیز کا دوسرا سامان لحاف، چادریں، کھیس، پیتل اور تانبے کے برتن وغیرہ لکڑی کی ایک بوسیدہ پیٹی میں رکھے تھے، یہ سامان محفوظ تھا۔ چور اصلی اور قیمتی سامان جو ایک ٹرنک میں بند تھا اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس بھلے اور سستے زمانے میں بھی یہ جہیز خاصا قیمتی تھا۔ پھر مائی رجّی نے یہ چیزیں برسوں کی محنت کی کمائی سی بنائی تھیں۔ جانے کتنے گھروں کے برتن بھانڈے مانجھ کر، کپڑے دھوکر اور صفائی کرکے کتنے ہی برسوں میں یہ سب کچھ تیار کیا تھا۔
شادی میں صرف گیارہ دن باقی تھے۔ اس کے باوجود مائی رجّی صبر و رضا کی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔ لوگ توبہ توبہ کررہے تھے اور صحن مردوں اور عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب ابتدائی پوچھ گچھ کرکے موقع ملاحظہ کرچکا تو میں نے مائی رجّی سے پوچھا:
’’تمہارا کوئی دشمن تو نہیں ؟ کسی پر شک شبہ ہو تو بتاؤ؟‘‘
مائی رجّی نے آہستہ سے جواب دیا تھا:
’’میرا کوئی دشمن نہیں میں کس کا نام لوں خدا جانتا ہے مجھے کسی پر شبہ نہیں۔‘‘
مائی رجّی نے بتایا کہ وہ عشا کی نماز کے بعد لیٹ جاتی ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی ہوتی ہے، اس لیے اسے جلدی ہی گہری نیندآجاتی ہے۔ پچھلی رات بھی وہ ماں بیٹی دونوں صحن میں چارپائیاں ڈال کر حسب معمول عشا کی نماز کے بعد باتیں کرتی کرتی سوگئیں۔ فجر کے وقت مائی رجّی حسب معمول نیند سے بیدار ہوئی، وضو کیا، نماز پڑھی اور پھر اپنی چارپائی اٹھا کر کوٹھری کے اندر لے گئی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس کے بعد اس نے نوراں کو جگایا اور کہا کہ میں گوجروں کی بھینسوں کا دودھ دوہنے جارہی ہوں۔ شماگوجر کے ہاں وہ روزانہ کئی بھینسوں کا دودھ علی الصبح دوہنے جایا کرتی تھی۔ جس کا معاوضہ چند ٹکوں اور آدھا سیر، تین پاؤ دودھ کی شکل میں مل جاتا تھا۔ مائی رجّی نوراں کو جگا کر چلی گئی اور جب سات آٹھ بجے واپس آئی تو دروازہ اسی طرح بند تھا جیسے وہ بند کرکے گئی تھی نوراں ابھی سورہی تھی۔ جب سے نوراں کی شادی کا دن مقرر ہوا تھا مائی رجّی نے اسے دیر تک سونے پر ڈانٹنا پھٹکارنا بند کردیا تھا۔
باورچی خانے میں دودھ رکھنے کے بعد اس نے نوراں کو جگایا۔ نوراں اٹھی اور پھر اپنی چارپائی اور بستر اٹھا کر کوٹھری میں چلی گئی تب تک مائی رجّی چولہا جلاکر دودھ گرم کرنے کے لیے رکھ چکی تھی۔ یہی وہ لمحے تھے جب مائی رجّی کو نوراں کے رونے اور چیخنے کی آواز سنائی دی۔ نوراں کی بات مائی رجی کی سمجھ میں نہ آرہی تھی۔ وہ بھاگی بھاگی کوٹھری میں گئی۔ تب اسے نوراں کی بات سمجھ میں آگئی۔ جستی ٹرنک غائب ہوچکا تھا۔ ماں بیٹی نے دونوں کوٹھریوں کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی۔
ماں بیٹی رونے لگیں، پاس پڑوس کی عورتیں آہ و زاری سن کر ان کے ہاں پہنچ گئیں۔ پھر سارا محلہ ٹوٹ پڑا جلال الدین نمبردار نے ایک آدمی تھانے بھجوادیا۔
مائی رجّی یا نوران کو بالکل علم نہ تھا کہ ٹرنک کس وقت چوری ہوا یقینا یہ واردات عشا کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے ہوئی تھی۔
میں نے نوراں سے کچھ سوال پوچھے۔ وہ رو اور کانپ رہی تھی۔ اس کارنگ زرد ہورہا تھا۔ وہ حسنِ سادہ کا مرقع تھی میں نے جلال الدین نمبردار سے کہا۔
’’چوری کا مال برآمد کرانے کی پوری کوشش کروں گا۔ چور کے خلاف ایسا مقدمہ بناؤں گا کہ اسے سخت ترین سزا ملے گی۔‘‘
کسی نے بیچ میں کہا: ’’نوراں کی شادی کا کیا ہوگا؟ جہیز تو چوری ہوگیا۔‘‘
نمبردار جلال الدین نے ہاتھ اوپر اٹھایا اور بڑے وقار سے کہا : ’’نوراں سارے گاؤں کی بیٹی ہے۔ نوراں کے جہیز کا بندوبست میں اکیلا کروں گا۔ شادی مقررہ دن ہی پر ہوگی، لیکن تھانیدار صاحب، آپ کو چور ضرور پکڑنا ہے۔‘‘
میرے دل پر جو ایک بوجھ بن گیا تھا وہ نمبردار جلال الدین کی باتوں نے دور کردیا۔ میں نے دل میں کہا : ’’دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ نوراں کی شادی مقررہ دن پر ہوجائے گی۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اس چور کو ضرور پکڑوں گا جس نے مائی رجّی جیسی نیک عورت کے گھر چوری کی ہے۔‘‘
اس دن میرا کسی دوسرے کام میں جی نہ لگا، میں مسلسل اس واردات کے بارے میں سوچتا رہا۔ علاقے کے عادی مجرم اور چور تھانے طلب کیے۔ وہ سب کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ سب کہہ رہے تھے کہ مائی رجّی کے گھر تو وہی چوری کرسکتا ہے جس کو دنیا کے ساتھ آخرت بھی گنوانی ہو۔ ایسی نیک عورت کے گھر چوری کرنے والا کبھی بخشا نہیں جاسکتا۔ ان کے لب و لہجے اور چہرے کے تاثرات سے صاف عیاں تھا کہ انھوں نے مائی رجّی کے گھر چوری نہیں کی۔
میں نے مجرموں کو بھی چوکس کردیا اور اپنے عملے کو بھی یہ ہدایت دی کہ مائی رجّی کی چوری کے بارے میں کوئی بات معلوم ہو تو فوراً مجھے خبر کی جائے۔
رات کو بھی مجھے بے چینی ہی رہی۔ یہ کوئی ایسی واردات نہیں تھی کہ جس کا سراغ مل جانے سے کسی پولیس افسر کو ترقی مل جائے بس میرے دل پر بوجھ تھا۔ نیک سیرت مائی رجّی کی شکل آنکھوں کے سامنے آتی تو دل کانپ اٹھتا۔ واقعی مجھے بھی حیرت ہونے لگی کہ دنیا میں ایسے رذیل لوگ بھی بستے ہیں جو مائی رجّی جیسی نیک عورت کے گھر میں چوری کرسکتے ہیں۔
بہت غورفکر کے بعد میں کچھ نتائج تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک تو یہ کہ مائی رجّی کے ہاں چوری کرنے والا عام چور نہیں وہ گھر کا بھیدی ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ مائی رجّی کی بیٹی کی شادی ہونے والی ہے۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جہیز کا قیمتی سامان لکڑی کی بڑی پیٹی میں نہیں جستی ٹرنک میں رکھا ہوا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ ٹرنک کس کوٹھری میں کہاں رکھا جاتا ہے۔
وہ مائی رجّی اور نوراں کے معمولات سے بھی آگاہ تھا۔ اندر داخل ہوا اور اسی راستے سے ٹرنک اٹھا کر بھاگ نکلا۔
چور بھیدی ہونے کی وجہ سے اسی علاقے اور اسی گاؤں کا ہونا چاہیے تھا۔ اس گاؤں میں سبھی مائی رجّی کا احترام کرتے تھے۔ چوروں کی بھی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں اور یہ چور عادی چور یقینا نہیں تھا۔ سوچتے سوچتے مجھے اچانک یہ خیال آیا کہ شاید وہ شخص نوراں کی شادی کو رکوا دینا چاہتا ہے۔
نوراں کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا تھا۔ سادہ لیکن حسین ترین چہرہ۔ یقینا چور گاؤں کا کوئی جوان تھا یقینا احمق تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ نوراں کا جہیز چراکر اس کی شادی روکی جاسکتی ہے۔
اور وہ اس شادی کو اس لیے رکوانا چاہتا تھا کہ اسے خود نوراں سے دلچسپی تھی۔ بہت غوروفکر کرنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ میں جس نہج پر سوچ رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ میں نے اگلی صبح اپنی خاص مخبر عورت گلابو کو بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ معلومات اکٹھی کرسکتی تھی کہ نوراں میں گاؤں کا کون سا جوان زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔
دوسرے دن تھانے جاکر میں نے گلابو کو بلالیا۔ اسے ساری بات سمجھائی اور مشن پر بھیج دیا۔
تیسرے دن اس سے پہلے کہ گلابو آتی مجھے ڈاک سے ایک خط ملا۔ اس خط نے مجھے چونکا دیا۔ ٹیڑھے ترچھے حروف میں ایک لکیر دار کاپی کے کاغذ پر وہ خط لکھا ہوا تھا۔ عبارت یوں تھی:
جناب تھانیدار صاحب ! السلام علیکم۔ میں وہ بدقسمت گناہ گار ہوں جس نے مائی رجّی کے گھر چوری کی۔ چوری کے بعد ایک پل کے لیے بھی قرار نہیں آیا۔ جی چاہتا ہے زمین پھٹ جائے اور مجھے اندر سمیٹ لے۔ چوری کا سامان محفوظ ہے گاؤں کے شمالی حصہ میں راجباہ کے کنارے شیشم کے تین درخت ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے نیچے وہ ٹرنک دفن ہے۔ اس میں سے کوئی چیز بھی چھیڑی نہیں گئی۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ چوری کے بعد مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ رہی کہ میں ٹرنک کا تالا ہی کھول سکوں۔ آپ وہ جستی ٹرنک برآمد کرکے مائی رجّی کو پہنچا دیں۔ میرا گناہ بہت بڑا ہے۔ ممکن ہے خدا مجھے معاف کردے۔‘‘
خط لکھنے والے نے اپنا نام لکھا اور نہ ہی پتہ۔ اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا، پھر دو سپاہی ساتھ لیے اور اس مقام کی طرف چل دیا جس کی اس خط میں نشان دہی کی گئی تھی۔ شمالی حصہ میں بہنے والے چھوٹے سے دریا راجباہ کے کنارے واقعی ایک جگہ شیشم کے تین درخت قریب قریب سر جوڑے کھڑے تھے ان کے نیچے کی زمین بھر بھری تھی۔ وہاں کھدائی کی تو چند منٹوں میں وہ جستی ٹرنک برآمد ہوگیا۔ خط لکھنے والے نے صحیح لکھا تھا۔ جستی ٹرنک کا تالاسلامت تھا۔ برآمدگی کے کاغذات مکمل کرکے میںنمبردار جلال الدین کو ساتھ لے کر مائی رجّی کے گھر پہنچا۔ اپنا جستی ٹرنک دیکھ کر اس نے غیر معمولی جذبات کااظہار نہیں کیا۔ بس چند لمحوں کے لیے اس کے چہرے پر طمانیت اور مسرت کی ایک لہر آئی اور پھر بولی: ’’یا اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
ایک بار پھر صحن مردوں، عورتوں اوربچوں سے بھر گیا۔ سب کے سامنے ٹرنک کا تالا مائی رجّی نے کھولا۔ اندر ہر چیز موجود تھی۔ مائی رجّی بے ساختہ سجدے میں گر گئی۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی: ’’میرے اللہ! تو نے میری عزت رکھ لی۔‘‘
اس کے چہرے کا تقدس بڑھ گیا تھا۔ نوراں کے چہرے پر آنسوؤں بھری مسکراہٹ دکھائی دینے لگی تھی۔ سب لوگ ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے: ’’چور کون ہے؟ کون ہے چور؟‘‘
میں نے ایک ہی جواب دیا: ’’ابھی چور کا سراغ نہیں ملا۔ وہ بھی جلد مل جائے گا۔‘‘
مخبر گلابو نے مجھے اطلاع دی کہ نوراں بہت نیک لڑکی ہے۔ اس کی کسی مرد سے آشنائی تو کیا ۔ بات چیت بھی نہیں۔ مائی رجّی اسے اپنے ساتھ کام پر لے کر نہیں جاتی جب سے نوراں نے ہوش سنبھالا ہے اسے اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے کا بہت کم موقع ملا ہے۔ اگر کبھی کبھار کسی ضرورت کے تحت باہر جانا بھی پڑجائے تو مائی رجّی ہی اس کے ساتھ جاتی ہے۔ البتہ کچھ گھرانوں کے مختلف افراد کا مائی رجّی کے گھر آنا جانا ہے جن میں جلال الدین نمبردار کا بیٹا کمال اور پٹواری نور محمد کا بیٹا سرور بھی شامل ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کا بھی نوراں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
گلابو کے جانے کے بعد میں نے اپنے طور پر کچھ تفتیش کرنے کا ارادہ کیا۔ گاؤں کے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب ہی گاؤں کے ڈاک خانے کے انچارج تھے اسکول میں انھوں نے ڈاکخانہ بنا رکھا تھا۔ میں نے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
ہیڈ ماسٹر شبیر حسین صاحب بڑے تپاک سے ملے میں نے کوئی تمہید اٹھائے بغیر وہ لفافہ نکالا جس پر میرا ایڈریس لکھا ہوا تھا اور ان کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا: ’’اس کے بارے میں آپ کیا جاتنے ہیں؟‘‘
ماسٹر شبیر حسین نے میری طرف قدرے حیرت سے دیکھا: ’’تھانیدار صاحب! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘
’’آپ بتا سکتے ہیں کہ کل یا پرسوں آپ سے کس کس نے لفافہ خریدے اور کون کون لفافے ڈالنے آیا۔‘‘
’’مشکل کام بتایا ہے آپ نے‘‘ ماسٹر جی بولے۔ ویسے کل میں نے صرف چھ لفافے بیچے تھے۔ آج پانچ، میں حساب کتاب ٹھیک رکھنے کے لیے ہر روز لکھ لیتا ہوں کہ کتنے لفافے، کارڈ ، ٹکٹ بکے۔ ٹکٹ تو یہاں بہت کم خریدے اور استعمال میں لائے جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا آپ یہ بتائیے کہ کل کون کون لفافے خریدنے آیا تھا۔ گاؤں کے سارے لوگ آپ کے جانے پہچانے ہیں کچھ تو یاد ہوگا۔‘‘
ماسٹر سوچتے ہوئے بولے: ’’ہاں … ایک تو مولو کسان تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو خط بھیجا تھا۔ خط بھی اس نے مجھ ہی سے لکھوایا تھا۔ پھر وہ حسّو تیلی تھا اس نے اپنے پیر صاحب کے نام خط لکھوایا تھا۔ اور پھر … ہاں دو لفافے نمبردار کے بیٹے کمال نے بھی خریدے تھے۔…‘‘
اچانک رک کر ماسٹر جی نے پوچھا: ’’جناب آخر بات کیا ہے، کچھ مجھے بھی معلوم ہو۔‘‘
کوئی ایسی بات نہیں، اب آپ یہ بتائیے کہ لفافے پر لکھے ہوئے ہینڈ رائٹنگ کو آپ پہچانتے ہیں؟‘‘
ماسٹر جی اس لفافے کو غور سے دیکھتے رہے کچھ دیر بعد بولے: ’’ہاں، مجھے یاد آیا جب میں نے لال لیٹر بکس سے لفافے نکالے اور میں مہریں لگانے لگا تھا تو میں نے اس خط کو غور سے دیکھا تھا اور دل میں سوچا تھا کہ وہ کون احمق ہے جو اس گاؤں میں رہتے ہوئے آپ سے ملنے کے بجائے آپ کو خط لکھ رہا ہے۔ پھر سوچا ممکن ہے کوئی کسی کی مخبری یا شکایت کررہا ہو۔ خیر… مجھے حیرت ضرور ہوئی تھی۔ میرا فرض اسے آپ تک پہنچانا تھا اس لیے نورو ڈاکیے کو دے دیا تھا۔‘‘
ماسٹر بات لمبی کررہے تھے۔ اس لیے میں نے ٹوک کر پوچھا: ’’اس گاؤں میں آپ بیس پچیس برس سے پڑھا رہے ہیں سب پڑھے لکھے آپ کے شاگرد رہے ہیں۔ کیا آپ اس ہینڈ رائٹنگ کو پہچانتے ہیں؟‘‘
ماسٹر جی پھر لفافے کو غور سے دیکھنے لگے اور پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ جناب! یہ تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے الٹے ہاتھ سے لکھا ہو۔‘‘
میرے دل میں بھی لفافے کا پتہ اور خط پڑھ کر یہی خیال آیا تھا۔
ویسے لکھنے والا الٹے ہاتھ سے لکھنے کا عادی نہیں ہے، جو لوگ الٹے ہاتھ سے لکھنے کے عادی ہوں، ان کی تحریر صاف ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر کسی نے الٹے ہاتھ سے لکھا ہے۔ جبکہ وہ سیدھے ہاتھ سے لکھنے کا عادی ہے۔
’’تو گویا آپ یہ شناخت نہیں کرسکتے کہ یہ کس کا ہینڈ رائٹنگ ہے؟‘‘
’’ہاں جی، ایسی ہی بات ہے۔‘‘ ماسٹر جی نے لمبا سانس کھینچ کر کہا۔ ’’ویسے جناب معلوم تو ہو کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘میں نے ان سے اجازت لی اور کچھ بتائے بغیر وہاں سے چلا آیا۔
اسی شام میں نے نمبردار جلال الدین کے بیٹے کمال سے ملاقات کی۔ میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے کھیتوں میں کام کررہا ہے۔ وہاں پہنچا تو وہ مزدوروں کو کام سے فارغ کر رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ بڑے تپاک سے ملا اور پوچھنے لگا:’’آج آپ ادھر کیسے آنکلے؟ جناب!‘‘
’’ویسے ہی گھومتا ہوا ادھر آگیا، تمہیں دیکھا تو سوچا ذرا ملاقات کرلوں۔‘‘
تھانیدار صاحب! گھر چلئے، یہاں آپ کی خاطر مدارات کیا ہوگی؟ وہ ہنس کر بولا۔ ’’میں نے بڑے ڈرامائی انداز میں وہ لفافہ جیب سے نکالا اور اسے دکھاتے ہوئے پوچھا:
’’کیا یہ لفافہ پہچانتے ہو؟‘‘
چند لمحوں کے لیے اس کا رنگ اڑگیا، پھر وہ مصنوعی انداز میں ہنس دیا۔ ’’میں اس لفافے کے بارے میں کیا بتاسکتا ہوں؟‘‘
’’جو کچھ بھی تم جانتے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ’’کل تم نے ماسٹر جی سے دو لفافے خریدے تھے۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، ناں؟‘‘
وہ دونوں لفافے۔ وہ تو گھر پر ہیں، کہیں بھیجے نہیں گئے؟
’’ٹھیک ہے تو پھر گھر چلتے ہیں۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا۔ تم میری خاطر مدارات بھی کرلینا اور میں لفافے بھی دیکھ لوں گا۔ وہ سرجھکائے چل پڑا۔ اس کے چہرے پر گہری سوچ دکھائی دے رہی تھی۔ وہ پریشان یا خوف زدہ دکھائی نہیں دے رہا تھا جب ہم کھیتوں کی حدوں سے نکل کر گاؤں کے قریب پہنچے تو خاصا اندھیرا ہوچکا تھا۔ وہ اچانک رکا، اس نے میری طرف دیکھا اور پھر آہستہ کہا:
’’سردار باز نہیں آیا، میں نے اسے بہت سمجھایا تھا۔یہ دونوں لفافے میں نے اس کے لیے خریدے تھے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے چلنے لگا۔ اس نے مجھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ میں نے بھی اسے روکنا مناسب نہ سمجھا، اس کی اب ضرورت بھی کہاں تھی۔ اس نے سب کچھ بتادیا تھا … سردار … پٹواری کا بیٹا اور اس کا دوست تھا۔
نمبردار اور پٹواری دیہاتی معاشرے میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ لوگ ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ تو مجھے پہلے بھی تھا لیکن اس گاؤں میں اس حوالے سے ایک مختلف تجربہ بھی ہوا۔
میں نمبردار جلال الدین کے گھر پہنچا۔ کمال بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے علیک سلیک کی اور اٹھ کر چلا گیا وہ جان چکا تھا کہ میں اس کے باپ سے ملنے آیا ہوں۔ نمبردار نے بڑی عزت سے بٹھایا اور میں نے قدرے آہستگی سے کہا: ’’آپ کے پاس میں اس لیے آیا ہوں کے مائی رجّی کے گھر چوری کرنے والے کا پتہ چل گیا ہے۔‘‘
تو پھر اسے گرفتار کیجیے۔ تھانیدار صاحب میں چاہتا ہوں کہ اس کے خلاف عدالتی کارروائی سے پہلے اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر الٹا بٹھا کر پورے گاؤں میں اسے ذلیل کیا جائے۔‘‘ وہ رکا اور اشتیاق سے پوچھا۔ ’’کون ہے چور، کیا اسی گاؤں کا ہے؟‘‘
’’اسی گاؤں کا ہے آپ کے دوست اور پٹواری کا بیٹا سردار۔‘‘
’’کیا کہا آپ نے تھانیدار صاحب؟ پٹواری کا پُتّر سردار۔ نہیں جی آپ کو دھوکا ہوا ہے۔‘‘
مجھے دھوکا نہیں ہوا، اس نے مائی رجّی کے گھر چوری کی تھی۔‘‘
نمبردار جلال الدین کے چہرے پر تذبذب کی پرچھائیں لہرا رہی تھیں۔ چند لمحے تو وہ خاموش رہا اورپھر کہنے لگا: ’’تھانیدار صاحب! یہ معاملہ گول ہی کر جائیں۔‘‘ اس کی آواز پھنسی پھنسی تھی۔ کھنکار کر میرے قریب ہوکر میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگا:
’’دیکھیں، مائی رجّی کی کوئی چیز گم نہیں ہوئی اس کی ہر چیز جیسے تھی، اسے مل چکی ہے۔ پٹواری عزت دار آدمی ہے۔ بدنامی ہوگی۔ سردار کو میں بلوائے دیتا ہوں، آپ خود اسے دوچار جوتے مار کر سزا دے کر چھوڑ دیں۔ میں بھی اسے سمجھا دوں گا۔ انشاء اللہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔‘‘
جلال الدین نمبردار کے اس طرح گرگٹ کی طرح یک دم رنگ بدلنے پر مجھے خاصی حیرت ہوئی۔
’’نمبردار صاحب! ابھی تو آپ چور کا منہ کالا کرکے اسے پورے گاؤں میں ذلیل کرنا چاہتے تھے۔ اب پٹواری کے بیٹے کا نام سن لیا ہے تو سارے معاملے ہی کو گول کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں میں سرکاری ملازم ہوں۔ علاقے کی سب سے نیک عورت کے گھر چوری ہوئی ٹھیک ہے مال مل گیا۔ لیکن چور کو تھوڑی بہت سزا تو ضرور ملنی چاہیے۔ میں تو اپنی کارروائی پوری کروں گا۔‘‘
نمبردار جلال الدین نے مجھے بہت سمجھانے کی کوشش کی، لالچ بھی دیا لیکن مجھے اب ضد ہوگئی تھی۔ میرا فرض یہی تھا کہ ایک بار سردار کو گرفتار کروں اس کے بعد وہ اس کی ضمانت کرائیں اور عدالت میں مقدمے کی پیروی کریں۔ میرا کام ضروری کارروائی کرکے اسے عدالت کے سپرد کرنا تھا۔
میں تھانے پہنچا۔ حوالدار کو دو سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ پٹواری کے گھر جائے اور اس کے بیٹے سردار کو تھانے لے کر آئے۔ نصف گھنٹے کے بعد حوالدار اور سپاہی آئے تو پٹواری کا بیٹا سردار ان کے ساتھ نہیں تھا۔
’’جناب وہ گھر پر نہیں ملا۔ پٹواری صاحب بھی ہمارے پیچھے آرہے ہیں۔ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
میرا ماتھا ٹھنکا، لیکن میں نے اپنا شک ظاہر نہ ہونے دیا۔ پٹواری نور محمد ہانپ رہا تھا میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ میں نے تمام سپاہی نکال دئے۔ پٹواری نور محمد نے بیٹھتے ہی کہا:’’تھانیدار صاحب! میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے خدا کے لیے مجھے بے عزت ہونے سے بچالیں۔‘‘
سردار کہاں ہے؟ میں نے پوچھا۔ نمبردار نے آپ کو اطلاع دے دی ہے اور آپ نے بیٹا غائب کردیا۔ بات ہے نا؟
پٹواری نور محمد نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے آہ وزاری شروع کردی۔ ’’آپ بھی سرکاری ملازم ہیں۔ میں بھی سرکار کا خادم ہوں۔ جوانوں سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ سامان مل چکا ہے۔‘‘
پٹواری صاحب! آپ میرے سوال کا جواب دیں کہ آپ نے اپنے بیٹے سردار کو کہاں چھپایا ہے۔ اگر آپ نے نہ بتایا تو میں آپ کو بھی اعانت جرم میں یہاں بٹھائے رکھوں گا اور پرچہ بھی کاٹ سکتا ہوں۔‘‘
پٹواری نور محمد اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے کہا: ’’تھانیدار صاحب! میرے ان بندھے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں۔ سردار بچہ ہے۔ اس کا جرم بھی معمولی ہے۔‘‘
میں پھٹ پڑا۔ اس کا جرم معمولی نہیں۔ اس نے ایک نیک اور بزرگ عورت کی جوان اور شریف بیٹی کی شادی رکوانے کی کوشش کی سنا آپ نے ۔ اس کا جرم یہ نہیں کہ اس نے چوری کی۔ اس سے بڑا جرم اس کا ارادہ اور اس کی نیت تھی جو خراب تھی۔ اس کا اس شریف گھرانے میں آنا جانا تھا۔ اس نے نوراں جیسی نیک لڑکی کو میلی آنکھ سے دیکھا۔ میں اسے گرفتار کروں گا۔‘‘
پٹواری نور محمد کے بندھے ہوئے ہاتھ کھل گئے۔ اس کے چہرے پر لجاجت اور مسکینی کی جگہ خباثت دکھائی دینے لگی۔ اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو یہ سوچ لیجیے کہ نوراں کی بدنامی ہوگی۔‘‘ اس کے لہجے میں دھمکی چھپی ہوئی تھی، میں نے اسے پالیا تھا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے بڑے زہریلے انداز میں پوچھا۔
یہ جاننا آپ کا کام نہیں، جس دن آپ نے سردار کو گرفتار کیا، اسی روز سے نوراں کی بدنامی ہونے لگے گی۔ جی ہاں، پھر ممکن ہے کہ چند دنوں کے بعد ہونے والی نوراں کی شادی میں کھنڈت پڑجائے۔‘‘
انسان کتنا خود غرض اور بے شرم ہوتا ہے۔ اسے اپنے مفاد کے لیے کسی کی آبرو کا خیال تک نہیں آتا۔ ’’پٹواری میرے ہوتے ہوئے نوراں کی بدنامی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بارے میں کسی نے ایک بھی گھٹیا لفظ زبان سے نکالا تو میں اس کی زبان کھینچ لوں گا مجھے آپ… آپ کی کیا اپنی کوئی بیٹی یا بہن نہیں؟ آپ کو ایسی بات زبان سے نکالتے ہوئے خدا کا خوف نہیں آیا؟‘‘
’’سردار کو کتنی جلدی حاضر کرسکتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں نے اسے ساتھ والے گاؤں بھجوادیا ہے، گھنٹے بھر میں آسکتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے پٹواری صاحب! آپ دو گھنٹے کے اندر اندر سردار کو یہاں لے کر آجائیں۔ ہاں نمبردار اور اس کے بیٹے کو بھی ساتھ لے آئیں۔‘‘
پٹواری نور محمد سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی میں نے مائی رجّی کے گھر کا رخ کیا۔ دروازے پر دستک دی اندر سے مائی رجّی کی شفقت بھری آواز آئی۔ ’’کون ہے بھائی؟‘‘
میں نے اپنا نام بتایا تو دروازہ کھل گیا، کوٹھری کے اندر لالٹین جل رہی تھی۔ مائی رجّی کے چہرے پر تقدس تھا، وہ آہستہ سے بولی :’’خیرسے آئے ہو؟ تھانیدار پُتر؟‘‘
میرا جواب سنے بغیر نوراں کو مخاطب کرکے کہنے لگی: ’’نورے! دیکھ گھر کون آیاہے، دودھ لے آ۔‘‘
میں نے جھکی جھکی نگاہوں والی نوراں کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ بتاتا تھا کہ اس کا تن ہی اجلا نہیں بلکہ من بھی پاک اور اجلا ہے۔ تو کیا ایسی جوان لڑکی کی بدنامی کے لیے لوگوں کی زبانیں کھلیں گی۔ اس کی رسوائی ہوگی۔ میں کانپ گیا۔
’’نہیں اماں دودھ رہنے دو۔ آپ کو ایک بات بتانے آیا ہوں۔ آپ کے چور کا پتہ چل گیا ہے۔‘‘
’’اچھا کون ہے وہ؟ جس نے مجھ غریب کو پریشان کیا تھا۔‘‘
’’سردار‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’پٹواری نور محمد کا بیٹا۔‘‘
’’توبہ! توبہ!!‘‘ مائی رجّی کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ وہ تو ایسا نہیں تھا۔ اچھا وہ چپ ہوگئی۔
میں اس کا نورانی چہرہ دیکھ رہا تھا جس پر کرب دکھائی دے رہا تھا۔ وہ آہستہ سے بولی
’’اسے پکڑ لیا ہے تو چھوڑ دے بیٹا! میں نے اسے معاف کیا۔‘‘
’’اچھا اماں… یہی پوچھنے آیا تھا۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘
’’اللہ تجھے ترقی دے۔ تجھے ہر بلا سے محفو ظ رکھے۔ مائی رجّی نے مجھے دعا دی۔ میں جانتا ہوں ایسے ہی نیک لوگوں کی دعاؤں کے طفیل میں میں نے محفوظ اور پُرسکون زندگی بسر کی ہے۔
سردار سرجھکائے کھڑا تھا۔
اس کے چہرے پر ندامتوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کی آواز لرز رہی تھی۔ اس میں آنسوؤں کی نمی تھی۔ نمبردار جلال اس کا بیٹا اور پٹواری نور محمد وہاں موجود تھے۔
’’میں بہک گیا تھا۔ یقین کریں کبھی میرے دل میں نوراں کے بارے میں برا خیال نہیں آیا۔ کبھی میں نے اسے میلی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اپنے ماں باپ کو بتانے کی ہمت نہ تھی۔ جب نوراں کی شادی کے دن طے ہوگئے تو میں پریشان ہوگیا۔ کمال میرا یار ہے میں نے اسے پہلی بار بتایا کہ میں نوراں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور میں اس کی شادی رکوا کر ہی رہوں گا۔ میں نوراں کو بدنام نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے سوچا جہیز چوری ہوجائے تو شادی رک جائے گی۔ بس جناب میری حماقت تھی، میرا دل مجھے ایک پل کے لیے چین نہ لینے دے رہا تھا۔ میں نے کمال کو بتایا تو اس نے بڑی لعن طعن کی۔ اسی نے مجھے لفافے خرید کر دئے میں چاہتا تھا کہ چوری کا مال مائی رجّی کو مل جائے اور کسی کو میری اس کمینی اور ذلیل حرکت کا پتہ نہ چلے، اسی لیے میں نے الٹے ہاتھ سے خط لکھا۔‘‘
وہ رکا پھر بولا:
’’تھانیدار صاحب! میں ہر سزا کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’کچھ لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے تمہیں گرفتار کرکے عدالت کے حوالے کیا تو وہ نوراں کو بدنام کرکے تمہاری گرفتاری کا بدلہ لیں گے۔‘‘
پٹواری نور محمد کی نگاہیں شرم سے جھک گئیں۔ اس کے بیٹے ملزم سردار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ یوں لگا جیسے سارے جسم کا خون جمع ہوکر اس کے چہرے پر چھلکنے لگا ہو۔ وہ طیش سے بولا:
’’میں اسے قتل کردوں گا۔ ان کی زبانیں کھینچ لوں گا جو…‘‘
میں نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔
’’مائی رجّی نے تمہیں معاف کردیا ہے۔ اس میں تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔‘‘
سردار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مائی رجّی کی بیٹی نوراں کی شادی کے دن سارا گاؤں موجود تھا۔ پورے گاؤں نے مائی رجّی کی برٹی نوراں کو پرُ خلوص دعاؤں سے رخصت کیا۔ کہاروں کے بجائے سردار اور کمال ڈولی اٹھا کر نوراں کی سسرال تک پہنچانے گئے۔ گاؤں کی زندگی کا یہ عجیب ترین منظر تھا۔
(حجاب اکتوبر ۱۹۸۸ء سے ماخوذ)