سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ’’قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ وہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں۔‘‘ لیکن خواتین کے سلسلے میں فرمایا: ’’اللہ کے رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے، ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کرتی ہیں اور ان لوگوں پر جو قبروں پر چراغ جلاتے ہیں۔‘‘
آپؐ کا قبروں کی زیارت کا مدعا کیا تھا؟ یہی ناکہ انسان اس فانی زندگی کی لذتوں میں کھونے کے بجائے آخرت کا احساس ہر آن تازہ رکھے۔ ذہن، فکرِ آخرت میں لگا رہے اور دنیاوی کشش اس کی اخروی زندگی میں حائل نہ ہو۔ اسی طرح وہ بہت حد تک دنیاوی آلودگیوں سے بچا رہ سکتا ہے۔ اس کے برعکس خواتین کو قبروں کی زیارت سے اس لیے روکا کہ وہ نسبتاً حساس ہوتی ہیں۔ اپنے عزیزوں کی قبروں کی زیارت کرکے وہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکیں گی۔ اور پھر مرد و زن کا اختلاط فتنوں کا درکھولنے کے لیے راہیں ہموار کردے گا۔ یوں شیطان کی پالیسی کامیاب ہوجائے گی کہ جو شے عبرت کدہ تھی وہ عشرت کدہ میں بدل جائے۔
نبی کریمؐ نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔ میں تمہیں اس سے روکتا ہوں۔ آگاہ رہو کہیں تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنالینا۔ ‘‘ (مسلم) اس حدیث کی رو سے عبادت کے ارادے، یا اعترافِ عظمت و بزرگی کے طور پر کسی نبی، ولی و بزرگ کی قبر پر سجدہ کرنا حرام ہے۔ حتیٰ کہ قبر کے احاطہ و حدود میں بھی نماز پڑھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے انس بن مالک کو قبر کے نزدیک نماز پڑھتے دیکھ کر دوبار فرمایا ’’قبر سے بچو۔‘‘ یعنی قبر کے نزدیک نماز مت پڑھو۔ آپؐ قبر پرستی کے سلسلے میں اتنے حساس اور محتاط تھے کہ فرمانِ نبویؐ ہے: ’’قبر پر نہ بیٹھو، نہ ان کی طرف منھ کرکے نماز پڑھو۔‘‘ اسلام میں قبروں کو سجدہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پیغمبر کی غیرتِ توحید نے قبر کی طرف منھ کرکے خدا کو بھی سجدہ کرنا پسند نہ کیا کہ آئندہ نسلیں شرک میں ملوث نہ ہوجائیں۔
حضرت قیسؓ بن سعد سے مروی ہے کہ ’’میں نے حیرہ شہر میں دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کررہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سجدہ کے سب سے زیادہ مستحق تو نبیؐ اکرم ہیں۔ لہٰذا بارگاہِ نبوی میں حاضرہوکر میں نے عرض کیا، میں نے حیرہ میں دیکھا ہے کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کررہے ہیں۔ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق تو آپؐ ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ یہ بات سن کر آپؐ نے فرمایا: تم اگر میری قبر سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے عرض کیا جی نہیں۔ آپؐ نے تاکیداً فرمایا ایسا مت کرو۔ اگر میں ما سوا اللہ کے کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتاتو بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ اس حدیث سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ حرام ہے۔ خواہ وہ خدا کا محبوب پیغمبر ہی کیوں نہ ہو۔
مگر اس دور کے خود ساختہ رسومات و رواج کے مقلد مسلمانوں نے پیغمبرؐ کے اسوہ کو ترک کرکے قبروں پر میلے ٹھیلے رچانے، عرس کرنے، چڑھاوے چڑھانے، قوالی و گانا سننے و سنانے، چراغاں کرنے نیز شیرینی و چادر چڑھانے اور کاروبار چمکانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ زیارتِ مزار اسلام کا جز اور مذہبی فریضہ سمجھ لیا گیا ہے۔ قبروں میں مدفون بزرگوں اور ولیوں کو حاجت روا اور مشکل کشا اور نجات دہندہ مان کر انہیں نعوذ باللہ خدائی اوصاف سے متصف قرار دے دیا گیا ہے۔
آج کتنے غیر مسلمین ہیں جو بجا طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں۔ ہم جو مورتی پوجا کرتے ہیں وہ بھگوان نہیں بلکہ اس کا روپ ہوتی ہیں۔ لیکن مسلمان تو مردوں کی پوجا کرتے ہیں۔ جو مرکر مٹی ہوچکے ہوتے ہیں۔ بتوں کو دیکھ کر ہمیں ایشور یاد آتا ہے مگر قبر پوجنے سے اللہ کسے یاد آتا ہے؟ توحید کے علمبردار کی حمیت پر کتنی کاری ضرب ہے ؎
بیچتا ہے ہاشمی، ناموسِ دینِ مصطفی
مزاروں پر لوگ اپنی موت کو یاد کرنے اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے نہیں جاتے، بلکہ یہ احساس لے کر حاضری دیتے ہیں کہ یہ بخشے بخشائے بزرگ ہیں۔ ہماری بخشش کا بھی یہی ذریعہ ہیں۔ دنیا کے تمام مصائب دور کرنے اور آخرت میں جنت حاصل کرنے کا وسیلہ یہی پاکیزہ نفوس ہیں۔ ان کا دامن تھامنا دنیوی و اخروی نجات کا باعث ہے۔ معاذ اللہ۔ پھر مزاروں پر اپنی مرادیں مانگنے والی خواتین مزاروں پر کیا بدعتیں پھیلائی ہیں۔ جوشِ عقیدت میں نعوذ باللہ سجدے تک کرگزرتی ہیں۔ منتیں مانگتی ہیں، کارساز و کارکشا قبروں میں مدفون انسانوں کو ہی سمجھتا ہیں۔
مزاروں پر دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔ عرس ہوتا ہے۔ قوالیاں گائی جاتی ہیں اور ان قوالیوں میں اکثر و بیشتر شرکیہ اشعار سنائے جاتے ہیں۔ مزاروں پر جبیں سائی کے لیے زرق برق لباس میں ملبوس خواتین دعوت نظارہ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ نوجوان طبقہ کے لیے دلکشی و دلچسپی کا تمام سامان موجود ہوتا ہے۔ لذتِ کام و دہن بھی، تفریحات و تعیشات کا مرکز بھی اور اخروی نجات کا باعث بھی۔ کیا یہ اسلامی رنگ ہے؟ دورِ نبوت و دورِ خلافت میں ایسے میلے ٹھیلے ہوتے تھے۔ کیا ایسی باتیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں؟
اللہ کے رسولؐ نے تو فرمایا تھا کہ اللہ کی کتاب اور میری سنت، یہی دونوں ہدایت کا معیار ہیں۔ ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہنا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ قرآن و سنت میں ایسی خرافات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ شرک و بدعت نہایت موذی مرض ہیں اور ان کا علاج اس نسخۂ کیمیا میں ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام پرستوں سے محفوظ رکھ کر محض اپنا پرستار بنائے۔ آمین۔