حضرت عمیرؓ کو حمص کا گورنر بنے ایک برس بیت گیا اور اس مدت میں وہاں سے کوئی آمدنی وصول نہ ہوئی، تو خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے انھیں خط لکھ کر بلوالیا اور تاکید کردی کہ اس مدت میں جو رقم تم نے وصول کی ہو، ساتھ لے آؤ۔ خط ملتے ہی حضرت عمیرؓ نے اپنا ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔
امیر المومنینؓ: کیا تم پیدل چل کر آئے ہو؟
حضرت عمیرؓ: ’’جی ہاں!‘‘
امیر المومنینؓ :وہاں کوئی ایسا شخص نہ تھاجو سواری کا انتظام کردیتا۔
حضرت عمیرؓ: نہ میں نے کسی سے اس کی فرمائش کی اور نہ خود ہی کسی نے اس کا بندوبست کیا۔
امیر المومنینؓ: وہ مسلمان کتنے بداخلاق ہیں جن کے پاس تم رہ رہے ہو۔
حضرت عمیرؓ: امیر المومنین! خدا کا خوف کیجیے! خدا نے ہم کو غیبت سے روکا ہے، میں نے ان مسلمانوں کو روزہ رکھتے اور نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
امیر المومنینؓ: تمہارے پاس کیا کچھ سامان ہے؟
حضرت عمیرؓ: یہ میرا تھیلا ہے جس میں زاد راہ ہے، میرا پیالہ ہے جس میں کھاتا پیتا ہوں اور یہ چھوٹا مشکیزہ ہے جس میں وضو کرنے اور پینے کے لیے پانی رکھتا ہوں۔ ان کے علاوہ یہ میرا ڈنڈا ہے جس پر ٹیک لیتا اور ضرورت کے وقت دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں۔
امیر المومنینؓ: اب تم اپنی کارگزاری بتاؤ۔
حضرت عمیرؓ: حمص پہنچ کر میں نے وہاں کے نیک لوگوں کو جمع کیا اور انھیں مختلف قسم کی آمدنیوں کی وصولی پر مقرر کیا۔ آمدنی ہونے پر میں نے اسی شہر کے ضروری اور شرعی مصارف میں خرچ کردیا۔
خلیفہ دوم ان کے بیان سے بہت خوش ہوئے اور حکم دیا: ’’انھیں ان کے عہدے پر بدستور قائم رکھا جائے۔‘‘ لیکن حضرت عمیرؓ وہاں دوبارہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
امیر المومنینؓ: کیوں؟
حضرت عمیرؓ: اس لیے کہ ہزار احتیاطوں کے باوجود ایک دن ایک غیر مسلم (عیسائی) کے لیے میرے منہ سے نکل گیا ’’اللہ تجھے خوار کرے۔‘‘ ایسی صورت میں مجھے خدا کے مواخذے کا ڈر لگا ہوا ہے اور میں اس کے سامنے جواب دہی کی ہمت اپنے میں نہیں پاتا۔‘‘ یہ کہہ کر درویش صفت گورنر اپنے گھر چل دئیے جو مدینہ سے کافی فاصلے پر تھا۔
کچھ دنوں بعد حضرت عمرؓ نے سو دینار دے کر ایک شخص کو ان کے پاس روانہ کیا۔ یہ صاحب ان کے مکان پر پہنچے، تو حضرت عمیرؓ باہر ہی بیٹھے تھے۔ انھیں دیکھ کر کہا: ’’آئیے تشریف رکھئے، آج کدھر آنا ہوا۔‘‘
قاصد: مدینہ منورہ سے آرہا ہوں۔
حضرت عمیرؓ: امیر المومنین کا کیا حال ہے؟
قاصد: اچھے ہیں، اللہ کے احکام اس کے بندوں پر نافذ کررہے ہیں۔
حضرت عمیرؓ: اے اللہ! عمرؓ کی مدد کر، وہ تیری راہ میں سرگرم ہے۔
قاصد نے پھر عمیرؓ کے یہاں تین دن قیام کیا۔ ان کے گھر کی یہ حالت تھی کہ مشکل سے روٹی کا ایک ٹکڑا میسر ہوتا تھا جس کو مہمان کے سامنے رکھ دیتے اور خود فاقہ کرتے تھے۔ قاصد نے رخصت ہوتے وقت وہ دینار نکال کر پیش کیے اور کہا ’’امیر المومنین نے آپ کی ضرورت کے لیے بھیجے ہیں۔‘‘
حضرت عمیرؓ کی غیر مند طبیعت نے انھیں لینا گوارہ نہیں کیا۔ بولے: ’’مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ اور فوراً وہ رقم محتاجوں میں تقسیم کردی۔
یہ حالت دیکھ کر قاصد مدینہ منورہ واپس آیا اور حضرت عمر فاروقؓ کو سارا ماجرا سنایا۔
حضرت عمیرؓ تھوڑے دنوں بعد وفات پاگئے۔ امیر المومنین کو اطلاع ملی تو بہت رنج ہوا۔ پیادہ پا قبرستان تشریف لے گئے، ان کے لیے دعائے رحمت و مغفرت فرمائی اور فرمایا:
’’کاش مجھے عمیرؓ جیسا کوئی ساتھی نصیب ہو۔‘‘
کیا آج کے دور مساوات و جمہوریت میں ایسے حاکم یا گورنر کا تصور کیا جاسکتا ہے؟