امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ایک دن چند اصحاب کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھی خاتون ملیں انہوں نے امیر المومنین کو روکا اور باتیں شروع کردیں۔ حضرت عمرؓ سر جھکا کر دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے اور جب تک وہ خاموش نہ ہوئیں آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا:
’’امیر المومنین آپ نے اس بڑھیا کی باتیں سننے میں اتنا وقت گزار دیا اور اپنے ساتھیوں کو اتنی دیر روکے رکھا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’جانتے بھی ہو یہ عورت کون ہے؟ یہ عورت وہ ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں پر سن لی تھی۔ واللہ اگر یہ رات بھر ٹھیرتی تو بھی میں سوائے نماز کے اور کوئی کام نہ کرتا اور اس کی باتیں سنا کرتا۔‘‘
یہ خاتون جن کی صدائے درد اللہ تعالیٰ نے عرشِ معلی پر سنی تھی اور جن کا خلیفۂ عرب و عجم فاروقِ اعظم ؓ اس قدر احترام کرتے تھے، حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ تھیں۔
حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنی عوف بن خزرج سے تھا۔ ان کا نکاح اپنے ابن عم حضرت اوسؓ بن صامت سے ہوا تھا جو حضرت عبادہؓ بن صامت کے بھائی تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا شمار جلیل القدر صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ حضرت خولہؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور رحمتِ عالم ﷺ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور گمنامی کی زندگی بسر کررہی تھیں کہ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انہیں لا زوال شہرت عطا کردی اور صحابہ کرامؓ کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہوگیا۔
واقعہ یہ تھا کہ حضرت خولہؓ کے شوہر اوسؓ بن صامت ایک معمر آدمی تھے اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوگیا تھا، ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور بعض اوقات جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔ ایک دن غصے میں آکر اپنی اہلیہ (حضرت خولہؓ) سے کہہ دیا: انت علی کظہر امی (یعنی تو میرے اوپر ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ) اس زمانے میں اس طرح کے الفاظ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’’تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو۔‘‘اس قسم کے فعل کا نام ’’ظہار‘‘ ہے۔ جب ان کا غصہ اترا تو سخت پریشان ہوئے کہ یہ کیا حرکت کر بیٹھا ہوں، اب گھر کو بچانے کی کیا صورت ہو، خولہؓ بھی دم بخود بیٹھی تھیں۔ جب حضرت اوسؓ نے ان کے سامنے ندامت کا اظہار کیا تو بولیں:
’’گو تم نے طلاق نہیں دی لیکن میں نہیں کہہ سکتی کہ یہ الفاظ کہنے کے بعد میرے اور تمہارے درمیان میاں بیوی کا رشتہ باقی رہ گیا ہے یا نہیں، تم رسولؐ کی خدمت میں جاؤ اور اس بات کا فیصلہ کراؤ۔‘‘
حضرت اوسؓ نے کہا: ’’مجھے یہ واقعہ رسولؐ کے سامنے بیان کرنے سے شرم آتی ہے۔ خدا کے لیے تم ہی ہادیٔ برحق سے اس کے متعلق فتویٰ لو۔‘‘
حضرت خولہؓ فوراً رحمتِ عالم ﷺ کی خدمت میں پہنچیں، آپؐ اس وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر تشریف فرما تھے۔ خولہؓ نے سارا قصہ بیان کرکے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کی کوئی صورت ہوسکتی ہے۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو۔‘‘
ایک دوسری روایت کے مطابق حضورؐ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ :
’’اس مسئلے میں ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔‘‘
سرورِ عالمﷺ کا جواب سن کر حضرت خولہؓ نالہ و فریاد کرنے لگیں اور بار بار حضورؐ سے عرض کرنے لگیں کہ اوسؓ میرا ابن عم ہے، اس کی تند مزاجی اور بڑھاپے کا حال حضورؐ پر روشن ہے اس نے غصہ میں آکر ایسی بات کہہ دی ہے جو میں قسم کھا کے کہتی ہوں کہ طلاق نہیں ہے۔ خدارا کوئی ایسی صورت بتائیں کہ میری اور میرے بوڑھے شوہر اور بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔
سرورِ عالمﷺ اپنی رائے پر قائم رہے لیکن خولہؓ مایوس نہ ہوئیں اور برابر حضورؐ کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہیں پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی:
’’اے مولائے کریم میں تجھ سے اپنی سخت ترین مصیبت کی فریاد کرتی ہوں، اے اللہ جو بات ہمارے لیے رحمت کا باعث ہو اسے اپنے نبیؐ کی زبان سے ظاہر فرما۔‘‘
حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ منظر اتنا دردناک تھا کہ میں اور گھر کے سارے لوگ اشکبار ہوگئے۔
حضرت خولہؓ کا اصرار جاری تھا کہ یکایک رحمتِ عالم ﷺ پر نزولِ وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا خولہؓ ذرا انتظار کر شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کا فیصلہ کردیا ہے۔
حضرت خولہؓ کے لیے یہ سخت امتحان کی گھڑی تھی۔ انھیں ڈر تھا کہ فیصلہ میرے خلاف ہوا تو اس صدمہ سے جانبر نہ ہوسکوں گی لیکن جب حضورؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کو متبسم پایا۔ اس سے ان کے دل کو قرار آگیا اور خوشخبری سننے کے لیے کھڑی ہوگئیں۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’خولہؓ اللہ تعالیٰ نے تمہارا فیصلہ کردیا۔‘‘ پھر آپؐ نے سورئہ مجادلہ شروع سے اخیر تک پڑھی۔ اس کی پہلی ہی آیت حضرت خولہؓ کے بارے میں تھی:
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا و تشتکی الی اللہ واللہ یسمع تحاورکما ان اللہ سمیع بصیر۔
(اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کررہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بیشک اللہ سمیع اور بصیر ہے۔)
اس کے بعد اس سورہ میں نازل ہونے والے احکام کے مطابق آپؐ نے حضرت خولہؓ سے فرمایا کہ اپنے شوہر سے کہو کہ ایک لونڈی یا غلام آزاد کردیں۔
حضرت خولہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میرے خاوند کے پاس نہ کوئی لونڈی ہے نہ غلام۔‘‘
حضور ؐ نے فرمایا: ’’تو پھر وہ مسلسل ساٹھ روزے رکھیں۔‘‘
حضرت خولہؓ بولیں: ’’یا رسولؐ اللہ! خدا کی قسم میرا شوہر بہت کمزور ہے۔ جب تک وہ دن میں تین بار نہ کھا پی لے اس کی بینائی جواب دینے لگتی ہے مسلسل ساٹھ روزے رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا: ’’اچھا تو ان سے کہو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادیں۔‘‘
خولہؓ نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! میرا شوہر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ الا یہ کہ آپؐ مدد فرمائیں۔‘‘
رحمتِ عالم ﷺ کا سحابِ کرم تو حاجت مندوں پر ہر وقت برستا ہی رہتا تھا۔ آپؐ نے حضرت اوسؓ بن صامت کو اتنا سامانِ خوراک عطا فرمایا جو ساٹھ آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی تھا۔ حضرت اوسؓ نے یہ سامان صدقہ کرکے اپنے ظہار کا کفارہ ادا کردیا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفارہ کا نصف سامانِ خوراک حضورؐ نے عطا فرمایا اور نصف حضرت خولہؓ نے شوہر کو دیا۔
علامہ ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ خولہؓ حضورؐ سے رخصت ہوکر گھر آئیں تو حضرت اوسؓ کو دروازے پر اپنا منتظر پایا۔ بیتابی سے پوچھا: کیوں خولہؓ حضورؐ نے کیا حکم دیا؟ خولہؓ نے سارا ماجرا بیان کیا اور کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو، جاؤ اور ام المنذرؓ بنت قیس سے ایک بارِ شتر کھجوریں لے کر ساٹھ مسکینوں پر صدقہ کردو تاکہ تمہاری قسم کا کفارہ ادا ہوجائے۔
حضرت اوسؓ کو اس فیصلہ پر ناقابل بیان مسرت ہوئی اور انھوں نے کفارہ ادا کرکے آئندہ کے لیے ایسی بات منہ سے نہ نکالنے کا عہد کیا۔
سورئہ مجادلہ کے نزول کے بعد حضرت خولہؓ کا مرتبہ لوگوں کے نزدیک بہت بلند ہوگیا یہاں تک کہ اکابرین صحابہؓ بھی ان کی از بس توقیر اور تعظیم کرتے تھے۔ حضرت عمرفاروقؓ سے ان کی ملاقات کا جو واقعہ اوپر بیان کیا گیا ہے وہ بیہقی سے ماخوذ ہے۔ بعض دوسرے اہل سیر نے اسے دوسرے انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے راستہ میں خولہؓ کو دیکھا تو ان کو سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دے کر حضرت عمرؓ کو وہیں روک لیا اور کہنے لگیں:
’’اوہو، عمر ایک زمانہ تھا کہ میں نے تمہیں بازارِ عکاظ میں دیکھا تھا اس وقت لوگ تمہیں عمیر عمیر کہہ کر پکارتے تھے اور تم لاٹھی ہاتھ میں لے کر بکریاں چَراتے پھرتے تھے۔ تھوڑے ہی زمانے کے بعد لوگ تمہیں عمر کہنے لگے اور پھر وہ وقت آیا کہ تمہارا لقب امیر المومنین ہوگیا۔ پس مخلوقِ خدا کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین جانو کہ جو شخص عذابِ الٰہی سے ڈرتا ہے اس کے لیے بعید بھی قریب ہوتا ہے اور جو موت سے ڈرے گا اس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہے گا اور وہ اسی چیز کو کھودے گا جس کو وہ بچانا چاہتا ہے۔‘‘
کچھ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ تھے ایک نے کہا: ’’بڑی بی تم نے تو امیر المؤمنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا۔‘‘
(بقول حافظ ابن عبدالبرؒ یہ بات کہنے والے حضرت جارود عبدیؓ تھے) حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
’’یہ جو کہتی ہیں انہیں کہنے دو۔ تمہیں معلوم نہیں یہ کون ہیں؟ یہ خولہؓ بنت ثعلبہ ہیں ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی اور انہیں کے بارے میں تو آیہ قد سمع اللہ نازل ہوئی تھی۔ مجھ اللہ کے ناچیز بندے کو تو ان کی بات بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔‘‘
حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کے سالِ وفات اور زندگی کے دوسرے حالات کی تفصیل کتب سیر میں نہیں ملتی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا