بڑی تمناؤں کے بعد آج فاطمہ کی شادی کا دن آیا۔ صبح ہی جملہ تیاریاں مکمل کرلی گئیں تھیں۔ شامیانوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ راستے کے دونوںجانب پھلواری کی بہار آئی ہوئی تھی۔ نائی، دھوبی، پالش والا، مالش والا سب اپنی جگہ ایسے تیار تھے جیسے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی مشین، بٹن دباؤ ایک دم شروع۔ کار پارکنگ کا اہتمام ایک طرف تھا۔ مہمانوں کے آرام کرنے کے لیے بستر لگے تھے اور جہیز کا کمرہ تو جنت کا ایک گوشہ بناہوا تھا۔ چھوٹی بڑی کوئی ایسی چیز نہ تھی جو سامان میں شامل نہ ہو۔ ایک سائڈ میں قیمتی قالین پر اعلیٰ درجہ کی کار کھڑی تھی جسے طرح طرح کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ خواتین کے طعام و قیام کا بندوبست الگ تھا۔ کھانے کتنے اقسام کے تیار ہورہے تھے شمار کرنا مشکل تھا۔ تیاریوں میں مصروف لوگوں کو دیکھ کر لگتا تھا گویا بارات آچکی ہے۔ ادھر دلہن کے باپ سیٹھ حسام الدین کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں کہ کہیں کوئی بات ایسی نہ ہوجائے جو مہمانوں کے مقام سے فروتر ہو۔ وقت مقررہ سے پہلے سب ٹھیک ہوجانا چاہیے اس لیے کہ سمدھی صاحب نے بار بار یقین دلایا تھا کہ ہم وقت مقررہ پر پہنچیں گے۔پہنچنے کا وقت ایک بجے کا دیا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے حسام الدین صاحب نے سمدھی کو فون کیا۔ جواب ملا ابھی لڑکا نہانے کی تیاری کررہا ہے۔ حسام الدین صاحب نے اس جواب پر اپنے آپ کو کسی طرح سنبھالا اور انتظام کا جائزہ لینے میں لگ گئے۔
وقت مقررہ سے دو گھنٹے بعد کسی طرح بارات آئی۔ گیٹ ہی پر ناچنے ، گانے والی ٹولی نے بارات کا استقبال کیا اور ناچتے گاتے مہمانوں کو قیام گاہ تک لائے۔ دولھے کو بڑی ہی عالی شان کرسی پر بٹھایا گیا اور چاروں طرف میزبان ایسے کھڑے ہوگئے جیسے نوابی دور میں خدام ہوتے تھے۔ پنڈال مہمانوں اور منتظمین سے کھچا کھچ بھرا تھا گو کہ خواتین کا حصہ الگ تھا پھر بھی زیورات سے لدی ہوئی کچھ خواتین بار بار مردوں کی صفوں میں آآکر بے تکلفی سے گفتگو کررہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مائک پر نکاح کا اعلان ہوا۔قاضی جی نے وکیل و گواہان سے ہلکی پھلکی جرح کی اور بات مہروں پر کچھ تلخی پکڑگئی۔لڑکا گو کہ ایم۔اے۔پی۔ایچ ڈی تھا مگر بر سرِروزگار نہیں تھا اس لیے اس کے باپ تھوڑے ہی مہر بندھوانا چاہتے تھے۔ جب کہ سیٹھ حسام الدین بضد تھے کہ مہر فاطمی ہی باندھے جائیں گے اور عند الطلب ہوں گے اور پھر کچھ یہ بات بھی تھی کہ بیٹی کا نام بھی فاطمہ تھا۔ بہر حال سمجھانے بجھانے پر کسی طرح بات طے ہوئی اور مہر فاطمی ہی پر نکاح ہوگیا۔ نکاح نامہ پر دولہے کے دستخط کرانے کے بعد رجسٹر اندر بھیجا گیاکہ دلہن کے دستخط ہوجائیں۔ رجسٹر واپس آگیا لیکن سب لوگ یہ دیکھ کر حیرت میں پڑگئے کہ دستخط کی جگہ انگوٹھا لگا تھا۔اور میں سوچنے لگا کہ روشنیوں میں نہاتی اس تقریب میں کتنے ذہن و دماغ ہوں گے جو جہالت کے اندھیروں میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہوں گے۔ مگر اس چمک دمک میں کسے فکر ہے کہ ان اندھیرے گوشوں کو تلاش کرے اور ان کے لیے بھی چند چراغ ہی سہی، جلادے۔