اسلامی معاشرتی آداب

حکیم محمد سعید

روئے زمین پر ہر معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کے آداب اور طور طریقوں کے بارے میں کچھ اصول رکھتا ہے۔ گزر بسر، رہن سہن، آپس کے روابط و تعلقات، ملنے جلنے اور مختلف اجتماعی موقعوں پر برتنے کے یہ اصول ہر معاشرے نے اپنی ذاتی ضروریات، مقامی حالات اور رسم و رواج کے پیش نظر مقرر کئے ہیں، لیکن اسلام اس میدان میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے اصولِ حیات، طرز سلوک اور معاشرت کے آداب وحی الہی پر مبنی ہیں۔

اسلام میں معاشرتی آداب کی بناء، رسم و رواج اور اسی طرح کی عارضی اور محدود، غیر مستقبل اور غیر حقیقی باتوں پر نہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دین اسلام روز اول ہی سے ایک آفاقی اور عالم گیر دین کی حیثیت سے وضع کیا کیا ہے۔ چنانچہ اس کے ماننے والوں کی زندگی میں ہم آہنگی کی روح اور یکسانیت ضروری تھی۔ ہم مسلمان اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہمارے آدابِ معاشرت کی بناء اس علیم و خبیر اللہ کی ہدایات پر ہے جو انسان اور حیاتِ انسانی کی ضروریات سے باخبر ہی نہیں ان کا خالق بھی ہے۔

اس طرح اسلامی معاشرتی آداب کو دو اہم خصوصیات حاصل ہیں۔ ایک تو یکسانیت ہے جس کی ایک معمولی مثال سلام کا طریقہ ہے۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں جہاں کہیں بھی دومسلمان آپس میں ملیں گے تو ان کے اس عالمی اسلامی برادری سے انتساب کی پہلی علامت ’’السلام علیکم‘‘ کے دل پذیر الفاظ ہوں گے اور یہ یکسانیت ہر حال میں باقی رہے گی خواہ ان دونوں کی زبانوں میں کتناہی بعد کیوں نہ ہو۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان آداب کو وحی الہی پر مبنی ہونے کے نتیجے میں انسانی زندگی کے تمام گوشے اور تمام پہلو براہ راست دین سے متعلق ہوجاتے ہیں اور ان کی وجہ سے آدمی میں یہ احساس ہر وقت ہر جگہ اور ہر موقع پر زندہ اور موجود رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر انفرادی فعل اور اجتماعی عمل میں وحی ربانی کا اتباع کرنا ہے۔ قرآن وہ کلام الہی ہے کہ جس میں حق تعالی جل شانہ نے اس دنیائے فانی میں زندہ رہنے کے ضابطے اور معاشرت و معیشت کے تمام اصول پوری جامعیت کے ساتھ اور بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ پھر اللہ کے رسول نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے تمام اصول و احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسرکرکے عمل کا راستہ دکھادیا۔ آں حضرت ﷺ کی حیات کا کوئی قول نہیں ہے کہ جو ریکارڈ نہ کیا گیا ہو۔ ان کی پوری زندگی اور نمونۂ عمل ہمارے سامنے اور ساری دنیا کے سامنے موجود ہے۔

جب ہم معاشرتی آداب کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہم کو قرآن و حدیث پر یقین کامل اور ایمان راسخ ہونا چاہیے۔ آج بھی یہ بات ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ قرآن وہ کتاب ہے جس نے اس دنیا میں سب سے بڑا اور سب سے عظیم انقلاب برپا کیا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ وہ عظیم و بلند شخصیت ہیں کہ جن کی ذاتِ والا صفات نے اس دنیا کے انسانوں کو سب سے زیادہ متأثر کیا ہے۔

یہ علم و حکمت کی عظمتوں کا دور ہے اور آج کا انسان سائنس کی بے مثال اور بے تکان پیش رفت کی بدولت انکشافات و اکتشافات کے علم بلند کرتا چلا جارہا ہے اور تسلیم کررہا ہے کہ قرآن اور محمد ﷺ نے اس کرۂ ارض کو سب سے عظیم انقلاب سے روشناس کیا ہے، حتی کہ وہ اقوام و ملل کہ جو آج سربلندو سرفراز ہیں ان کے آدابِ معاشرت اور اصول معیشت حتمی اور یقینی طور پر قرآن اور حدیث سے متأثر اور مأخوذ ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اور دل دکھتا ہے اور احساس شرم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کہ جس نے اس صفحۂ ارض کی ہر قوم و ملت کو اس طرح اور اس درجہ متأثرکیا ہو، خود اس کے پیرو، یعنی مسلمان اس سے آج متأثر نظر نہیں آتے۔ ان کی اپنی زندگیاں نمونۂ اصول اسلام نہیں رہی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان ہی خود غور کریں کہ آج اس دنیا میں وہ کہاں کھڑے ہیں؟ اقوام و ملل میں ان کا مقام کیا ہے؟

معاشرتی آداب میں سب سے بلند مقام اخلاق کا ہے۔ اسلام نے زندگی میں اخلاق کو سب سے زیادہ بلند مقام دیا ہے۔ اللہ تعالی نے رسول برحق ﷺ کو معلم اخلاق فرمایا ہے اور ان کے لیے فرمایا :

انک لعلی خلق عظیم (القلم:۴)

اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔‘‘

اور فرمایا: ’’میزان میں جو چیز سب سے زیادہ بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’کسی انسان کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک اس کے اخلاق اچھے نہ ہوں۔‘‘

بے شک اسلام کی روشنی اور بلاشبہ اخلاق کا نور تھا کہ مٹھی بھر مسلمان صحرائے عرب سے اٹھے اور سوج کی روشنی اور چاند کے نور کی طرح صفحۂ ارض پر ضیاپاشی کرنے لگے۔ ان سچے اور پکے مسلمانوں نے اللہ کی مخلق کے دل جیت لیے اور عظمت اسلام کے جھنڈے بلند کردیے۔ فضائے ارض اللہ اکبر، اللہ اکبر کی پر اسرار آوازوں سے معطر ہوگئی۔ ہم اس دور کے مسلمان بھی اپنے اس ماضی پر غور کریں اور ذرا اپنے حال کودیکھیں کہ اخلاق کی بلندی جب کیا تھی اور زوالِ اخلاق کی اب کیا کیفیت ہے۔

باور کرنا چاہیے کہ قرآن کی ہدایت دائمی ہے اور تبدیل نہیں ہوسکتی۔ رسول برحق کی رہنمائی ابدی ہے، کیوں کہ وہ تابع قرآن ہے۔ ہم جب تک اس سرچشمۂ ہدایت سے فیض حاصل کریں گے اور اعمالِ نبوی اپنائیں گے، سربلندی ہمارا مقدر ہوگی۔ مگر جب ہم اس سے روگردانی کریں گے تو ذلت کے گڑھے میں جاگریں گے اور اقوام عالم میں ہمارا کوئی ممتاز مقام نہ ہوگا۔

ہماری معاشرتی ناہمواریوں اور آدابِ معاشرت سے صرفِ نظر نے نہ صرف ہماری اپنی زندگیوں کو بے مزہ اور تلخ کردیا ہے اور سکون و اطمینان کی سچی دولت سے ہمیں محروم کرکے رکھ دیا ہے، بلکہ ہمارے لیے شدید ترین مسائل پیدا کردیے ہیں۔

معاشرتی آداب کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے دین اور دنیا کے ہر معاملے کو درست کریں۔ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ امانت اور دیانت کو اپنائیں۔ پرہیزگاری کی زندکی بسر کریں۔ حیاء اور شرم کو زیور بنائیں۔ ایفائے عہد کریں۔ غیرت اور قناعت کی راہ اختیار کریں۔ ہماری زبانوں پر کلمۂ کذب اور ایک لفظ جھوٹ کا نہ آئے اور ہم صدق مقال ہوں اور سچائی ہمارا شیوہ ہو۔ کسب حلال اور رزق حلال پر ہمارا یقین ہو۔ عجزو انکسار ہمارا اصول ہو، حفظ لسان ہمارا وطیرہ ہو۔

یہ سب معاشرتی آداب ہیں جن کو ہم سب جانتے ہیں۔ یہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں۔ یاد رکھیے زبانی جمع خرچ اب بیکار ہے۔ یہ عمل اور عمل پیہم کا وقت ہے۔ اگر ہم کو زندہ رہنا ہے اور اپنے عمل کو زندۂ وجاوید بنانا ہے تو ہم کو انسان اور سچا مسلمان بننا ہوگا۔ قرآن کی تعلیم اور اللہ کے رسول ﷺکی عملی زندکی کو نمونہ بناکر ہم یقیناً اپنا کھویا ہوا مقام اور اپنا گنوایا ہوا احترام حاصل کرسکتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146