پڑھی لکھی خواتین میں آپ کو کتنی ہی ایسی خواتین ملیں گی جن کو مطالعہ سے بالکل دلچسپی نہیں ہوتی۔ بس ان کے نزدیک لکھنے پڑھنے کا استعمال اس سے زائد کچھ نہیں ہوتا کہ کبھی کبھار کسی کو خط لکھ دیا یا اخبار و میگزین پر نظرڈال لی۔ اخبارات و رسائل بھی وہ جو محض خبریں اور کچھ تفریحی قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا وقت جس طرح گزرتا ہے وہ اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا جیسا کہ بے پڑھی لکھی خواتین کا گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم کی بہت بڑی ناقدری ہے اور ایسی خواتین کی کم نصیبی پر جتنا بھی ماتم کیاجائے کم ہے۔ لیکن پڑھی لکھی خواتین میں ایسی بھی کچھ کم نہیں ہیں جو رات دن کے مشغول گھنٹوں میں سے کچھ نہ کچھ وقت اپنے صحت مند اور فکری مطالعے کے لیے ضرور نکال لیتی ہیں اور جب تک وہ کچھ دیر کچھ پڑھ نہ لیں انھیں چین نہیں آتا۔
مطالعے کا یہ شوق عام طور پر کس طرح پورا کیا جاتا ہے؟ شاید اس پر کبھی غور نہیں کیا جاتا۔ ہوتا یہ ہے کہ مطالعہ یا تو وقت کاٹنے کے لیے کیا جاتا ہے، یا اس کا مقصد سوائے تفریح کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے زندگی کی اس مختصر مہلت میں کوئی عظیم مقصد یا تعمیری مشغلہ نہیں ان بے چاروں کو وقت کی اس دولت کو کسی نہ کسی طرح لٹانے کی تدبیریں سوچنا ہی پڑتی ہیں۔ ایسے افراد کے ذریعہ مطالعہ کے لیے عام طور پر وہی کتابیں یا رسالے پسند کیے جاتے ہیں جن کے مضامین نہ تو ذہن پر کوئی بوجھ ڈالتے ہیں نہ ان میں پڑھنے والے کو کچھ سوچنا اور غور کرنا پڑتا ہے، اور نہ ان مضامین کے پڑھنے کے بعد پڑھنے والے کو اپنے پسندیدہ مشاغل میں سے کچھ چھوڑنے اور کچھ نئے مشاغل کو اختیار کرنے کی تحریک ہی ملتی ہے۔ بلکہ اس کے برخلاف اس مطالعے سے عام طور پر کچھ غیر تعمیری جذبات میں تحریک ہوتی ہے اور انسان کچھ دیر کے لیے اپنے ماحول سے الگ کسی اور دنیا کی سیر کرنے لگتا ہے۔
اس طرح کے مطالعہ میں عام طور پر محبت، تحیر، عجوبہ پسندی یا نفرت وغیرہ کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ یا پھر حیوانی جذبات کو برانگیختہ کرکے پڑھنے والے کے ذہن کو دوسرے سنجیدہ افکار سے خالی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تو معاملہ ہے ان کتابوں اور رسالوں کا، جن کا مقصد سوائے ایک بے مقصد ذہنی تفریح کے اور کچھ نہیں ہوتا لیکن ان سے کہیں زیادہ مفید اور کارگر وہ کتابیں اور رسالے ہیں جن کے پیچھے کوئی مقصد یا مشن ہوتا ہے۔ یہ انسان کے حیوانی جذبات کو تعمیری مقاصد کی طرف موڑتے ہیں اور پڑھنے والے کے ذہن کو اپنے مقصد سے قریب کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ رسائل اور کتابیں ہیں جن کو انسان کا بہترین دوست کہا جاتا ہے۔ اور دنیا بھر کے دانشوران ایسی ہی کتابوں اور رسالوں کے مطالعہ کو انسان کی فکری غذا قرار دیتے ہیں۔ جس طرح انسان کے زندہ رہنے کے لیے کھانا پانی ضروری ہے اسی طرح روح کی زندگی اور ذہن و فکری کے ارتقاء کے لیے اس طرح کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
انسان کی شخصیت کی تعمیراور فکروذہن کو حسین و خوبصورت بنانے کے لیے بھی مطالعہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ خوبصورت جسم میں اگر خوبصورت و صحت مند دماغ نہ ہو تو جسم بے کار ہے۔ مطالعہ انسان کو انسانیت کی معراج سے بھی آشنا کرتا ہے اور زندگی کے قیمتی گروں اور سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ اور اس کی اہمیت خواتین کے لیے یوں بھی ضروری ہے کہ وہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار اور خاندانوں کی مربی ہیں۔ اور اپنی ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسے وسیع علم و تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے جومطالعے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔بچوں کی تربیت و تعلیم اور اس میدان کی نئی نئی معلومات، قوت کار کو بڑھانے کے لیے وقت کی تنظیم، سماجی و تحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے فکری غذا، حالات و مسائل کا علم اور زمانے کے چیلنجز سے آگہی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہماری خواتین صحت مند مطالعہ کے لیے اپنا وقت فارغ کریں۔
اس کے علاوہ بعض خواتین محض تفریح اور وقت گزاری کے لیے مطالعہ کرتی ہیں جس سے وقت کی وقت کی بربادی کی علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے منفی اثرات انسان کے ذہن و فکر کو پراگندہ کرتے ہیں جس کا لازمی اثر سماج اور معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ موجودہ تہذیب کی یہ سب سے بڑی دین ہے کہ اس نے سماج میں گندے اور فساد پھیلانے والے لٹریچر کی بھر مار کردی ہے۔ اور پورا سماج و معاشرہ فکری فساد کی طرف دوڑا جارہا ہے۔ تو دوسری طرف گھروں میں مسقتبل بولنے اور مناظر دکھاتے ٹیلی ویژن ہیں جو دن رات سماج میں فکری فساد پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں صحت مند مطالعہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اور مسلم خواتین کے لیے خاص طور پر کہ انہی کو زمانے کے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہیں اپنی نسلوں کو اس فساد سے بچانا ہی نہیں ہے بلکہ وقت کے دھارے کو بدلنے کے قابل بنانا ہے۔
ہم نے اسلام کو بطور ایک مقصد کے اپنایا ہے۔ اس کے سوا اپنی زندگی کا اور کیا مقصد متعین کرسکتی ہیں کہ ہم اپنی زندگی کو خدا کی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور اللہ کے دوسرے بندوں کو صحیح طور پر اللہ کا بندہ بنانے کی جدوجہد میں لگی رہیں۔ اس مقصد کے لیے جس قسم کا مطالعہ ضروری ہے اور جس نقطۂ نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے اسے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ کر متعین کرلینا چاہیے۔ اس کے بغیر جو مطالعہ کیا جائے گا وہ مفید مطلب نہ ہوگا۔ جس کا کم سے کم نقصان وقت کا ضائع کرنا بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نقصان کی کوئی حد نہیں۔ اس سے آپ کااخلاق بگڑسکتا ہے، آپ کے سوچنے کے انداز خراب ہوسکتے ہیں، آپ کا ایمان ضائع ہوسکتا ہے، آپ کے اندر انسانی خصوصیت کے بدلے حیوانی جذبات پرورش پاسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس کی قیمت میں آپ وہ سب کچھ دے سکتی ہیں جو آپ کو عزیز ہے۔
مطالعہ آپ کے لیے نہایت ضروری ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر یہ طے کریں کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے۔ ہر رسالہ اٹھا کر پڑھ ڈالنا ہر کتاب کے پڑھنے پر اپنا قیمتی وقت اور قوت صرف کرنا اچھی بات نہیں جس طرح کچھ کھانے سے پہلے آپ یہ طے کرتی ہیں کہ کیا کھائیں اور اس کے کھانے سے نفع ہوگا یا نقصان۔ اسی طرح مطالعہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیجیے کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے۔ کھانے میں بے احتیاطی ہوگئی تو اس سے آپ کی جسمانی صحت اور جسمانی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ لیکن اگر مطالعے کے لیے آپ نے غلط چیزیں پسند کرلیں تو اس سے آپ کی روحانی صحت اور فکری شخصیت برباد ہوجائے گی۔ اور آپ جانتی ہیں کہ ایک مسلم کی نظر میں اصل قیمت روحانی زندگی اور فکری صحت کی ہی ہے۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم کیا پڑھیں؟
ہر رسالہ اور ہر کتاب اس قابل نہیں ہوتی کہ آپ اپنا قیمتی وقت اس کے مطالعہ میں صرف کریں۔ اس کے لیے سب سے قیمتی بات یہ ہے کہ ہم اپنے مطالعہ کے لیے پہلے کچھ ایسی کتابیں متعین کرلیں جو ہماری دلچسپی کے موضوعات پر کم وقت میں زیادہ معلومات فراہم کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مختلف موضوعات کے لیے کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور اس میں گھر کے دیگر افراد سے بھی تعاون لیا جاسکتا ہے۔
خواتین کے لیے مطالعہ کے خاص موضوعات گھر کی تنظیم، وقت کی تنظیم، بچوں کی تربیت، کھانے پکانے اور سینے پرونے کے نت نئے طریقے وغیرہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم کہیں گے اس میں زیادہ توجہ فکری مطالعہ پر دی جائے اور دین کے بنیادی احکام، بچوں کی تربیت و تعلیم کے لیے اللہ و رسول کی رہنمائی، قرآن و حدیث کا مطالعہ، اسلام میں عورت کی حیثیت و حقوق، دیگر مذاہب و سماجوں میں عورت کی حیثیت وغیرہ بھی شامل کیے جائیں۔ یہ بات ہر جگہ کہی جاتی ہے کہ مسلم خواتین گھروں میں قید رہتی ہیں اور ان کا کوئی سماجی و معاشرتی رول نظر نہیں آتا۔ اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہے۔ ہم اپنے وسیع مطالعہ اور فعال رول کے ذریعہ سماج کو بہت کچھ دے سکتی ہیں مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں دین کا پختہ شعور بھی ہو اور حالات و مسائل کا گہرا علم بھی۔ اور یہ صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔