آڑوموسم گرما کا خاص پھل ہے۔چپٹے کچے آڑو سے لے کر گول سرخ پکے ہوئے آڑو تک اس موسم میں دستیاب ہیں۔ بڑے آڑو کو شفتالو بھی کہتے ہیں۔ اسے انگریزی میں Peach عربی میں خوخ کہا جاتا ہے۔ یہ پت جھڑ درختوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا پھل انتہائی لذیذ، میٹھا اور خوشبودار ہے۔ قدرت نے اس پھل میں شکر اور لحمیات کے علاوہ لوہا اور فاسفورس بھی سمودیا ہے جس سے اس کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ آڑو کی گٹھلی، اس کے پھولوں اور اس کے پتوں کی بھی خاص اہمیت ہے۔ پھول بطور کرم کش استعمال کیے جاتے ہیں۔ پہلے امراء آڑو کی گٹھلی کا روغن بالوں کی آرائش و زیبائش کے لیے خصوصی طور پر نکلواتے تھے۔
آڑو کا اصل وطن ایران ہے۔ پاکستان میں وادی پشاور آڑو کی کاشت کے لیے بہت موزوں ہے۔ اس کے علاوہ مالا کنڈ، کرم، وزیرستان اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ مردان اور پشاور کا آڑو ذائقے کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔ اب مری کی پہاڑیوں اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی آڑو کاشت کیا جانے لگا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کے شمالی علاقوں میں اس کی پیداوار کافی ہے۔
اطباء کہتے ہیں وہ آڑو سب سے اچھا ہے جس کی گٹھلی بآسانی گودے سے علاحدہ ہوجائے۔ مزاج کے اعتبار سے یہ پھل سرد ہے۔ معدے اور جگر کو طاقت دیتا اور پیاس کی شدت دور کرتا ہے۔
ہمارے ایک عزیز کھانے پینے کا ذرا پرہیز نہیں کرتے، البتہ کھانے میں تین آڑو ضرور کھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر ہو تو میں دوا کے بجائے آڑو کھالیتا ہوں اور ٹھیک ہوجاتا ہوں۔ ان کے گھر دعوت ہو اور مہمان پرہیز کا عذر کرے، تو کہتے ہیں کھانے سے پورا پورا انصاف کرو، بعد میں دو تین آڑو کھالینا، ٹھیک ہوجاؤگے۔
گرم طبیعت والوں کے لیے آڑو بہترین تحفہ ہے۔ خون کی رگوں میں سختی دور کرکے ہائی بلڈ پریشر کو اعتدال پر لاتا ہے۔ قبض کشا اثرات کی وجہ سے زہریلے فضلات خارج کرتا ہے۔ پیٹ کے چھوٹے بڑے کیڑے مارتا اور آئندہ کے لیے ان کی افزائش کو روکتا ہے۔ اسے کھالینے سے پیاس کی شدت ختم ہوکر سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہ گرمی کے بخاروں میں بھی مفید ہے۔ بخار میں میٹھا آڑو کھانے سے طبیعت میں فوری طور پر بشاشت آتی ہے۔ جن لوگوں کو گرمیوں میں بھوک نہ لگتی ہو، پیاس کی وجہ سے براحال ہو، قبض رہتا ہو، چڑچڑا پن بہت بڑھ گیا ہو، ان کے لیے یہ پھل بہت بڑی نعمت ہے۔
ایک بوڑھے سپیرے نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو سانپ ہر چودھویں رات کو ڈس لیتا ہے۔ ایسے میں چھٹانک بھر آڑو کے پتے ایک گلاس پانی میں گھوٹ چھان کر پلائیں، تو فائدہ ہوتا ہے۔
آڑو کی گٹھلی کا تیل کان کے درد اور بہرے پن کے لیے مفیدہے۔ اس کاروغن خود نکلوانا چاہیے تاکہ اس میں کسی اور تیل کی آمیزش کا امکان ختم ہوجائے گا۔
جن لوگوں کے معدے میں تیزابیت رہتی ہو، وہ موسم کے اس پھل سے بہت فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے ایک دو آڑو کھانے سے معدے کی تیزابیت اور گرمی دور ہوجائے گی۔ چند روز باقاعدگی سے یہ پھل کھائیے۔ یہ پھوڑے پھنسیوں اور اس نوع کی دوسری بیماریوں میں بہت مفید ہے۔ کچھ لوگ اس کا چھلکا اتار کر کھاتے ہیں۔ اگر چھلکے سمیت کھایا جائے تو زود ہضم اور قبض کشا ہوتا ہے۔
نوجوان لڑکوں کو آڑو ضرور کھانے چاہئیں کیونکہ اس سے جوش خون کے ساتھ ساتھ رطوبتوں کا اخراج بھی درست رہتا ہے۔ جو لوگ دھوپ میں کام کاج کرتے ہوں، انہیں موسم کی شدت سے غذا کی نالی میں سوزش ہوجاتی ہے۔ کھانا پینا دشوار ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں آڑوکھانے سے جلد آرام آجاتا ہے۔
گرمی کی آمد پر چھوٹے بچوں کے کانوں کے پیچھے اور سرپر سخت خارش والی پھنسیاں نکل آتی ہیں۔ آڑو کی گٹھلی کا مغز اور اس کے برابر ہرے دھنیے کے پتے دونوں پیس لیجیے اور اس کا لیپ پھنسیوں پر کیجیے۔ چند روز میں آرام آجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیم کے جوشاندے سے ان کا سردھوئیے۔ بواسیر کے لیے پہلے زمانے میں آڑو کی گٹھلی کسی پتھر پرپانی کی مدد سے گھس کر اس میں اتناہی کافور اور چار گنا مکھن ملاکر محفوظ کرلیتے تھے۔ اسے بواسیر کے مسوں پر لگانے سے جلن اور درد سے افاقہ ہوتا ہے اور سات آٹھ ہفتے کے استعمال سے مسے بھی خشک ہوجاتے ہیں۔
بڑھاپے میں اگر معدہ کمزور ہو، تو آڑو نقصان دیتا ہے۔ ایسے میں آڑو کے بعد ادرک کا مربہ اور شہد ملاکر کھانے سے وہ جلدہضم ہوجائے گا۔ دائمی قبض میں آڑو کے مغز کا تیل تین چھوٹے چمچ تک حسب برداشت پیتے ہیں۔ آڑو کھانے سے صالح خون پیدا ہوتا ہے۔ یہ معدے، جگر اور آنتوں کے زہریلے فضلات خارج کرتا ہے۔
آڑو کا جیم بھی بنتا ہے۔ کھٹامیٹھا پکا ہوا پھل خوب اچھی طرح صاف کرکے چاقو سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرلیتے ہیں۔ انہیں ہم وزن چینی ڈال کر پکالیا جاتا ہے۔ زیادہ مزیدار بنانے کے لیے اس میں آلو چوں یا خوبانی کی آمیزش کی جاتی ہے۔
درخت پر پکے ہوئے سرخ آڑو لے کر انہیں دو حصوں میں کاٹ لیا اور گٹھلی نکال کر چھلکا اتاردیا جاتا ہے۔ پھر انہیں شیرے میں بھگوکر ڈبوں میں بند کردیتے ہیں۔ یہ غذائیت اور لذت کے اعتبار سے لاجواب ہیں۔ اسی طرح خشک آڑو محفوظ کیا جاتا ہے۔درخت پر پکے ہوئے بہترین پھل چن لیجیے۔ انہیں دھو اور صاف کرکے درمیان سے کاٹ کر گٹھلی نکال دیجیے۔ پھر خاص ٹرے میں پھیلاکر گندھک کے دھویں میں چند گھنٹے رکھیے اور پانچ چھ دن میں سکھاکر محفوظ کرلیجیے۔
پکے ہوئے صاف ستھرے پھل کا چھلکا اتار کر گٹھلی نکال دیجیے اور بھاپ میں نرم کرلیجیے۔ پانچ پونڈ گودے میں اتناہی نارنگی کا رس ملاکر چینی شامل کیجیے، یہ نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ زیادہ بنانا ہو، تو پاٹاشیم میٹابائی سلفائیت شامل کرلیتے ہیں تاکہ محفوظ رہے۔ اس میں پانی بھی ملایا جاسکتاہے۔
سخت آڑو کے چوکور ٹکڑے کاٹ کر ہلکی آنچ پر ابالیے اور نرم ہونے پر چینی شامل کیجیے۔ یہ سٹیو سادہ یا کریم کسٹرڈ میں شامل کرکے کھایا جاتا ہے۔
آپ آڑو کے گول گول قتلوں سے کسٹرڈ کی آرائش کرسکتی ہیں۔ خربوزے اور خوبانی کے ٹکڑے باریک کاٹ کر ان میں ایک آڑو ملائیے۔ تھوڑی سی کریم پھینٹ کر ان میں شامل کیجیے۔تازہ پھلوں کی یہ ڈش گھر میں سب کو پسند آئی گی۔ کھانے سے کچھ دیر پہلے پھل کاٹئے تاکہ خراب نہ ہوں۔
گرمی کے موسم میں اسکول جانے والے بچے ماؤں کو بہت تنگ کرتے ہیں۔ ناشتا بھی نہیں کرتے اور گھر آکر بھی کھانا کھانے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے لیے آپ آڑو کی میٹھی ڈش بنائیے۔ بچوں کے پسندیدہ فلیور کا سادہ کسٹرڈ بناکر دو آڑو کے پیالوں میں بھر دیجیے۔ اوپر سے تھوڑی سی جیلی کے ٹکڑے سجاوٹ کے لیے رکھیے۔ بچوں کے آتے ہی انہیں پہلے یہ آڑو کھلائیے۔ آپ حیران ہوں گی کہ انہیں چند روز میں کھل کر بھوک لگے گی اور وہ پیٹ بھر کھانا کھائیں گے۔ (ماخوذ)