ایک امریکی طالب علم اپنا امتحانی پرچہ اٹھا کر ناظم امتحان کے پاس پہنچا اور جنسی تعلیم کے سوال میں ایک لفظ (abstinence) (پرہیز) پر انگلی رکھتے ہوئے بولا:’’اس لفظ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ ناظم پروفیسر نے طالب علم کو دیکھا ار کہا کہ تم اس کے بجائے لفظ Chastity (پاک دامنی) استعمال کرلو۔ طالب علم نے گھور کر پروفیسر کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا: ’’پاک دامنی‘‘ کیا ہوتی ہے؟‘‘
پروفیسر کو حیرت ہوئی کہ اس کی جماعت کے نصف طلبہ و طالبات پرہیز اور پاک دامنی جیسے الفاظ سے قطعی آشنا نہیںتھے۔
پروفیسر نے یہ دلچسپ انکشاف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ نصاب ساز اور حکمت عملی تیار کرنے والے اداروں تک بھی اپنی رائے کے ساتھ پہنچایا۔
’’مجھے اکثر یہ دھوکا ہوتا ہے کہ مروجہ تعلیم کے ذریعے ہم ’’اخلاقی جاہل‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے رپورٹ کے آخر میں لکھا:
امریکہ کے ایک سابق سکریٹری تعلیم کے مطابق ’’ایک وقت وہ تھا کہ ہم طلبہ سے اس قسم کے سوالات پوچھا کرتے تھے کہ ہم نشہ آور سگریٹ کیوں نہیں پیتے؟ ہم جنسی بے راہ روی کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یا ہم فلاںجرم کیوں نہیں کرتے؟ تو ایسے سوالات کا مقصد نشہ آور سگریٹ، جنسی بے راہ روی اور جرائم کے خلاف طلبہ میں شعور پیدا کرنا اور ایسے کام نہ کرنے کے فوائد کی تشہیر تھا۔ اب ہم نہ ایسے سوالات کرتے ہیں نہ نئی نسل کو ان کے جوابات معلوم ہیں۔ تمام قدریں خلط ملط ہوگئی ہیں۔‘‘
ایک معلم نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ جنسی تعلیم کے نصاب سازوں نے لذتیت اور بے راہ روی کو تجویزی اور تحقیقی زبان میں فروغ دیا ہے اور ذاتی پسند کی روشنی میں حدود عبور کر گئے ہیں، لہٰذا نصاب پر کڑی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معلم، دانشور اور ذمے دار ادارے اس انداز سے کام کرتے ہیں؟ وہ کام کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اولاد اگر کسی بھی وجہ سے بے راہرو ہوجائے تو اس کے نتائج کسی حد تک ماں باپ کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو پورے پورے کنبے ایک فرد کی بے راہ روی سے اجڑ جاتے ہیں۔
تمام والدین اپنی اولاد کو بہتر بنانے اور انہیںاخلاقی اقدار سے بہرہ مند کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ مجرم والدین بھی نہیں چاہتے کہ ان کے بچے مجرم بنیں۔ وہ انہیں دیانت، جرأت اور ضبط نفس کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے سامنے جو مکروہات زمانہ رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں ان کی موجودگی میں اخلاقی تعلیم مشکل ہوچکی ہے۔ پھر بھی اس ’’بری دنیا‘‘ میں ’’اچھے بچے‘‘ کی پرورش مندرجہ ذیل سات اصولوں پر عمل پیرا ہوکر کی جاسکتی ہے۔
کس خوبی کی قدر؟
جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بھی دوسرے بچوں کی طرح کرکٹ کھیلے تو ہم اسے بلا اور گیند لاکر دیتے ہیں۔ خود گیند اس کی طرف پھینکتے ہیں اور اس کی بلے بازی پر واہ واہ کرتے ہیں، اسے خوب پیار کرتے ہیں، پھر اچھا بلا اور گیند لاکر دیتے ہیں، گھر سے باہر کھلانے کے لیے جاتے ہیں، بڑے بھائیوں یا بہنوں سے کہتے ہیں کہ بھائی کو کھیل کی مشق کرائیں، اس سے کھیلیں، لیکن جب اخلاق سنوارنے کی بات آتی ہے تو ماں باپ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر وہ بچوں سے محبت کریں گے اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے تو وہ خود ہی مجسمہ اخلاق بن جائیں گے۔ گنے چنے چند بچوں کے بارے میں تو یہ خوش فہمی ممکن ہے حقیقت پر مبنی ہو لیکن بدقسمتی سے ہم جس پرآشوب دنیا میں رہ رہے ہیں، وہاں نہ صرف غلط ترغیبات کا ہجوم ہے بلکہ فضا میں اتنا منفی ماحول ہے کہ بچہ ماں باپ کی اقدار کو بھول جاتا ہے۔
لیجیے ایک یورپی پادری کی مثال سنئے۔ وہ کہتا ہے کہ جب اس کی بیٹی اسکول میں تھی تو وہ یسوع کی بھیڑ تھی۔ کالج میں گئی تو فیشن اور موسیقی کی دلدادہ ہوگئی اور یونیورسٹی میں پہنچ کر تو اس نے اخلاقیات کو محض مفروضہ قرار دیا اور کھل کھیلی۔ قصور ہمارا بھی ہے، میرا اور اس کی ماں کا۔ ہم نے اسے ایڈز کے متعلق تو بتایا لیکن ازدواجی زندگی کی اہمیت سے آگاہ نہ کیا۔
’’آپ کے بچے کی اقدار‘‘ نامی کتاب کے مصنف میاں بیوی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جب ان کے بچے پاؤں پاؤں چلنے لگے تو انھوں نے بچوں کو اقدار سکھانے کا اسکول اپنے گھر میں کھولا۔ ہر ماہ وہ بچوں کو کھیلوں، کہانیوں اور روایات کے علاوہ متعین اقدار میں سے ایک اخلاقی قدر سکھاتے۔ مثال کے طور پر دیانت داری سکھانے کے مہینے میں وہ ’’دیانت سے کام لینے کا عہد‘‘ کرتے۔ بچے اپنے والدین کے ساتھ اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کو دیانت داری کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات بتاتے۔ جب ضبط نفس سکھانے کا مہینہ آتا تو وہ بچوں کو ’’کھیلنے سے پہلے کام‘‘ کے اصول پر قائم رہنے کا انعام دیتے۔ وہ ہر ہفتے انہیں’’شاباش‘‘ کے لفظ پر مبنی اعلیٰ کارکردگی کی تختی دیتے جسے بچے اپنے کمرے کے باہر ایک دوسرے کو بہتر کارکردگی پر اکسانے کے لیے لٹکاتے۔تختی روزانہ کا اسکول کا کام کھیل سے پہلے کرنے یا گھر سے باہر جانے سے پہلے اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے اور پھر دوستوں سے بغیر کسی جھگڑے کے کھیلنے پر دی جاتی۔ گویا وہ ’’عمل سے زندگی بنتی ہے‘‘ کے اصول پر عمل کرتے۔
نصیحت کی دلیل دیں!
مذکورہ کتاب کی مصنفہ لکھتی ہے کہ جب میرے بچے اسکول میں تھے تو میں نے انہیںنصیحت کی کہ وہ سگریٹ اور دوسرے نشوں کے نزدیک نہیں جائیں گے اور نہ ایسے ہم جماعتوں سے کوئی رابطہ رکھیں گے۔ اس بارے میں مجھے جو چند برائیاں اور بیماریاں یاد تھیں میں نے انہیں بتا تو دیں لیکن میری تسلی نہ ہوئی۔ میں نے قومی کلیئرنگ ہاؤس فارڈرگز اینڈ الکوحل انفارمیشن کے ادارے کو لکھا کہ وہ مجھے منشیات اور الکوحل کے بارے میں معلوماتی مواد مہیا کریں۔ کوئی ایک ماہ کے بعد مجھے ایک بہت بڑا بنڈل موصول ہوا جس میں مفت تقسیم کیے جانے والے پرچے، کتابچے اور رسائل تھے۔ بنڈل کا وزن ایک سو پاؤنڈ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس قدر مواد کو میں فورا نہیں پڑھ سکتی تھی، تاہم میں نے ان میں سے کچھ انتخاب کیا اور بچوں کو سمجھایا۔ اس سارے معلوماتی مواد کو میں نے ایک نیلے رنگ کے آہنی صندوق میں بند کر کے رکھ دیا۔ کبھی کبھار میں اسے کھولتی، کچھ مواد پڑھتی اور اس کے متعلق عام گفتگو میں بھی بچوں کو بتاتی رہتی۔
میری انیس سالہ بیٹی نے ایک دن مجھے بتایا کہ میں اپنے ساتھیوں کے مجبور کرنے پر نشے کا سکون آزمانے پر تیار ہوگئی تھی لیکن مجھے گھر میں پڑا نیلا صندوق اور اس کے اندر بھرا سو پاؤنڈ وزنی معلوماتی مواد یاد آگیا۔ میں نے سوچا کہ میری ماں نے تو مجھے نشے اور الکوحل کی بیس پچیس خرابیاں ہی بتائی ہیں۔ صندوق میں بھرے سارے ڈھیر میں تو لاکھوں باتیں درج ہوں گی۔ تبھی تو وہ اس قدر وزنی ہے۔ یہ سوچ کر میری بیٹی نے ساتھیوں کی ترغیب کورد کر دیا۔
ایک واقعہ
کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ ’’تعلیم الاخلاق‘‘ کے صدر میکائیل شلمان نے ایک سیمینار میں ایک سترہ سالہ نوجوان کے متعلق بتایا جسے دو ہفتے کے بعد ہی مکینک اسسٹنٹ کی ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ جب اس کی ماں نے پوچھا کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا ہے تو اس نے بتایا کہ ایک شخص جو اپنے بال بچوں سمیت تعطیلات منانے کنیڈا جا رہا تھا، اپنی گاڑی پڑتال کے لیے چھوڑ گیا۔ ورکشاپ میں ایک اسسٹنٹ نے اس کی پڑتال کی اور اس نے صرف اس کے کاربوریٹر کو ذرا سا صاف کیا۔ ایک آدھ پیچ کسا، ذرا سی صفائی کی، یوں گاڑی کی آواز بہتر ہوگئی اور انھوں نے گاڑی کے مالک سے سو فیصد پڑتال اور مرمت کے پیسے لیے۔ ’’مجھے یہ سب کچھ پسند نہیں آیا۔‘‘ اس نے کہا: ’’فرض کرو ماں! اس شخص کی جگہ اگر میں خود ہوتا اور اتنے لمبے سفر پر جا رہا ہوتا، راستے میں گاڑی یقینا جواب دے جاتی تو میری کیا حالت ہوتی۔ پس میں نے اس شخص کو بتا دیا کہ گاڑی کی کوئی خاص پڑتال نہیں کی گئی اور وہ کنیڈا کے لمبے سفر پر اس کے لیے تفریح کے بجائے عذاب بن سکتی ہے۔
اس کی ماں نے اسے تھپکی دی اور کہا: ’’تم نے ٹھیک کیا۔ اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ کھڑا کر کے سوچا۔ واقعی اگر اس شخص کی جگہ تم ہوتے تو تم پر بھی وہی گزرتی جو اس پر گزرنا تھی۔‘‘
اسی سیمینار میں ایک ایسے شخص سے جس نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر سے یہودیوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میںڈال دی تھی، سوال کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے جواب دیا: ’’فرض کریں اگر میں یہودی ہوتا تو… جب کوئی ہمارے دروازے پر مدد کے لیے دستک دے تو رحم کرنے والے ہاتھ کو وجوہات تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
اپنے بچے کو کسی بھی قدر کی تاکید کرتے ہوئے بار بار ’’احساس‘‘ کے لفظ سے مانوس کریں۔ اسے بتائیں کہ اگر اس کو اس کا بھائی گالی دے تو اسے کیا محسوس ہوگا۔ کوئی ہم جماعت اس کی پنسل چوری کرلے اور وہ دن بھر کچھ نہ لکھ سکے تو وہ کیا محسوس کرے گا۔ حسد کرنا کیا ہے اور رشک کرنا کیا ہے، اچھی قدر میں مقابلے کی اہمیت کیا ہے اور بری عادات میں کسی سے آگے نکلنا کیا معنی رکھتا ہے۔‘‘
بچے احساسات کا سمندر ہوتے ہیں۔ ان سے کھل کر بات کریں۔ صبر سے ان کی سنیں اور استقلال سے ان کی مثبت تربیت کریں تو وہ احساسات کی شناخت کر نے لگ جاتے ہیں۔
سلیقے سے گناہ کا احساس
ہمارے معاشرے میں گناہ، خطا، قصور وغیرہ ناپسندیدہ الفاظ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں بے شمار کتب لکھی گئی ہیں کہ لوگ ان کے ارتکاب سے بچے رہیں اور اس اعصابی بدنظمی کا شکار نہ ہوں جو کسی خطا، قصور یا گناہ کے ارتکاب سے پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت میں احساس گناہ کی خلش ضمیر کی تادیبی آواز ہوتی ہے۔ جب بچہ کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو ہمیں فوری طور پر اس کی عزت نفس کو سہارا دینے کے لیے ’’کوئی بات نہیں‘‘ نہیں کہنا چاہیے۔ کچھ لمحات اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے دیں۔ جب وہ خود ندامت کا اظہار کرے تو پھر ہم اس کی تصحیح کریں۔ بچوں کی نفسیات کے ایک ماہر کا کہنا ہے: ’’کبھی کبھی برا محسوس کرنا بری بات نہیں۔‘‘
اپنی کتاب ’’بچے کی اخلاقی پرورش‘‘ میں میکائیل شلمان نے احساس جرم کے حوالے سے ایک بارہ سالہ طالبہ کی کہانی لکھی ہے جسے اسکول کی لائبری سے ایک نیا پرس پڑا ہوا ملا۔ اس نے وہ اٹھا لیا۔ اس میں وہ ایک نیا فلم، پرفیوم کی ایک بوتل اور سترہ ڈالر کی رقم پاکر بڑی خوش ہوئی۔ اس نے اپنی اس خوشی کا کسی سے اظہار نہیں کیا۔ اس کا ضمیر اسے خود بخود ملامت کرنے لگا۔ اس نے سوچا جس لڑکی کا پرس اس نے اٹھایا ہے نہ جانے وہ کس قدر افسردہ ہوگی۔ پھر اسے یہ احساس ہوا کہ اس نے چوری جیسا جرم کیا ہے۔ وہ ضمیر کے کچوکے برداشت نہ کرسکی اور اس نے پرس کے اندر رکھے ہوئے کارڈ سے مالکہ کا پتہ تلاش کیا اور معذرت کے ساتھ اس کی تمام اشیا سمیت اس کا پرس واپس کر دیا۔
احساس گناہ یا ضمیر کی خلش تھوڑی بہت اخلاقی اقدار رکھنے والے بچوں کو اپنی اصلاح آپ کرنے پر اکساتی ہے۔ ہم بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
بچوں کی نفسیات کی ماہر مس تانگ نائے کہتی ہیں کہ جس بچے کو احساس جرم یا احساس گناہ سے پریشانی لاحق ہو، وہ ایک خاص قسم کے رویے کا اظہار کرتا ہے۔ وہ یا تو خود بخود اپنی اصلاح کرتے ہوئے معاملات درست کرلیتا ہے یا پھر وہ معذرت چاہتا ہے۔ ہمیں اس پر نظر تو رکھنی چاہیے لیکن مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ سرزنش کی صورت میں وہ یا تو ڈپریشن کا شکار ہوجائے گا یا باغی۔
ہماری مداخلت برائے اصلاح اس انداز سے ہونی چاہیے کہ ہم بچے کو نہیں بلکہ جو حرکت اس سے سرزد ہوئی ہے اسے برا کہیں۔ ہم کہیں کہ ایسا کرنا بری بات تھی یہ نہ کہیں کہ تم برے ہو۔ پھر باتوں باتوں میں اسے ایسے طریقے سمجھائے جائیں، جن کے ذریعے وہ معاملات درست کرسکے۔ جب وہ ایسا کرچکے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف کی جائے اور کہا جائے: ’’تم ایک بہادر بچے ہو جو تم نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔‘‘
اخلاقی تعلیم کی حوصلہ افزائی
خواہ کوئی بھی ملک ہو، بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے تدریسی نصاب میں تبدیلی لانا ہوگی۔ امریکہ میں اخلاقی انحطاط سے متاثر ہونے والے بچوں کے والدین بڑے زور و شور سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسکولوں میں اخلاق سنوارنے کی تعلیم کا اجرا کیا جائے، جس میں خوبیوں کے بنیادی نکات کی تعلیم دی جائے۔
میری کلٹو نامی ایک خاتون نے تو اپنے ضلع کے تعلیمی بورڈ کو چیلنج کیا کہ وہ اس جنسی تعلیم کو بند کریں جو طلبہ و طالبات کی بہتری کے بجائے ان کو عیاشی کی طرف مائل کر رہی ہے۔ مخلوط تعلیم کی جماعتوں میں عمر کے حدود کا تعین کیا جائے۔ مذکورہ خاتون نے ایک فنڈ ’’اخلاقی تعلیم‘‘ کے سلسلے میں قائم کیا ہے اور اس کی مدد سے طلبہ و طالبات کو (طالبات کو بالخصوص) منتخب درس گاہوں میں اخلاقی تعلیم دی جا رہی ہے۔
اخلاقی تعلیم حاصل کرنے والی ایک بارہ سالہ لڑکی سے پوچھا گیا کہ اس نے اس تعلیم سے کیا سیکھا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس نے سیکھا ہے دوستی اور میل جول میں اگر کوئی لڑکا اخلاقی حدود پامال کرنے کی کوشش کرے تو اس سے تعاون نہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اگر وہ شادی کالالچ دے اور وعدوں کی بنیاد پر عصمت لوٹنے کی کوشش کرے تو اس سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مجھے نہیں بلکہ میرے جسم کو چاہتا ہے۔ اصل چیز تو محبت سے بھری ازدواجی زندگی ہے۔
اب اخلاقی تعلیم مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں داخل ہو رہی ہے، ہم مشرق والے نہ جانے جدید تعلیم کے غیر اخلاقی پہلوؤں کو وقت کی اہم ضرورت کیوں سمجھ رہے ہیں؟
ہیروز کی کہانیاں سنائیں
بچوں کی نفسیات کے ماہر پروفیسر کل پیٹرک کا کہنا ہے کہ بچوں کو ہیروز کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اچھی خوراک کی۔ اچھی خوراک تو ممکن ہے ان کو مل جاتی ہو لیکن والدین اپنے بچوں کو اخلاقی کردار سے عاری ایسے ہیروز کی کہانیاں کیوں سناتے ہیں، جنھوں نے دولت کما کر محل کھڑے کر لیے ہوں اور لمبے بال رکھ کر ہاتھ میں گٹار پکڑ کر شہرت حاصل کرنے کے لیے ہیروز کا روپ دھارے پھرتے نظر آتے ہوں۔
ہمارے ہاں پرانے تعلیمی نصابوں میں ایسے بہادر لڑکوں کی کہانیاں تھیں جو اس خیال سے بوڑھی اماں کو سڑک پار کراتے تھے کہ کوئی اور بچہ ان کی بوڑھی ماں کو بھی ضرورت پڑنے پر سڑک پار کرائے گا یا بہادر لڑکا دریا کے جلتے پل کو دیکھ کر گاڑی کے سامنے ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہوکر یہ اطلاع دیتے ہوئے جان دے دیتا تھا کہ پوری گاڑی ہی نہر میں نہ گر جائے۔ طرابلس کی جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتے شہید ہونے والی لڑکی فاطمہ کی کہانی اب کسی کو معلوم نہیں۔ اور بہت سی کہانیاں نصاب میں شامل ہوا کرتی تھیں جو جانے کیوں نصاب سے خارج کردی گئیں۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس عوامی کہانیاں، سوانح حیات اور بچوں کے لیے لکھا گیا اعلیٰ ادب موجود ہے۔ ان کو تلاش کرنا اور بچوں کو ان سے متعارف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ ان کے کرداروں سے متاثر ہوں۔ ایسی کہانیوں سے بچوں کو اپنے ان اوصاف کا پتہ چلتا ہے جن سے وہ بوجوہ ناآشنا رہتے ہیں۔
ایک دس سالہ بچہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھا اور اس کا علاج کیمو تھراپی سے لمبا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ علاج کی طوالت سے اکتایا رہتا، لہٰذا مرض میں کمی نہ ہوتی لیکن ایک دن اتفاق سے کسی نے اسے ہر کولیس کی مشکلات کی کہانی سنائی۔ اسے یہ بھی بتایا کہ ہرکولیس کس طرح ان مشکلات سے نکلا۔ کہانی سے بچے نے اس قدر تقویت حاصل کی کہ اس نے نئی امید اور نئی جرات کے ساتھ علاج کو جاری رکھنے کا عہد کیا، پھر مسلسل ہیروز کی کہانیاں سننے کی فرمائش کرتا رہا تاآنکہ اللہ نے اسے شفا دی۔
خود نمونہ بنیے
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اخلاقی طور طریقے اور صحت مند رویے صرف زبان یا کتاب سے اچھی طرح ذہن نشین نہیں کرائے جاسکتے۔ کہنے کی باتوں سے زیادہ عملی رویوں سے بچے سیکھتے ہیں۔ اس نکتے کو اس کہاوت سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ بچہ ماں باپ کے جن منفی نقوش قدم پر چلتا ہے، والدین سمجھتے ہیں کہ وہ نقوش مٹ چکے ہیں یا انھوں نے مٹا دیے ہیں تو بچہ کیا سمجھے گا؟ لیکن بچہ سب کچھ سمجھتا ہے خواہ زبان سے اظہار نہ کرسکے۔
مثبت عمل و کردا رکے نمونے بہرحال مثبت نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک دس سالہ بچی نے مشاہدہ کیا کہ اس کے والدین اکثر غریب و مفلس خاندانوں کی دعوت کرتے ہیں تو اس نے نادار بچوں کی ویسی ہی دعوت کرنے کے لیے مقامی سوپ کی دکان سے چندہ اکٹھا کرنے کی ابتدا کی۔ جب اس بہبود کے ادارہ کا ایک جانا پہچانا نام بن گیا تو ایک قومی سطح کے ٹی وی انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا کہ اسے خیراتی بہبود کے کاموں سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی۔اس نے مختصر جواب دیا کہ میں نے ماں باپ کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔
ہمارے ہاں بھی یہ مقولہ عام ہے کہ بچے نرم شاخ کے مانند ہوتے ہیں، ان کو جدھر موڑا جائے ادھر مڑ جاتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نرم شاخ پر توجہ کس قدر دی جاتی ہے اور اسے موڑا کس انداز سے جاتا ہے؟ میکائیل شلمان کا کہنا ہے کہ بچے جب یہ احساس پالیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی مثبت اخلاقی قدروں کے مطابق بہترین انسانوں کی طرح گزار رہے ہیں تو وہ اپنا ایک اخلاقی ضابطہ ازخود مرتب کرلیتے ہیں۔ وہ اسی پر چلتے ہیں اور کسی دوسرے سے کسی قسم کے انعام کی توقع نہیں رکھتے۔
’’میرے پوتے پوتیوں کی تعداد ماشاء اللہ نو ہے۔ ایک بزرگ بتا رہے تھے۔ بڑے لڑکے کے چار بچے دوسرے بچوں سے علیحدہ اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ وہ جب اسکول جاتے ہیں تو ان کی ماں ان کو لنچ ساتھ دیتی ہے اور کوئی نقد پیسے نہیں دیے جاتے۔ لیکن وہ روزانہ ان کے دس دس روپے جمع کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس باقی بچے لنچ بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور دس روپے بھی جن کی وہ گولیاں، ٹافیاں، اور بسکٹ وغیرہ کھا کر گھر آتے ہیں۔ انہیں اس چٹور پن کی عادت اس قدر پڑ گئی کہ نقد پیسے نہ ملیں تو ضد کرنے لگتے ہیں اور اکثر بیمار رہ کر دوائی پر مزید خرچ کراتے ہیں۔
بزرگ بتاتے ہیں کہ ان عادات کا علم ان کو اس وقت ہوا جب کسی مجبوری کے تحت سب بچوں کو اکٹھے رہنا پڑا۔ پتہ چلا کہ بڑی بہو جب اسکول جاتی تھی تو اس کی ماں بھی اسے صرف لنچ دیا کرتی تھی اور جیب خرچ سے جمع پیسوں سے عیدین وغیرہ پر بچوں کے لیے کپڑے وغیرہ بنا لیتی تھی جب کہ چھوٹی بہوؤں کی ماؤں نے انہیں بچت کی عادت ہی نہیںڈالی۔ بچوں کی طرح وہ خود بھی چٹوری تھیں۔ شادی کے بعد بھی وہ اپنی عادات کو نہیں بھولیں بلکہ آگے بڑھا رہی ہیں۔
آج کی الٹتی پلٹی اور پرآشوب دنیا میں بچوں کی اخلاقی قدروں کی آبیاری کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ جیسی دنیا بدلی ویسی ہی بدلی ہوئی حکمت عملی اور جرات کی ضرورت ہے لیکن یہ اشد ضروری ہے کہ ہم آج کے تقاضوں کے مطابق بچوں کی اخلاقی نہج پر تعمیر کی ذمے داری کا چیلنج قبول کریں اور بچوں کے لیے جئیں۔ بچوں کے لیے جینے سے مراد یہ ہے کہ وہ زیر زمین دنیا کے انسان نہ بنیں۔ افلاطونی مثالی معاشرہ نہ سہی ’’انسانی معاشرے‘‘ کی تعمیر بہرحال ضروری ہے۔
(اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ، مضمون نگار کا نام درج نہیں ہے)