یہ دنیا پوری کی پوری ہی آزمائش کی جگہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور اس امتحان لینے سے اللہ کا مقصد بندوں کو تکلیف پہنچانا نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے بندوں کے درجات و مراتب بلند کرنا مقصود ہوتا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِنَ الْخَوْفِ۔
ایسے ہی ہم سب گھر والوں کا اللہ پاک نے ایک بھیانک ایکسیڈنٹ کے ذریعہ امتحان لیا جو کہ ہم سب کے لیے تو نہایت المناک و درد ناک تھا ہی لیکن بہت غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امتحان بالخصوص میرے دادا جان کے لیے تھا جن کی عمر ۸۵ سال ہے اور جو خدا کے بہت ہی برگزیدہ اور ولی بندے ہیں۔
۱۲؍اگست ۲۰۰۴ء کو میرے والد صاحب والدہ محترمہ، پھوپھا، پھوپھی، چچا اور دوسرے دو رشتے دار ایک ماروتی وین کرایہ پر کرکے ایک قریبی رشتہ دار کی میت میں شریک ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ بھوپال روڈ پر آشٹہ سے ۴ کلو میٹر پہلے ایک تیز رفتار روڈویز بس نے وین کو سامنے سے زبردست ٹکر ماری جس سے وین کے پرخچے اڑ گئے۔ نتیجتاً جائے وقوع پر ہی ایک رشتہ دار کاانتقال ہوگیا۔ والد صاحب، پھوپھا، پھوپھی سخت زخمی ہوئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ہسپتال میں میرے پیارے پیارے چچا جو کہ میرے ہونے والے خسر بھی تھے، کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ ہم سب کے لیے اتنا سخت المیہ اور اتنا سخت حادثہ تھا جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب سے بڑی فکر تو یہ تھی کہ چچا کے انتقال کی خبر قبلہ دادا جان کو کیسے دی جائے کیونکہ وہ ان کے بہت لاڈلے اور چہیتے بیٹے تھے جن کے بغیر وہ ایک دن بھی نہیں رہ سکتے تھے۔
بہر حال دونوں نعشیں گھر لائی گئیں شام تک دادا جان سے مخفی رکھا گیا لیکن تابکے؟ جب تجہیز و تکفین مکمل ہوگئی تو ان کو بتایا گیا۔ سب کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ بھی جاں بحق نہ ہوجائیں۔ لیکن خدا کی قدرت کہ یہاں ان کا علم و تقویٰ کام آیا۔ کچھ دیر تو ان پر اضطراری کیفیت طاری رہی لیکن پھر فوراً ہی سنبھل گئے اور سب سے کہا کہ خبردار کسی کے منہ سے کفر کا کلمہ نہ نکل جائے۔ خدا نے یہ بلا صرف اس لیے بھیجی ہے کہ بندہ کفر بکتا ہے یا خدا کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرکے صبر کرتا ہے۔ ہم کو ہر حال میں اس کے ہر حکم پر راضی برضا رہنا چاہیے۔
ہم لوگ سخت حیران تھے کہ جس ۸۵ سالہ باپ کے سامنے ۴۵ سالہ جوان لڑکے کی نعش رکھی ہو وہ نہ یہ کہ خود سراپا صبروضبط کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سنبھال رہے ہیں۔