اسلام میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ اخلاق کی اہمیت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا: ’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کوتکمیل تک پہنچاؤں۔‘‘ اخلاق میں یوں تو بہت سی چیزیں آجاتی ہیں مگر عام طور پر حق ادا کرنا، عدل و انصاف قائم کرنا، کسی سے وعدہ کیا تو اس کو پورا کرنا، محبت کرنا کسی کو تکلیف نہ دینا یہ سب باتیں اخلاق کے اصول ہیں۔
اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا دوسرا نام ہے۔ اللہ کے حق کے بعد بندوں کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے اور بندوں میں سب سے پہلا حق ماں باپ کا ہے کیونکہ والدین کے ذریعہ ہی بیٹے بیٹیوں کا وجود ممکن ہوپاتا ہے۔ ان کو دنیا میں زندگی اور پہچان والدین کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے لہٰذا ان کا حق بچوں پر سب سے بڑا ہے۔
قرآن میں اللہ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی خدمت کا دکر بھی کیا ہے اسلام میں سب سے بڑا شرک یعنی اللہ کے ساتھ جو ہمارا خالق ہے کسی دوسرے کو شریک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں شرک سے روکا ہے وہیں والدین کی نافرمانی سے بھی باز رہنے کی تاکید کی ہے۔ اور والدین کی نافرمانی کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کبیرہ گناہوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’کبیرہ گناہوں میں جو سب سے بڑے ہیں آج میں تمہیں ان کے بارے میں بتاتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا ہے وہ تین ہیں (۱) اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک کرنا (۲) ماں باپ کی نافرمانی کرنا (۳) جھوٹی گواہی دینا۔
آپؐ نے فرمایا: سب سے بہترین عمل خدا کے نزدیک تین ہیں وقت پر نماز پڑھنا، ماں باپ کی خدمت کرنا، اور جہاد کرنا اس حدیث میں نماز اور جہاد ایسی بڑی عبادت کے ساتھ ماں باپ کی خدمت کو ملایا گیا ہے اور ایک جگہ تو والدین کی خدمت کو جہاد سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ اسلام کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی جہاد کے سفر پر جانے کے لیے آئے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین میں سے کوئی حیات ہے انھوں نے کہا ہاں! اس پر آپؐ نے فرمایا جاؤ ان کی خدمت کرو۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَقَضَی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہٗ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً…
’’اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیاہے کہ تم کسی کی عبادت نہ کرو سوائے اس کے، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں نہ جھڑکو بلکہ اف تک نہ کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو۔‘‘
ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو (یہی بات آپ نے تین بار فرمائی) اس پر صحابہ کرام نے پوچھاکہ اللہ کے رسول کس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس پر آپؐ نے جواب دیا جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل کرنے سے محروم رہا۔
ایک بار حضورؐ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ماں باپ کے بچوں پر کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:
’’وہ تیرے لیے جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔‘‘
اس کامطلب ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا جنت میں اور برا برتاؤ کرنا دوزخ میں لے جاتا ہے۔والدین کے ساتھ ہر اچھے برتاؤ اور معاملہ کی اللہ کی نظر میں کتنی اہمیت ہے اور وہ اس سے کتنا خوش ہوتا ہے اس بات کا اندازہ اللہ کے رسول کی اس حدیث سے لگاسکتے ہیں: ’’جب اولاد اپنے والدین کی طرف محبت سے دیکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ محبت کی نگاہ کے بدلے ایک حج کا ثواب دیتا ہے۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم ان باتوں پر دھیان دیں اور اگر ہمارے والدین زندہ ہیں تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے جنت کمانے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم بھی انہیں لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جن کے بارے میںآپؐ نے فرمایا تھا : ’’اس کی ناک خاک آلود ہو۔‘‘