امتِ مسلمہ ہونے کی بنا پر اسلام کی دعوت مردوں اور عورتوں دونوں سے ہی یکساں مطالبات رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر اقامتِ دین کی ذمہ داری میں دونوں ہی برابر کے شریک ہیں اور دونوں ہی سے کل قیامت کے دن یکساں طور پر جواب طلب ہوگا۔ لہٰذا خدا کے حضور کامیابی اور جوابدہی کا تقاضہ ہے کہ اس اہم ذمہ داری کو شعور کے ساتھ سمجھا اور نبھایا جائے۔ تاکہ ہم سب قیامت کے دن اللہ کی گرفت سے بچ سکیں۔
خواتین اس ذمہ داری کو کس طرح پورا کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب یا اس کی عملی مثالیں ہمیں امہات المومنین، صحابیات اور دور اول کی خواتین کے کردار میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ چنانچہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں سب سے پہلے جس ہستی نے حصہ لیا وہ ایک خاتون ہی تھیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؓ، انھوں نے دعوتِ اسلامی پر شرحِ صدر کے ساتھ اس نازک اور آزمائشی وقت میں لبیک کہا جب اسلام پر یقین دنیا بھر کی مصیبتوں، رکاوٹوں اور آزمائشوں کو دعوت دینا تھا۔ اس کے باوجود ام المومنین کے پایہ ثبات میں لرزش نہیں آئی۔ بلکہ انھوں نے نبی کریمﷺ کی زبانِ مبارک سے دعوتِ حق سن کر پرجوش خیر مقدم کیا اور ڈھارس و تسلی دینے میں پیش پیش رہیں اور غیبی تائید اور حق کی امداد کا یقین دلانے والی اور توکل و بھروسہ کی تلقین کرنے والی ثابت ہوئیں۔ اور دین حق کی ایسی قولی اور فعلی علمبردار بنیں کہ باطل معاشرہ کے آگے آہنی ڈھال بن گئیں۔ غرض یہ کہ دامے، درمے، قدمے، سخنے بہر طور حضور اکرمﷺ کی معاون بنی رہیں کہ آج ہم سب بلکہ نسلِ انسانی کے لیے ان کا جذبہ تبلیغ و وفاداری قابلِ فخر اور لائق تقلید ہے۔
اسی طرح حضور اکرم کا انقلابی نعرہ ’’یا ایہا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا‘‘ جب بلند ہوا تو اس پر لبیک کہنے والی شخصیتوں کا جو کردار اس کے سانچے میں ڈھلا اس میں حضرت سمیہؓ کی مثال ایک نمایاںمثال ہے۔ آپؓ راہِ حق کے لیے ایثار و قربانی کا ایک ناقابل تسخیر پہاڑ بن گئیں اور جابرانِ قریش کے ہر ظلم و ستم کو نہایت صبر و استقلال سے برداشت کرتے ہوئے راہِ حق میں جام شہادت نوش کرگئیں۔ مگر باطل کے آگے سرنگوں نہ ہوئیں۔
سماجی حیثیت سے ایک بے اثر اور طبعی لحاظ سے ایک کمزور، عمر رسیدہ اور ناتواں صنف ہونے کے باوجو آپؓ نے جو مثالی کردار پیش فرمایا وہ ان تمام خواتین کے لیے جو دعوت دین کا جذبہ اپنے اندر رکھتی ہیں، ثابت قدمی، پختگی اور آہنی عزم و استقامت کا بہترین نمونہہے۔ اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ اپنے مقصد سے والہانہ عشق رکھنے والے، کس طرح اپنے مقصد پر قربان ہونے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔ مگر اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتے۔
نفسیاتی طور پر مردوں کے مقابلے میں، خواتین پر جذباتیت غالب رہتی ہے۔ کسی بھی مقصد کا گہرا شعور انھیں حاصل ہوجائے، کسی کام کو کر گزرنے کا جنون ان کے دل و دماغ میں پیوست ہوجائے اور کسی بات پر مرمٹنے کا جذبہ دیوانگی کی حدوں کو چھونے لگے تو یہی صنفِ نازک طوفانوں کا رخ موڑ دیتی ہے اور اس کی فدائیت تن، من، دھن کی بازی لگا سکتی ہے اور سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا جانے کا اس میں عزم و حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس کی بہترین مثال ہمیں حضرت فاطمہؓ بنت خطاب کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ ان کا باپ خطاب، ان کا بھائی عمر، ان کا ماموں ابوجہل، جن کی اسلام دشمنی اظہر من الشمس تھی، ایسے سخت حالات میں ان کی راہ میں روڑا نہ بن سکے۔ حتی کہ وہ اپنے شوہر سعید بن زیدؓ کے ساتھ ایمان لے آئیں۔ ان کے اسلام لانے پر غضب ناک ہوکر، حضرت عمرؓ نے ان کو تختہ ستم بنایا۔ مگر پھر بھی انھیں بال برابر بھی اپنے ایمان سے نہ ہٹا سکے۔ بلکہ اپنے بھائی سے رحم و کرم کی التجا کرنے کے بجائے فرمایا۔ ’’عمر جو چاہے کرو، مگر اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان کے اس جرأت مندانہ اور بے باکانہ جواب نے بھائی کی اسلام دشمنی پر اتنی کاری ضرب لگائی کہ کفرو الحاد کے بت پاش پاش ہوگئے اور اس طرح ان کی اسلام بیزاری دینِ حق کی فریفتگی میں ڈھل گئی۔ محض ایک خاتون کی بدولت عمرؓ فاروق جیسی ہستی اسلام کا دستِ راست بن گئی۔ اسی طرح حضرت ام حبیبہؓ، ام عمارہؓ،ام سلیمؓ، ام سلمہؓ، صفیہؓ، اسماءؓ وغیرہم اسلام کی فدائیت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔ جنھیں حالات کی آندھی باطل کے آگے سرنگوں نہ کرسکی۔ ان پاکیزہ خواتین میں تبلیغِ دین کا جذبہ اسلام کی راہ میں جانی و مالی قربانی اور راہ حق میں مر مٹنے کا جنون ہم سب کے لیے نشانِ منزل ہے۔ جن کے نقوشِ قدم پر چل کر ہم اپنا فریضۂ حق ادا کرکے دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔
چنانچہ اس وادیٔ پرخار میں قدم رکھنے کے لیے ہمیں اپنے اندر اس مقصد کا حقیقی عشق، سوز، تڑپ اور والہانہ لگن و جدبہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے دماغ کے رگ و ریشے میں یہ حقیقت رچ بس جائے
چہ گویم من مسلمانم، بلرزم
کہ دائم، مشکلات لا الہ را
یعنی جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو میں لرز جاتا ہوں، کیونکہ اس کلمے کو قبول کرنے کے بعد اس کے پیش آمدہ مشکلات و ذمہ دارسے میں بخوبی واقف ہوں۔ یہی احساس ذمہ داری کا شدید غلبہ تھا جس کے تاثرات الفاظ بن کر حضرت عائشہؓ کی زبان پر جاری ہوگئے’’کہ کاش میں مٹی ہوتی تو میں نہیں جانتی کہ میرا حساب کیا ہے۔‘‘
چنانچہ اس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے بعد، اگر اس شہادت کو ہم اپنا اولین فرض سمجھ لیں، پاکیزہ صحابیات کے طریق کار، ان کے اصولوں، ان کے درخشندہ کارناموں کو اپنے دل و دماغ میں سمولیں اور راہِ حق کی رکاوٹوں کے آگے سینہ سپر ہوکر بنیان مرصوص بن جائیں تو ہماری حقیر اور بے مایہ کوششوں کے مثبت نتائج انشاء اللہ ضرور سامنے آئیں گے۔