بوڑھے مردوں اور عورتوں کی گھروں کے فرش پر، باورچی خانے، غسل خانے اور سیڑھیوں سے گرنے کی واردات ہمارے سماج میں عام چیز ہے۔ اس طرح کے حادثات میں کولھے کی ہڈی کا فریکچر، جسم کے دوسرے حصوں میں فریکچر، سر میں شدید چوٹ جو بعض اوقات مہلک ثابت ہوتی ہے، بہ کثرت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض اوقات بزرگ فرد کے کولھے کی ہڈی کا فریکچر انہیںہمیشہ کے لیے معذور بنا کر بستر پر ڈال دیتا ہے، اس مضمون میں اس کے اسباب اور تدارک کی صورتوں کا بیان مقصود ہے تاکہ ہم اپنے بزرگوں کا خیال رکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے حادثات سے بچا سکیں۔
بوڑھوں کے گرنے کے اسباب
٭ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر بوڑھے لوگ کئی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور ایک وقت میں کئی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ جدید دوائیں اگرچہ زندگی بچاتی ہیں، لیکن ان کے پہلوئی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان سے بوڑھوں کے جسم کا توازن خراب ہوسکتا ہے۔ بعض دوائیں غنودگی لاتی ہیں، طاقت کو کم کرتی ہیں اور بینائی کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان دواؤں کے اثر سے بوڑھے لوگ بعض اوقات پورے ہوش میں نہیں ہوتے اور ان کا جسمانی اعضا پر پورا قابو نہیں ہوتا یا انہیںصحیح نظر نہیں آتا تو وہ گر پڑتے ہیں۔ ہم یہاں صرف اعضا کی ٹوٹ پھوٹ پر بات کر رہے ہیں ورنہ سر کے بل گرنے سے دماغ کی شریانیں بھی پھٹ سکتی ہیں، دماغ کی شریانوں سے خون آسکتا ہے، جس سے دماغی فالج بھی ہوسکتا ہے۔
٭ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر بوڑھے اپنی عمر کے مطابق وہ ورزشیں نہیں کرتے جن سے عضلات کو طاقت اور توازن حاصل ہوتا ہے اور جو اس قسم کے حادثات سے محفوظ رکھتا ہے۔
٭ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ خوش حال مغربی ممالک میں بھی ابھی تک ایسے مکان نہیں ہیں، جن میں بوڑھوں کی ضروریات کا بھی لحاظ رکھا گیا ہو۔ امریکہ میں نیو ہیون کے اطراف میں رہنے والے بوڑھوں اور ان کے مکانات کا ایک سروے کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ۷۰ برس سے زیادہ عمر کے بوڑھوں میں ۷۲ فیصد بوڑھی عورتیں تھیں اور ان میں سے ۶۹ فیصد تنہا رہ رہی تھیں۔ ان کے مکانوں کے سروے میں یہ معلوم ہوا کہ ہر مکان میں دو تین احتیاطوں کی کمی پائی گئی۔ مثلاً رہنے بسنے کے کمروں، باتھروم اور راستوں کے فرش پر ایسے تھے جن پر بوڑھے گر سکتے تھے۔ فرش قالینوں وغیرہ کے کونے مڑے ہوئے تھے، بجلی کے تار پڑے تھے۔ جن فرشوں پر قالین یا دری نہیںتھی ان میں پھسلن تھی۔ سیڑھیوں پر پکڑنے اور سہارا لینے کے لیے ریلنگ نہیں تھی۔ دو تہائی مکان ایسے تھے جن میں رات کے لیے روشنی کا بندوبست نہیں تھا۔ بعض کمروں میں روشنی کم تھی۔ اگر روشنی کا پورائنٹ تھا تو سوئچ نہیں تھا۔ سیڑھیوں کو روشنی پہنچانے کے لیے اوپر اور نیچے دونوں جگہ سوئچ ہونے چاہئیں جو نہیں تھے۔ سیڑھیوں کے پائے دانوں کے سائز اور اونچائی میں کوئی ایک معیار نہیںتھا اور وہ قابل مرمت تھیں۔
٭ غسل خانہ بھی خطرے کی جگہ ہے۔ فرش پر پھسلن نہیں ہونی چاہیے، کھڑا ہونے اور بیٹھنے کے لیے دیوار پر پکڑنے کا کوئی سہار اہونا چاہیے نیز روشنی کا صحیح بندوبست ہونا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ کہ غسل خانہ کا فرش خشک رہنا چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ گھر کا جو بھی فرد غسل خانہ استعمال کرے وہ نکلنے سے پہلے اچھی طرح وائپر چلا کر فر ش کو خشک کردے تاکہ پھسلنے کا امکان نہ رہے۔
٭ رہنے کے کمرے میں کسی چیز سے ٹکرا کر گرنے کا کوئی امکان نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے چیزوں کو سلیقے اور ترتیب سے رکھنا کافی ہوتا ہے۔
٭ باورچی خانے کے دروازے کے پاس ہی سوئچ ہونے چاہئیں اور فرش صاف ہونا چاہیے تاکہ آدمی ٹکرا کر نہ گرے۔ اس میں بیٹھنے کے اسٹول محفوظ قسم کے ہوں۔ شیلف اور الماریاں بہت اونچی نہ ہوں کہ کسی چیز پر چڑھنے کی ضرورت پڑے۔
حادثات کا اوسط
بوڑھوں کے گرنے کے حادثات میں سے ساٹھ فیصد گھر ہی میں ہوتے ہیں، مثلا پھسلواں فرش، پھسلواں راستے، بغیر جنگلے کی سیڑھیاں، راستے میں پڑا ہوا سامان، روشنی کا نامناسب انتظام، جوتے صحیح قسم کے نہ ہونا۔ اس کا علاج بھی ہم خود کرسکتے ہیںاور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو بزرگوں کی ضرورت کے مطابق تیار رکھیں۔
روک تھام
بوڑھے لوگوں کے اعضا کو طاقت ور بنانے اور ان میں حرکت اور توازن قائم کرنے کی ورزشیں مقرر ہیں۔ ان کے دو فائدے ہیں: ایک تو یہ ورزشیں ہڈیوں کو گھسنے سے بچاتی ہیں، دوسرے عضلات کو طاقت پہنچاتی ہیں اور اعضا کے درمیان توازن قائم کرتی ہیں۔
٭ بوڑھوں کو چاہیے کہ اگر مختلف دواؤں کے استعمال سے ان کا سر چکراتا ہے یا بینائی کم ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر ہائی بلڈ پریشر اور قلب کی دواؤں کے یہ اثرات ہوسکتے ہیں یا نظام اعصاب کی دواؤں سے توازن کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے تو اس صورت میں وہ اپنے معالج کو اپنے مسئلے سے آگاہ کریں۔ جب کہ اہل خانہ کا فرض ہے کہ وہ گھر کے بزرگوں کا اور ان کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھیں۔