وہ ایک عورت تھی اور بہ ظاہر عام سی عورت۔ میری اس سے پہلی ملاقات ٹرین میں ہوئی تھی۔ میں نوکری کرتی تھی اور روزآتی جاتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک عورت ہوں اور مجھے اپنے عورت ہونے پر بہت فخر ہے۔ میں اس کی طرف فخریہ دیکھنے لگی کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم عورتوں کا تصور ایسا ہوتا ہے۔ پھر اس نے اپنا پورا تعارف کرایا۔ وہ حقوق نسواں کی بہت بڑی علمبردار تھی۔ میں بھی اس سے بہت متاثر ہوئی کیوںکہ وہ عورت کو اس کا حق دلانا چاہتی تھی۔ مغربی آزادی کے تحت نہیں بلکہ وہ چاہتی تھی کہ ہر عورت کو اس کا وہ حق دلادے جو اسلام میں اسے ملا ہے۔ وہ اجتماعات میں عورتوں کو ان کے حقوق بتاتی اور کہتی کہ ایسے دور میں جب کہ لوگ عورتوں کے حقوق کو فراموش کرچکے ہیں اپنا حق طلب کرنا جہاد کی طرح ہے۔ ہم میں سے کوئی عورت اپنے کو کمتر نہ سمجھے، عورت ہونا ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہے۔ اگر ہم عزم کرلیں تو اپنے سارے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض سبھی عورتیں اس سے متاثر تھیں۔ میں نے ایک آدھ بار اس کے پروگراموں میں بھی شرکت کی لیکن پھر اپنی مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکی۔
بہت دنوں بعد اس دن اتفاقاً اس سے میری ملاقات ہوئی میں بالکل حیران تھی۔ کیوں کہ وہ پہلے جیسی بالکل نہ تھی اس کے چہرے پر نہ وہ شادابی تھی نہ اس کے اندر وہ جوش تھا۔میں نے گفتگو میں اس سے دریافت کیا۔ آپ کے پروگرام کیسے چل رہے ہیں۔ اس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے سب چھوڑ دیا ہے۔ میں اس لائق نہ تھی۔ میں نے سوچا شاید کوئی پریشانی پیش آئی ہوگی یا کوئی بات ہوئی ہوگی۔ پھر میں نے پوچھا اور آپ کے بچے وغیرہ کیسے ہیں؟ اس پر تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ پھر کچھ دیر بعد بولی آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو بتاتی ہوں۔ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میرے بچے، میرے جگر گوشے مجھ سے چھوٹ گئے ہیں۔ مجھے سن کر بہت دکھ ہوا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ غلطی میری ہے۔ میں نے کبھی شوہر یا اپنے بچوں کے حقوق ادا نہیں کیے بلکہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ ان کے کیا حقوق تھے۔ میں نے تو ان سے صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ کیوں کہ میں سمجھتی تھی کہ عورت زمانۂ جاہلیت کی طرح پھر سے مظلوم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے میں نے عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کی ایک مہم شروع کردی۔ انھوں نے ہمیشہ میرے حقوق کو پورا کیا۔ لیکن میں نے کبھی ضرورت نہ سمجھی کہ ان کے یا بچوں کے یا اپنے رشتہ داروں کے حقوق پہچانوں۔ دھیرے دھیرے وہ مجھ سے اور میرے پروگراموں سے بیزار ہوگئے پھر مجھے ان پروگراموں سے منع کردیا۔ تب میں ان کو اور بڑا حقوق نسواں کا دشمن سمجھنے لگی اور اپنے پروگراموں کو نہ چھوڑا۔ دھیرے دھیرے ہمارے درمیان تلخی بڑھ گئی اور یہ نوبت آگئی۔
صحیح بات تو یہ ہے بہن کہ آج ہم میں کا ہر شخص صرف اپنے حق کو پہچانتا ہے اور اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں سوچتا ہم کو یہ حق کیوں ملا۔ حق دینے والے کا بھی ہم پر کچھ حق ہوگا اوراس کے بھی ہم سے کچھ مطالبات ہوں گے۔ حق دینے والے نے ہم پر بھی دوسروں کے کچھ حقوق عائد کیے ہیں۔ کیا ہم ان کو پورا کرتے ہیں اگر نہیں تو کیسے ہم یہ توقع کریں کہ ہم کو ہمارا حق دیا جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنے اوپر عائد کیے ہوئے حقوق کو ادا کریں گے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گذاریں گے تو ہم کو ہمارا حق خود بخود مل جائے گا۔ یہ بات اب میرے سمجھ میں آئی ہے کاش کہ اور لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
ہر عورت اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کے شعور کے ساتھ ہی باعث اعزاز ہوتی ہے۔ اور اس وقت تک اپنے حقوق کا حصول ممکن نہیں جب تک ہم دوسروں کو ان کے حقوق نہ دیں۔ بلکہ حقوق کے حصول کا فارمولہ ہی یہ ہے کہ پہلے دوسروں کے حقوق ادا کرو پھر اپنے حقوق کا مطالبہ رکھو۔ اب اس کی سمجھ میں بات آئی کہ زندگی میں ایک حسین توازن اور بیلنس کی ضرورت ہے۔ مگر اس نے سمجھنے میں دیر کی اور میں سوچنے لگی:
’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔‘‘