امت مسلمہ کو رمضان کا مہینہ مبارک ہو۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو ہدایت کی واضح نشانی اور حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز کو واضح کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتابِ ہدایت اور کتابِ انقلاب ہے۔ انقلاب: ہمہ جہت انقلاب، اپنی ذات اور شخصیت میں انقلاب کہ جس نے سنا اس کے ذہن و فکر کی دنیا بدل گئی۔ کتاب انقلاب کہ جس گروہ نے بھی پڑھا اس کے فکروعمل کے پیمانے بدل گئے اور ایک ایسی کتاب انقلاب کہ جس خطہ کے لوگوں میں پہنچی وہاں طرز حیات کو بدل ڈالا۔ یہ کتاب ایمان وعمل کی کنجی، انسانوں کو زندگی اور حیات حقیقی سے آشنا کرانے والی اور قوت وشوکت کا سرچشمہ ہے۔ جو افراد یا گروہ اس قوت و شوکت کے گراں قدر خزانہ سے رہنمائی حاصل کریں گے انہیں غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا۔ خود اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:
’’إن اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین۔ ‘‘
(اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ کچھ لوگوں کو رفعت و بلندی عطا کرتا ہے اور (جو اسے اختیار نہیں کرتے) دوسروں کو ذلت و پستی سے دوچار کرتا ہے۔)
تاریخ بتاتی ہے کہ کتاب اللہ کی انہی خصوصیات کے سبب عرب کے بادیہ نشین،غیر مہذب اور قتل و خون کے خوگر لوگ دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔ باہم کشت و خون میں مصروف رہنے والی قوم جب اس کتاب کو لے کر اٹھی تو اس نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر نہ صرف انسانیت کا وقار بلند کیا بلکہ ظلم وستم کے خاتمہ کا ذریعہ بنی۔ صحراؤں میں پانی اور چارہ کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے جب اس پیغام انقلاب سے آشنا ہوئے تو انھوں نے مشرق و مغرب کو کھنگال ڈالا اور دنیا کے ہر حصہ میں حق و انصاف کا علم بلند کیا۔ غلبہ و اقتدار، حکومت و سلطنت اور سیادت و قیادت سب ان کی جھولی میں آن گرے۔ ان کا طرز زندگی اور طرزفکر معتبر ٹھہرا، ان کی زبان اور ان کی تہذیب قابل اختیار بنی اور ان کے افکار و خیالات دنیا پر روشنی بن کر چھا گئے۔
اور پھر ایک وقت آیا جب اس کتاب انقلاب اور سررشتۂ زندگی سے ان کا تعلق کمزور ہونا شروع ہوگیا۔ بس یہیں سے ان کی داستان زوال و مغلوبیت شروع ہوئی اور اب یہ فلسطین، افغانستان، عراق اور نہ جانے کہاں کہا ںسے گزرتی ہوئی کس مقام پر ختم ہوگی نہیں معلوم۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
یہ امت جب ترک قرآن کی مرتکب ہوئی تو غلبہ و اقتدار سے بے دخل کردی گئی اور عروج و اقبال کی بلندی سے پستی کی کھائی میں جا گری جہاں ہر آنے جانے والا اسے پاؤں کی ٹھوکر سے رگڑنے کو اپنے لیے ضروری تصور کرتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں اس کا خون بہہ رہا ہے اور ہر خطہ میں یہ امت نت نئے مسائل و مشکلات سے دوچار ہے۔ اور حالات اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جس کے بارے میں اللہ کے رسول نے آگاہ کیا تھا کہ ایک وقت وہ آئے گا جب دنیا کی قومیں تمہارے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرام کو اس بات پر حیرت ہوئی انھوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول کیا ہم لوگ اس دن تعداد میں کم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تمہاری تعداد بہت ہوگی مگر اس وقت تم سیلاب کے جھاگ کے مانند بے حیثیت ہوجاؤگے؛ اس روز تمہارے دلوں میں ’وَہن‘ داخل ہوجائے گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یہ ’وہن‘ کیاہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا’وہن‘ ہے۔‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ مومن اور اہل ایمان کبھی بھی وہن میں مبتلا نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ نہ انہیں دنیا کی مال و دولت کی ہوس ہوتی ہے اور نہ موت سے وہ خوف کھاتے ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو قرآن مجید اپنے ماننے والوں کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔
رمضان المبارک یعنی شہر القرآن اس شکست خوردہ امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ دنیا کی محبت میں اسیری چھوڑ کر قلندرانہ شان اپنے اندر پیدا کرے اور دنیا کی سب سے اٹل حقیقت یعنی موت کو اپنے لیے پسندیدہ بنائے۔
وہی لوگ قابل مبارکباد ہیں جو اس ماہ مبارک کی آمد پر اپنی زندگیوں کو اس کتاب انقلاب سے جوڑ کر حقیقی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اور وہی لوگ کامیاب ہیں جو اس کتاب کے پیغام کو لے کر اٹھنے اور دنیا پر چھا جانے کا عزم مصمم کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ کتاب کتاب زندگی اور کتاب انقلاب ہے اور یہ ماہ مبارک بھی اسی نسبت سے زندگی کو تبدیل کردینے والا اور اسے ایک نئے رنگ میں رنگ دینے والا ہے۔
ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم امت مسلمہ کو عید سعید کی مبارکباد دیں مگر ہمارے سامنے فلسطین کے وہ مناظر گھوم جاتے ہیں جہاں مائیں اور بہنیں اپنے نوجوان بھائیوں اور بیٹوں کی موت پر نوحہ کناں ہیں، ہمارا قلم جب مبارکباد لکھنے کے لیے اٹھتا ہے تو ہمارے ذہن میں عراق کے وہ مناظر گھوم جاتے ہیں جہاں سیکڑوں لوگ روز ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں۔ ہم نے جب بھی مبارکباد کے لیے زبان کھولنی چاہی تو ہمارے سامنے ظلم و جبر کی زنجیروں میں قید امت مسلمہ آن کھڑی ہوئی۔ ہم سوچتے ہیں کہ اس امت کو عید مبارکباد کے بجائے یہ پیغام دیں کہ اے امت مسلمہ کے افراد اگر تم زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو وہیں چلو جہاں سے عرب کے بادہ نشینوں نے زندگی حاصل کی تھی، اگر تم ظلم و جبر کی زنجیروں سے نکل کر غلبہ و اقتدار سے آشنا ہونا چاہتے ہو تو وہی فارمولہ اپناؤ جو چودہ سو سال پہلے کے بدوؤں نے اپنایا تھا اورشرق و غرب کے حاکم بن گئے تھے اور اگر تم ذلت و پستی کے اس غار سے نکلنا چاہتے ہو تواس کتاب کو اپناؤ جو رفعت و بلندی کی ضمانت دیتی ہے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
آئیے رمضان المبارک کے ان مبارک ایام میں اللہ تعالیٰ سے پاک طبیعت، نیک نیتی و اخلاص، محبت الٰہی، جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ ساتھ ایک صاحب عزم و حوصلہ دل اور ان تھک جدوجہد سے نہ تھکنے والا جسم طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ عید کی پیشگی مبارکباد۔