یہ ۱۹۴۵ء کی بات ہے، جب اقوام عالم میں پنچایت کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا۔ اسی ادارے کے تحت ۱۹۴۶ء میں انسانی حقوق کمیشن اور پھر اس کے بعد خواتین حقوق کمیشن بنا، جب کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں میکسیکو میں ہوئی اور مساوات، ترقی اور امن جدوجہد کے لیے نعرہ قرار پایا۔
بعدازاں ہر پانچ سال بعد کوپن ہیگ (۱۹۸۰ء)، نیروبی (۱۹۸۵ء)، بیجنگ (۱۹۹۵ء)، نیویارک (۲۰۰۰ء) میں خواتین کی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تاہم، ۱۹۹۰ء میں نہیں ہوسکی اور اب ۲۰۰۵ء میں نیویارک میں ہونی ہے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدہ کنونشن فار الیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن، جسے ’سیڈا‘ (CEDAW) کہا جاتا ہے، ہوا۔ اس میں یہ طے پایا کہ عورت اور مرد کو مساوات اور برابری کے مقام پر لانے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس کی ۳۰ دفعات ہیں جن میں ۱۶ دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے متعلق ہیں اور بقیہ انتظامی نفاذ سے متعلق۔
اس معاہدے کی دفعہ ۲۹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے بارے میں ہے۔ اس کامطلب امریکہ کے ایک دانش ور رچرڈ نے راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں لیکچر دیتے ہوئے یوں سمجھایا تھا کہ کوشش جاری ہے کہ عورت کو یہ حق دلایا جائے کہ اولاد کی پیدائش کا فیصلہ وہ کرے۔ اگر کسی مرحلے پر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتی اور وہ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے کہ مجھے اس بوجھ سے نجات دلادی جائے ایسے میں اگر ڈاکٹر انکار کرتا ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتا تو خواتین کے حقوق کے مطابق یہ علاج مہیا نہ کرنے والا ڈاکٹر مجرم تصور کیا جائے گا، اُس عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
۱۹۷۹ء کے ’سیڈا‘ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ۱۳ دائرہ کار طے کیے گئے۔ انھی نکات کو آیندہ جائزوں کے لیے بنیاد قرار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک فریق حکومت ہے اور دوسری این جو اوز۔ حکومتوں کو امداد دینے والے عالمی اداروں کی مراعات کئی پہلوؤں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مشروط ہیں۔ عالمی ایجنڈے کی علم بردار اور بالخصوص عالمی امداد حاصل کرنے والی این جی اوز بھی اپنے کام کے ساتھ، حکومتی اقدام کی نگرانی اور محاسب کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چار سال بعد حکومت کو یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے لیے نکات، تفصیلی جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔
’سیڈا‘ پر اب تک ۱۵۰ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس میں بھی اہم پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک اور خود امریکہ نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے۔ پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر فاروق خان لغاری نے کچھ تحفظات کے ساتھ اس پر دستخط کیے تھے کہ ہم اپنے ملکی آئین کے منافی ضوابط پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔
مساوات، ترقی اور امن کے نام پر بنایا جانے والا خواتین حقوق کمیشن ہو، یا وقتاً فوقتاً کی جانے والی خواتین عالمی کانفرنسیں، یہ عالمی حقوق نسواں تحریک کے مختلف شاخسانے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ۱۳ نکاتی عنوانات سے بظاہر اختلاف ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ عورت کی فلاح و ترقی کے لیے جامع منصوبے کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس بظاہر صورت حال سے فریب کھانے کے بجائے گہرائی میں جاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ رد عمل کی ایک عالمی تحریک ہے جس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خواہ مغرب ہو یا مشرق، غیر مسلم معاشرہ ہو یا مسلم معاشرہ، عورت کے ساتھ کئی حوالوں سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلام کے مسلمہ اصولوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد اسلامی معاشروں میں بھی کئی ایسے رویے مروج ہیں۔
عورت اور اسلام
اسی ایجنڈے کے تحت، اسلام میں عورت کے حقوق اور کردار کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی بڑی وجہ اسلام سے لاعلمی ہے۔
اسلام، عورت کے کردار کے لیے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے، اس نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو عملاً اٹھا کر معاشرے کی ایک قابلِ احترام ہستی بنا کر اعلیٰ مقام سے نوازا۔ قرآنی تعلیمات، احادیثِ نبویؐ اور خود اسوئہ رسولؐ آج بھی نشانِ راہ و منزل ہیں۔ بیٹی کے قتل کی ممانعت، پرورش میں برابری، بچیوں اور بچوں کی تعلیم کے ہدایات، بچیوں کی ضروریات زندگی کی فراہمی، کفالت، بلوغت کے بعد نکاح میں بیٹی کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصتی کا اہتمام کرنا اور باپ کے ترکے میں حصہ دار ہونا اس کا حق ٹھیرا۔ شادی کے وقت مہر کی ادائیگی اور وہ بھی کوئی لگا بندھا ۳۲ روپے کے شرعی مہر کا تصور نہیں ہے۔ بلکہ عورت کے خاندان کی مناسبت سے مہر کا تعین ہونا قرار پایا۔ جب حضرت عمرؓ نے مہر کی رقم مقرر کرنے کے لیے مشورہ چاہا تو ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: قرآن نے ڈھیروں مال بھی عورت کو دیا ہو تو واپس نہ لینے کی نصیحت کی ہے، آپ کیسے اس رقم کو مقرر کرسکتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔
نان نفقہ، یعنی خوراک، لباس،مکان اور استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کرکے دینا بھی شوہر کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ٹھہرا۔ حضرت عائشہؓ کو نبی ﷺ نے حبشیوں کا تماشا دکھا کر بیویوں کے لیے تفریح کی نظیر بھی قائم کی۔ شوہر کے ترکے سے آٹھویں حصے کی بیوی حق دار ٹھہری۔ بحیثیت ماں حق خدمت باپ سے تین گنا زیادہ دیا گیا۔ سعی ہاجرہ کو حج کا لازمی رکن قرار دے کر بچے کی پرورش کے لیے کی جانے والی دوڑ دھوپ کو اعزاز بخشا گیا، بیٹے سے بھی وراثت دلوائی گئی۔ بحیثیت آزاد شہری عورت جان، مال اور عزت میں برابر کی محترم ٹھہری۔ حق ملکیت تسلیم کیا گیا، کاروبار و ملازمت، رائے، مشورے و محاسبے کا حق بھی ملا۔ حضرت ام سلمیٰؓ کے مشورے پر خود حضورﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمل کیا۔
فرائض میں اولاد کی پیدائش و پرورش، شوہر کی فرماں برداری و شکر گزاری ضروری قرار پائی۔ عورت اور مرد کے نکاح کے ذریعہ وجود میں آنے والے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان میں، تقسیمِ کار میں مرد بیرون خانہ معاشی سرگرملیوں کے لیے اور عورت اولاد کی پرورش کے لیے گھر کی نگراں ٹھہری۔ یوں باہم تعاون کے لیے ہن لباس لکم و انتم لباس لھن کے مصداق ایک دوسرے کی کمزوریوں کے ساتھ نبھاؤ اور خوبیوں کی قدردانی کی تلقین کے ساتھ گھر کے ادارے کو پُرسکون گہوارہ بنایا گیا۔ اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو خاندان کے حکم تصفیہ اور صلح کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ طلاق جائز مگر ناپسندیدہ گردانی گئی اور اگر نبھا نہ ہوپائے تو آخری چارہ کار کے طور پر مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کے نتیجے میں بننے والے معاشرے کے مقابلے میں حقوقِ نسواں کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشرے پر ایک دوسری طرح سے اثر انداز ہوئی ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے اور انسانی زندگی عدم توازن اور انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
اس حوالے سے نئے درپیش چیلنج یہ ہیں:
خاندان کی نئی تقسیم:
آج کا ایک بڑا چیلنج عورت کے سماجی کردار کی وجہ سے خاندان کو درپیش ہے۔ قرآن کی رو سے الرجال قوامون میں قوام کی تعبیر و تفسیر کا تعین ہے۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جب عورت کما رہی ہو اور شوہر اس کا کفیل نہ ہو تو پھر مرد قوام کیوں ٹھہرے، عورت ہی قوام کیوں نہ ہو۔ گھر کے ادارے میں کسی ایک کو نگراں و منتظم کی ذمہ داری سونپی جانی تھی، اللہ نے وہ ذمہ داری مرد کو سونپی۔ قرآن کے مطابق قوام بنانے کی دو وجوہ میں سے اگر ایک ساقط بھی ہوجائے تو بھی مرد ہی قوام ہوگا۔ بنیادی طور پر نان نفقہ کی ذمہ داری مرد کی ہے اور عورت اگر کماتی بھی ہو، مرد سے زیادہ مال بھی رکھتی ہو، تب بھی مرد کا یہ حق برقرار رہتا ہے، جب کہ اپنے مال پر عورت آزادانہ تصرت کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر وہ اپنی خوشی سے گھر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی نفلی نیکی ہے۔
عورتوں کی برابری کے ایجنڈے اور ہر طرح کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ، یہ تقسیم ذہنوں کو پراگندا کررہی ہے۔ پہلے ۵ فیصد کوٹہ ملازمت خواتین کے لیے مخصوص ہوا، اب اس کو ۵۰ فی صد تک لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ملازمتوں پر ۵۰ فیصد کوٹے پر اور ۱۵ سے ۲۰ فیصد میرٹ پر خواتین آجائیں، تو تقریباً ۷۰ فیصد ملازمتیں عورتوں کے پاس اور ۳۰ فیصد مردوں کے پاس ہوں گی۔ اس طرح مردوں کی بے روزگاری میں اضافے اور گھر میں تعاون اور ذمہ داری کی تقسیم پر اصرار سے معاشرے کا ایک نیا نقشہ بنے گا۔ معاشی میدان میں عورتیں سرگرم اور مرد گھر کے نگہبان ہوں گے۔ ماں کے اندر ممتا کے روپ میں اولاد کی پرورش کے لیے عطا کردہ تحمل، نرمی، الفت کی جگہ باپ لے گا جس کو بیرونی محاذ کے لیے زیادہ طاقتور اور سخت جان بنایا گیا۔ اس طرح توازن کے بگڑنے سے اولاد اور خاندان پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔
ان ممکنہ خدشات کے باوجود مغرب سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر عورت کی معاشی ترقی کے لیے، ہر میدان میں مخصوص نشستیں، قرضہ جات کا نظام، ہر شعبۂ زندگی میں بلا تفریق تعلیم و ملازمت، مرد کے ساتھ شانہ بہ شانہ دوڑ اور اعتدال پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے لیے، عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جب کہ میڈیا کے ذریعہ مادہ پرستانہ تہذیب کی یلغار ہے۔
دوہری مظلومیت
اگر پہلے عورتوں کو گھروں میں بند کرکے، جائز ضرورتوں اور حقوق کے لیے بھی بیرون خانہ نقل و حرکت پر قدغن ایک انتہا تھی، تو اب میڈیا کی تحریک، کوٹہ سسٹم، عورتوں کے لیے رعایتوں وغیرہ کے ذریعہ بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے لیے ایک طرح کا ریاستی جبر ہے جو دوسری انتہا ہے۔ عورت پہلے ایک انتہا پر مظلوم تھی تو اب دوسری انتہا پر مظلوم ہے۔
معاشی ترقی اور خود انحصاری کے نام پر مرد کی کفالت سے محروم کرنا، اور عورت کی کمائی کے لیے عوامل و حالات پیدا کرنا عورت کے ساتھ خیر خواہی نہیں ظلم ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلم معاشرے کسی بھی جگہ اپنی اصل روح کے مطابق اسلامی قدروں کی آبیاری نہیں کررہے، تاہم ۹۹ فیصد مرد خواہ دین کا کوئی فہم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، یہ جانتے ہیں کہ بیوی کو کما کر کھلانا ان کی ذمہ داری ہے۔
گھر کے اندر عورت کے کردار کو معاشی ترقی کے عوامل کے طور پر تسلیم کیا جانا، وراثت کی تقسیم اور منتقلی، حق مہر کی ادائیگی اور حق ملکیت کے آزادانہ استعمال، اسلام کے دئے گئے ماڈل کی روشنی میں عورت کی معاشی ترقی کا حصہ تھے مگر ان سے صرفِ نظر کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ ان پر پوری دلجمعی کے ساتھ، تمام معاشرے میں اخلاقاً و قانوناً عمل درآمد ہو۔
معاشی کفالت کے حوالے سے جہاں مرد حقیقی مجبوری، بیماری یا نشے وغیرہ کی بری عادات کی وجہ سے نہ کماتے ہوں یا کم کماتے ہوں، وہاں بھی عورت کو کمائی کے لیے دھکیل دینے کے بجائے ریاست کو ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ خوش حال رشتہ دار اور ریاست اس کی کفالت کا بوجھ اٹھائیں۔
۲۰۰۰ء میں نیویارک میں ہونے والی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے دوران ایک امریکی خاتون، ہم پاکستانی خواتین کے وفد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ میں تین سال پاکستان میں رہی اور میں نے پاکستانی عورتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے : ’’پاکستانی عورتو! تم کہاں ہو؟‘‘
اس سے جب یہ پوچھا گیا: بتاؤ عافیت کس میں ہے، مرد عورت کے لیے کما کر لائے یا عورت خود اپنے لیے کمائے؟ اس نے کہا: عافیت تو اسی میں ہے کہ عورت گھر بیٹھے اور کمانے کی پابند نہ ہو، مگر یہ غلط ہے کہ اس کو باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اسے بتایا گیا کہ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی و منشا پر چھوڑتا ہے چاہے تو وہ باہر جاکر ملازمت و کاروبار کرے، چاہے گھر بیٹھے مگر اس کی کفالت کی ذمہ داری ہر دو صورت میں مرد ہی پر ہے۔ اس نے تسلیم کیا: اگر ایسا ہے تو یہ بہترین ہے۔ پھر مغرب کی عورت کی وہ قابلِ رحم حالت بھی زیر بحث آئی، جس کے کئی ساتھی تو ہوتے ہیں مگر کوئی شوہر یا کفیل نہیں ہوتا۔ اس کے اپنے بچے ہونے نہیں پاتے، اگر ہوں تو ریاست پالتی ہے یا وہ خود نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان کے لیے کماتی اور انھیں پالتی بھی ہے۔
عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کے لیے کام کرنا چاہے، اس کو اس کے لیے میدان کار مہیا کیا جانا چاہیے۔ باہم مسابقت ہو مگر وہ صرف عورتوں کے مابین۔ مرد اور عورت کو مکمل مخلوط ماحول میں یا تحفظ فراہم کیے بغیر ملازمت و معاشی ترقی میں ساتھ ساتھ کھڑا کیا گیا تو کئی واقعات ہوں گے۔ لہٰذا ہر ہر سطح پر مخلوط ماحول جہاں اسلام کی روح اور اقدار کے منافی ہے وہاں خود عورتوں کے لیے بھی غیر محفوظ اور مسائل کا باعث ہے۔
خواتین کی سیاسی نمائندگی
سیاسی نمائندگی میں خواتین کے لیے ابتداً ۳۳ فیصد اور پھر ۵۰ فیصد تک نشستیں مخصوص کروانا بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان نے اس ۳۳ فیصد نمائندگی کی روشنی میں مقامی حکومتوں میں خواتین کو ۳۳ فیصد نمائندگی دی، جس کے مطابق ۴۰ ہزار کی تعداد میں خواتین کونسلر میدان میں آئیں۔ قومی اسبمبلی میں ۲۲ فیصد اور سینیٹ میں ۱۷ فیصد خواتین نمائندگان ہیں۔ پاکستان اس کو اپنی اہم کارکردگی کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اس نے خطے کے کئی بڑے ممالک سے بڑھ کر عورتوں کو نمائندگی دی ہے اور اسے خواتین کے حقوق کے حصول کا بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق سیاسی نمائندگی میں تناسب کے لحاظ سے پہلے نمبر پر روانڈا، ۳۲ ویں پر پاکستان، ۵۹ پر امریکہ، ۹۰ پر بھارت، ۱۱۴ اور ۱۱۵ پر ترکی اور ایران ہیں۔ یوں معاشرتی اقدار و روایات کے منافی، سیاسی نمائندگی کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا گیا، جو مغربی تہذیب کے نمائندہ ممالک بھی نہیں اٹھا سکے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پارٹی نشستوں پر متناسب نمائندگی عورت کو ایک مرد امیدوار کی طرح تمام تر انتخابی جدوجہد سے بچانے اور نمائندگی دلوانے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ این جی اوز’ سیڈا‘ کی روشنی میں اس طریق کار کو عورتوں کا قومی دھارے میں شامل کیا جانا نہیں گردانتی اور مردوں کی طرح انتخابی امیدوار بننے کی حامی ہیں۔ خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے یہ امور توجہ طلب ہیں: پارٹی نامزدگی میں عمر، دیگر گھریلو حالات کا لحاظ اور پھر پارلیمنٹ میں الگ نشستیں، کارروائی میں حصہ لینے اور تیاری کے لیے کچھ ضوابط کار، خاندان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے کچھ رعایتیں، مثلاً شوہر و بچوں کا مقام اسمبلی پر تبادلہ و داخلہ، ہر محفل و استقبالیے و عشائیے میں شامل کیا جانا وغیرہ۔
مغرب زدہ تعلیم
عورت کی تعلیم بھی ایک اہم عنوان ہے۔ آغا خان بورڈ کے نظام امتحانات کے ساتھ الحاق، نصاب میں تبدیلی، ٹیکسٹ بک بورڈز کی نج کاری، غیر ملکی امداد کا جنسی امتیاز ختم کرنے کے ساتھ مشروط ہونا، مخلوط تعلیم کی ترویج، جنس کی تعلیم کی بابت سوال ناموں اور ورکشاپوں کا این جی اوز کی طرف سے اہتمام، فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے سیکنڈری اسکول کی طالبات و طلبہ کو YES(یوتھ ایکسچینج اسٹڈیز) اور IEARN(انٹرنیشنل ایجوکیشن اینڈ ری سورس نیٹ ورک) پاکستان کے تحت برائے سال (۲۰۰۵ء- ۲۰۰۶ء) کے لیے امریکہ بھجوانا اور مخصوص خاندانوں کے ساتھ قیام کے لیے پیش رفت وغیرہ ایسے اقدام ہیں جو تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کی آڑ میں تہذیبی تبدیلی کے لیے تسلسل سے اٹھائے جارہے ہیں۔
بلوغت کی تبدیلیاںو اثرات، ازدواجی زندگی کے مقتضیات، ایڈز بچاؤ کے طریقوں کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے جنسی تعلیم دی جانے پر بعض ’’باشعور طبقات‘‘ کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز تعلیم سے بچانے کے لیے اپنی اقدار و اخلاقیات کے حدودِ کار میں رہتے ہوئے مناسب انداز میں اس کو حدیث وفقہ کے مطابق ترتیب دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے، یہ بھی ایک چیلنج ہے۔
امتیازی قوانین کا خاتمہ
قانون سازی بھی اس ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس کے تحت جو ملکی قوانین عورت اور مرد میں کسی امتیاز کو روا رکھتے ہوں، ان کو بدلنے کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے۔ اس قانون سازی کے لیے پہلے قدم کے طور پر، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے جائزے کے لیے نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن، چیف آف آرمی اسٹاف نے ۲۰۰۲ء میں بنایا۔ جس نے آئین کا جائزہ لے کر سفارشات کی ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے، جس میں سر فہرست حدود قوانین کے خاتمے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کمیشن کو جو اس وقت وزارتِ خواتین کے تابع ہے، ایک خود مختار وزارت دینے کے لیے ہر موثر فورم پر آواز اٹھائی جارہی ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کا انتظام اور خود دن رات یا کئی کئی روز بیرون شہر یا بیرون ملک ملازمت، میٹنگوں، سیمی ناروں، ورکشاپوں، اجلاسوں میں شرکت یا دورے اور فنکشنوں میں غیر محرم مردوں کے ساتھ مصروف عمل رہنا، جہاں آئندہ نسلوں کی تربیت پر اثر انداز ہوگا وہاں گھروں میں غیر محرم نوکرانی یا آیا اور شوہر کی موجودگی بھی معاشرے میں کئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون، انٹرنیٹ، سی ڈی پروگراموں میں مصروف کرکے، یا کئی کئی چینلوں کے ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا معاشی ترقی میں حصے کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کرکے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔
ازدواجی زندگی میں مداخلت
مغرب نواز حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور فیصلوں کی آزادی میں یہ بھی شامل کیا جانا چاہیے کہ عورت اگر عورت کو ہی زندگی کا ساتھی منتخب کرنا چاہے تو کرسکے، تولیدی صحت میں یہ اختیار بھی حاصل ہونا چاہیے کہ اولاد کی تعداد کا فیصلہ عورت خود کرے، اور اگر وہ قبل از ولادت فراغت چاہے تو قانوناً اس کا حق اس کو حاصل ہو، گھریلو تشدد میں شوہر، بیوی کی مرضی کے خلاف عمل کرے تو اس کو اس جرم کی سزا ملنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ۲۰۰۰ء میں بیجنگ پلس فائیو میں سفارشات تھیں، جن کو معاہدے میں شامل کروانے کی کوشش تھی، اس میں گذشتہ پانچ سالہ کوششوں اور دلائل کا اضافہ ہوا ہے۔
عورت کی ترقی کے ایسے فورموں پر، یہ موقف بھی بغیر رو رعایت کے کھل کر بیان کیا جاتا ہے کہ ’سیڈا‘ پر عائد تحفظات ختم کردئے جانے چاہئیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان ہونا چاہیے، دستور میں شامل قرار داد مقاصد کی حامل دفعہ کو حذف کردیا جانا چاہیے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس وقت کیا فیصلہ کرلیا جاتا ہے!
حقوق نسواں کی عالمی تحریک اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ’سیڈا‘ اس وقت ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ بنادیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اس پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے، این جی اوز کی صورت میںمنظم قوتیں سیکولر ایجنڈے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں، حکمران وقت سامراجی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں، تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کے ذریعہ تہذیبی تبدیلی کا عمل جاری ہے، اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلام کو تحریف کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آج کے دور کی تہذیبی جنگ میں اپنی شناخت قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے، نیز عالمی برادری کے ساتھ بھی رہیں اور اپنی اقدار و روایات کی حفاظت بھی کریں، یہ کیسے ممکن ہو۔ ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اور عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے کے لیے ایک بھر پور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ بالخصوص خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
(ممبر سینیٹ آف پاکستان)