مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ فضا میں اگربتی کی مہک رچی ہوئی تھی۔ ماحول سوگوار تھا۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ چپ اور اداس نظر آرہا تھا۔ کمرے میں بچھی سفید چاندنی پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھے شاہدہ آنکھیں بند کیے خاموش لیٹی تھی۔ مسلسل گریہ سے اس کی آنکھیں متورم ہورہی تھیں۔ چہرے پر حزن و ملال چھایا ہوا تھا۔ وہ بے حد تھکی ہوئی اور نڈھال سی لگ رہی تھی۔ اس کے ارد گرد بھی کئی عورتیں موجود تھیں۔ وہ دھیمی آوازوں میں باتیں کررہی تھیں۔ ناگہانی صدمے نے شاہدہ پر قیامت ڈھادی تھی۔
یہ سب اتنا اچانک اور آناً فاناً ہوا تھا کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی ختم ہوگئی تھیں اور جب وہ ہوش میں آئی تو اس کا گھر لوگوں سے بھر چکا تھا۔ حامدعلی کو سفید کفن میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ میکے اور سسرال کے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ملنے جلنے والے سب ہی آچکے تھے اور اسے تسلیاں دے رہے تھے۔ وہ سب کو پتھرائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
یہ کیسی اچانک افتاد پڑی تھی۔ حامد علی نے اسے زندگی کے بیچ راستے ہی میں تنہا چھوڑ کر منہ موڑ لیا تھا۔ ابھی تو حامد علی کے سر بہت سی ذمہ داریاں تھیں۔ ابھی انھوں نے کچھ کیا ہی کب تھا۔ ابھی تو بچوں میں ایک بھی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچا تھا۔ سب سے بڑے لڑکے کاشف نے انٹر کا امتحان دیا تھا اور اس کا رزلٹ ابھی نہیں آیا تھا۔ اس سے چھوٹی لڑکی نے میٹرک کیا تھا اور باقی چاروں بچے مختلف کلاسوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔
حامد علی کو کتنا شوق تھا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا۔ کاشف کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے خود بے انتہا محنت کی تھی۔ آدھی آدھی رات تک وہ خود کاشف کو پڑھاتے رہتے۔ ان کی بے انتہا محنت اور توجہ سے اس کے سارے پرچے بہت اچھے ہوگئے تھے۔ اور تب انھوں نے اطمینان سے کہا تھا: ’’دیکھنا شاہدہ! ہمارے کاشف کو میڈیکل میں داخلہ ضرور مل جائے گا۔‘‘
حامد علی سرکاری ملازم تھے۔ لگی بندھی قلیل آمدنی، گھریلو اخراجات زیادہ، کمر توڑ مہنگائی، بچوں کی تعلیم و تربیت، غرض سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ جیسے تیسے کرکے انھوں نے ایک چھوٹا سا مکان بنالیا تھا۔ پائی پائی جوڑ کر کمیٹیاں ڈالیں۔ کچھ جی پی فنڈ کا روپیہ نکلوایا، تھوڑا بہت باپ کے ترکے میں سے مل گیا۔ یوں یہ چھوٹا سا مکان سر چھپانے کا آسرا بن گیا تھا۔
٭٭٭
اور آج سب لوگ اس کے گھر جمع تھے۔ تدفین ظہر کے وقت ہوئی تھی۔ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہونے کے باوجود شاہدہ کو گھر میں سناٹا محسوس ہورہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے حامد علی کے چلے جانے سے تمام عالم پر سناٹا چھا گیا ہو۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی سناٹے اتر رہے تھے۔ اب کیا ہوگا؟ ایک ہی سوال تپتے ذہن میں مسلسل گردش کررہا تھا۔وہ فکروں اورپریشانیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تب ہی دونوں دیور ہاتھ میں کاغذ پنسل تھامے وہاں آگئے اور وہیں فرش پر اپنی ماں کے نزدیک بیٹھ گئے۔
’’اماں! کل کے کھانے کا حساب بتادیں۔‘‘ ساجد نے پنسل کاغذ سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’تین دیگیں پلاؤ اور ایک دیگ میٹھے چاول پکوالو۔‘‘ اماں نے کہا۔
’’چار دیگیں کس لیے؟‘‘ شاہدہ نے تکیے سے سر اٹھایا۔
’’تو کیا سوم کا کھانا نہیں ہوگا!‘‘ اماں کے لہجے میں ہلکی سی تلخی آگئی تو شاہدہ چپ ہوگئی۔
’’باروچی وغیرہ کا میں نے بندوبست کرایا ہے۔ ڈیکوریشن والے سے بھی کہہ دیا ہے۔‘‘ راشد نے بتایا۔
’’ڈیکوریشن والے کو!‘‘ شاہدہ کی بیٹی صدف کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
’’بیٹا! اتنے مہمان چھوٹے سے گھر میں تو نہیں بیٹھ سکتے پھر کھانے وغیرہ کا بھی چکر ہے، اس لیے شامیانے، میز کرسیاں، برتن، سب کچھ چاہیے نا!‘‘ راشد نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’اچھا!‘‘ صدف چپ ہوگئی۔ ’’مرنے پر بھی یہ سب کچھ اہتمام ہوتا ہے!‘‘ وہ سوچوں میں ڈوب گئی تھی۔
’’رات کا وقت ہوجائے گا۔ لائٹس بھی ہونی چاہئیں‘‘ ساجد کی بیوی بولی۔
’’ہاں میں نے بجلی والے سے بھی کہہ دیا ہے۔‘‘ راشد نے بتایا۔
’’کیسے ہوگا یہ سب کچھ؟‘‘ شاہدہ کی آواز میں فکر مندی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔
’’بھابھی! آپ پریشان مت ہوں، ہم سب کچھ کرلیں گے۔‘‘ راشد نے تسلی دی۔
’’ہاں بھابی! اندر کا انتظام ہم لوگ دیکھ لیں گے۔‘‘ چھوٹی دیورانی بولی تو بڑی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
٭٭٭
وہ جو کہتے ہیں نا کہ آج مرے کل دوسرا دن۔ بالکل اسی طرح حامد علی کو فوت ہوئے دوسرا دن ہوگیا اور ان کے گھر کے باہر عجیب سی رونق چھا گئی۔ شامیانے تانے جانے لگے، ڈیکوریشن کا سامان آنا شروع ہوگیا۔ دیگوں کی کھنکھناہٹیں سنائی دینے لگیں۔ ہر شخص یوں مصروف ہوگیا جیسے کسی بہت بڑی ضیافت کا انتظام کرنا ہو۔ صرف شاہدہ اور اس کی ساس، امام سفید چاندنی پر بیٹھی رہ گئی تھیں۔ اماں تسبیح پڑھتے ہوئے مختلف ہدایتیں دے رہی تھیں، اور شاہدہ سر ڈھانپے تلاوتِ کلام پاک میں مصروف تھی۔
’’بھابی! تین سو روپئے دینا، مٹھائی اور پھل منگوانا ہے۔‘‘ دیورانی اس کے پاس آکر بولی۔
’’پانچ طرح کے پھل منگوانا دلہن!‘‘ اماں نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے کہا۔
’’تین سو روپے کا پھل؟‘‘ شاہدہ کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
’’ہاں تو دلہن، فاتحہ کے لیے منگوانا ہے۔‘‘ اماں نے تائید کی۔
’’اتنے پیسوں کا پھل اور مٹھائی تو حامد علی کبھی اپنی زندگی میں نہیں لائے تھے۔ وہ تو ہر چیز کی خریداری بہت کفایت شعاری سے اور اپنا بجٹ دیکھ کر کیا کرتے تھے۔ ضرورت سے زیادہ چیز انھوں نے کبھی خریدی ہی نہیں تھی۔‘‘ شاہدہ سوچ رہی تھی۔ لیکن اماں کے آگے ایک لفظ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی، اس لیے چپ چاپ اٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گئی۔ ابھی آدھا مہینہ ہوا تھا اور حامد علی کی تنخواہ کے پیسے موجود تھے، انہی سے باقی آدھا مہینہ پورا کرنا تھا۔ اس نے تین سو روپے نکال کر دیورانی کے ہاتھ میں تھما دئیے۔
دوپہر ہوتے ہوتے ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں، شامیانے، میزیں، کرسیاں سب لگا دی گئیں۔ کھانا پکنا شروع ہوگیا، خوشبو ئیں پھیلنے لگیں۔ دور سے دیکھنے پر خوشی اور غم کی تقریب کا فرق ہی محسوس نہیں ہورہا تھا۔ دوپہر کو لوگ آنے لگے اور قرآن خوانی شروع ہوگئی۔ مردوں کی قرآن خوانی مسجد میں تھی ، چنوں پر سوا لاکھ مرتبہ کلمے بھی وہیں پڑھے جانے تھے۔
مغرب کے قریب قرآن خوانی ختم ہوئی، مسجد سے مرد چنوں کے ساتھ واپس آگئے۔ فاتحہ کا سامان لاکر رکھا گیا۔ ایک جوڑا کپڑے اور آٹھ دس آدمیوں کا کھانا، مٹھائی اور پانچ طرح کے پھل، دسترخوان سجا ہوا تھا۔ مولوی صاحب نے آکر فاتحہ پڑھی اور چار پانچ قرآن شریف جو ابھی قرآن خوانی میں ختم ہوئے تھے اور جوڑے اور کھانے کا ثواب مرحوم کی روح کو بخش کر واپس چلے گئے۔ تب کھانا اور جوڑا غریبوں میں بانٹنے کے لیے اٹھالیا گیا اور باقی بچا ہوا پھل وہیں رکھ کر چھریوں سے کاٹا جانے لگا کیونکہ اماں نے ہدایت کی تھی کہ مٹھائی اور پھل معصوم بچوں اور بڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ بچے تو کم ہی تھے، اس لیے مٹھائی اور پھل سے بھرے ہوئے دونوں تھال کمرے میں بیٹھی مہمان خواتین کے آگے باری باری بڑھائے جانے لگے۔
’’تھوڑا تھوڑا سب لوگ چکھ لیں۔‘‘ ساجد کی بیوی سب کو پیش کرتے ہوئے بولی۔
بھوکوں، غریبوں کو کھانا کھلاؤ تو مرنے والے کی روح کو ثواب ملتا ہے لیکن یہاں تو کوئی بھی غریب نہیں، کھانا کھانے والے سبھی صاحبِ حیثیت لوگ ہیں۔ پھر بھلا حامد علی کی روح کو کیا ثواب ملے گا۔ تین چار دیگ کھانے میں سے بس آٹھ دس غریبوں کا پیٹ بھرنے کا ثواب ہی ان کے حصے میں آئے گا۔ موت کے غم میں اس ضیافت کے کیا معنیٰ یہ سب کیا ہے؟ شاہدہ دکھ سے سوچ رہی تھی۔ اخراجات کی فکر الگ اسے پریشان کیے دے رہی تھی۔ دو چار لقمے کھا کر اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔
کھانا کھاکر سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ صرف دور سے آئے ہوئے رشتے دار باقی رہ گئے تھے۔
صبح ڈوبتے دل کے ساتھ اس نے ساجد سے اخراجات کے بارے میں پوچھا۔
’’بھائی سارا حساب کتاب کاغذ پر لکھا ہوا ہے۔‘‘ اس نے جب میں ہاتھ ڈال کر پرچہ نکالتے ہوئے کہا۔
کھانے، ڈیکوریشن اور بجلی پر تین ہزار سے زیادہ روپے خرچ ہوچکے تھے۔ شاہدہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ لرزتی ٹانگوں سے اٹھ کر وہ اسٹور میں چلی آئی اور اوپر تلے رکھے صندوق اٹھا کر نچلے والے صندوق کی تہ میں ٹٹولنے لگی۔ اس نے اور حامد علی نے پائی پائی بچت کرکے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دس ہزار کی کمیٹی ڈالی تھی۔ اور اتفاق سے پندرہ دن پہلے ہی وہ کمیٹی نکل آئی تھی جو اس نے سنبھال کر بہت حفاظت سے الگ رکھ دی تھی۔ لیکن اب حامد علی کی موت پر وہ روپے برابر خرچ ہوئے جارہے تھے۔
دکھے دل سے روپے نکال کر شاہدہ نے دیور کے ہاتھ میں تھما دئے۔ سوم کرکے سوائے اس کی ساس کے سب لوگ چلے گئے تھے۔ حامد علی کی اماں اس کی اور بچوں کی تنہائی کے خیال سے چالیسویں تک رک گئی تھیں۔
٭٭٭
دن گزرتے رہے۔ بیسویں ، تیسویں کی فاتحہ بھی اسی طرح منائی گئی۔ پھر چالیسویں کی فاتحہ بڑے پیمانے پر کرنے کا پروگرام بنا۔ دور دور تک لوگوں کو چالیسویں کے کھانے کی دعوت دی گئی۔ شاہدہ نے ایک دو بار دبے لفظوں میں احتجاج بھی کرنا چاہا جس پر اماں بری طرح بگڑ کر بولیں: ’’دلہن! میں اپنے بیٹے کی فاتحہ دھوم دھام سے دلواؤں گی۔ وہ کوئی لاوارث نہیں تھا کہ یوں چھپتے چھپاتے سب کام ہوجائیں۔‘‘
لیکن بڑے پیمانے پر انتظامات ہوتے دیکھ کر ایک بار پھر وہ پیسوں کی کمی کا احتجاج کربیٹھی۔ تب نندوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ ’’ارے تم کیسی بیوی ہو، میاں کے مرتے ہی آنکھیں پھیر لیں۔ اس کے فاتحہ درود سے بھی انکار کررہی ہو۔ غریب سے غریب بھی اپنے مرنے والوں کی فاتحہ دلاتے ہیں۔‘‘
’’ہم کوئی نرالا تھوڑا ہی کریں گے۔ زمانے میں یہی ہوتا آرہا ہے۔‘‘ اماں نے بڑبڑا کر کہا تو شاہدہ نے چپ سادہ لی۔
چالیسواں حسبِ پروگرام دھوم دھام سے منایا گیا۔ شامیانے لگے، دیگیں چڑھیں، زردہ پکنے کے باوجود ساجد کی بیوی باورچی خانے میں ایک کلو سوجی کا حلوہ بنا رہی تھی۔ حامد علی کی میت اٹھنے کے بعد بھی اماں نے ایک کلو سوجی کا حلوہ بنواکر بچوں کو کھلایا تھا۔ سوم اور ساری فاتحوں میں بھی مٹھائی کے علاوہ حلوہ ضرور بنایا گیا تھا اور اب بھی اس کا اہتمام ہورہا تھا۔
چہلم میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے مہمان آئے۔ بہت رونق اور چہل پہل ہوگئی۔ آٹھ دس آدمیوں کا کھانا غریبوں میں بانٹ دیا گیا اور باقی مہمان تناول فرمارہے تھے۔ لوگ حامد علی کو تو بھول گئے تھے اور کھانے کے لیے ذبح کی گئی گائے کی خوبصورتی اور سرکشی کے قصے دہرا رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہر شخص مگن سا ہوگیا تھا۔ اماں بھی اپنی پرانی ملنے والوں سے بہت دن بعد ملاقات ہوجانے پر پرانے قصوں میں مشغول ہوگئی تھیں۔ نندیں، بھابھیاں، دیورانیاں، جٹھانیاں، سب اپنے اپنے بچوں کو کھانا کھلانے اور باتوں میں مصروف تھیں۔ صرف ایک شاہدہ ہی ایسی تھی جو چپ چاپ حامد علی کی یادوں کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔
’’دیکھ لو حامد علی! تمہاری موت کے سوگ میں تمہارے عزیزوں نے کیسی شاندار محفل سجائی ہے۔ اس چہل پہل نے دلوں سے تمہارا خیال نکال دیا ہے۔ تمہیں کوئی یاد نہیں کررہا۔ ایک ایک دو دو پارے پڑھ کر لوگوں نے تمہارا حق ادا کردیا ہے۔‘‘ شاہدہ دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی۔
رات ساڑھے دس بجے کے قریب رونق ماند پڑگئی۔ سب لوگ کھانے سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ صرف قریبی عزیز ہی رہ گئے تھے جو سامان سمیٹنے میں مصروف تھے۔ ایک بڑے سے تھال میں جھوٹے کھانے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ شاہدہ چپ چاپ سے سب کچھ تک رہی تھی۔ دوسرے دن جہلم کی اس تقریب پر ہونے والے اخراجات کا پرچہ اسے تھما دیا گیا۔ سارا انتظام دونوں دیوروں کے ہاتھ میں تھا۔ خوب دل کھول کر خرچ کیا گیا تھا۔ شاہدہ کا دل بیٹھنے لگا۔ لرزتے قدموں سے وہ پھر اسٹور میں گئی اور ایک بار پھر اس کے ہاتھ صندوق کی تہ میں رکھے سفید رومال کو کھول رہے تھے۔ روپے نکال کر اس نے رومال دوبارہ تہ میں ڈال دیا اور باہر آکر رقم ساجد کے حوالے کردی۔ شام ہونے سے پہلے ہی دونوں دیور بھی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ چلے گئے۔ اماں بھی ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں۔
دن گزرنے لگے، بوجھل اور دکھوں میں ڈوبے ہوئے دن، شاہدہ کا ذہن فکروں او رپریشانیوں میں ڈوبا رہتا۔ معاشی پریشانیوں کی فکر، بچوں کے مستقبل کا سوال، حامد علی کی معمولی پنشن میں تو گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوسکتے تھے۔ پھر پنشن اور فنڈ کے تھوڑے بہت بچے ہوئے پیسے کون سے وقت پر مل جاتے ہیں۔ مہینوں کاغذی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دفتروں کے سینکڑوں چکر لگانے پڑتے ہیں، مہینے بیت جاتے ہیں، ان سب کاموں میں شاہدہ کا ذہن الجھا رہتا۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اس نے سلائی کا کام شروع کردیا تھا۔ کاشف نے میڈیکل کالج میں داخلے کا فارم بھر دیا تھا اور کامیاب امیدواروں کی لسٹ میں اس کا نام بھی آگیا۔
’’امی! میرا نام لسٹ میں آگیا ہے، مجھے داخلہ مل جائے گا۔‘‘ اس نے ماں سے کہا۔
’’خدا تجھے کامیاب کرے؟‘‘ شاہدہ کے دل سے دعا نکلی۔ خوشی سے اس کی روح سرشار ہوگئی۔
’’امی! اب داخلہ فیس اور کتابوں وغیرہ کے لیے روپوں کی ضرورت ہوگی۔‘‘ کاشف کا لہجہ بجھا بجھا سا تھا۔
’’ہاں‘‘ شاہدہ کی خوشی بھی جھاگ کی طرح بیٹھ سی گئی۔
’’پھر امی، روپوں کا کچھ بندوبست ہے آپ کے پاس؟‘‘ وہ امید بھرے انداز میں بولا۔
’’میں دیکھتی ہوں۔‘‘ شاہدہ نجانے کس آس پر اسٹور کی طرف چلی گئی۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ رومال میں بندھے روپے ختم ہوچکے ہیں۔
اوپر تلے کئی صندوق اٹھانے کے بعد اس نے نیچے والا صندوق کھولا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اور پھر سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے ہاتھ صندوق کی تہ میں ڈال دیا۔ خالی رومال کسی ہوا نکلے غبارے کی طرح اس کے ہاتھوں میں آگیا۔ دو تین بار اس نے صندوق میں ارد گرد بھی ہاتھ مارے کہ شاید کچھ روپے رومال میں سے گر گئے ہوں لیکن پورے صندوق میں کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا، صرف کپڑے رکھے تھے۔ تب اس نے خالی رومال کھینچ لیا اور بار بار اسے جھٹکے دینے لگی جیسے اس میں سے ابھی جادو کے زور سے روپے گرنے شروع ہوجائیں گے۔ کئی بار رومال جھٹکنے کے بعد اس کا دل بھر آیا۔
’’حامدعلی! تمہارے جوڑے ہوئے روپے تمہارے کام آئے نہ تمہارے بچوں کے، بلکہ وہ تو فضول اور بے مقصد رسم و رواج کی نذر ہوگئے۔ اب میں کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں گی۔‘‘ زیرِ لب کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔