مسلم خواتین کے انٹرویوز
جولائی ۲۰۰۵ء کا حجاب آج ہی موصول ہوا۔ محترم سعادت حسینی کا مضمون ’’امت کی مائیں اور اعلیٰ تعلیم‘‘ کافی پسند آیا۔ اللہ تعالیٰ لکھنے اور شائع کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ساتھ ہی ایک گذارش ہے کہ محترم کا مضمون ابھی تشنہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ بہنیں صحیح انداز سے اپنے علم و صلاحیت کو استعمال کرنا نہیں جانتیں۔ جب آپ نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے تو اس کاحل بھی پیش کیجیے۔ تعلیم یافتہ ماؤں کو ڈاکٹر ترابی، پروفیسر اربکان اور راشد الغنوشی سے متعارف بھی کرائیے۔ میری خواہش ہے کہ اس تعلق سے تربیت کے لیے حجاب میں خصوصی سیریز شروع کی جائے تاکہ اس صدی میں ایک نہیں کئی اسلام پسند بیٹیاں علم و فن کے شعبہ میں اجتہادی کارنامے انجام دے سکیں۔
تحسین فاطمہ، ناندیڑ
]حجاب آپ کو پسند آیا۔ اللہ کا شکر ہے۔ آپ کا تاثر ہمیں بھی مل گیا اور اب سعادت اللہ حسینی صاحب کو بھی معلوم ہوجائے گا۔ عزیز بہن! ہمارا جی چاہتا ہے کہ حجاب میں بہت کچھ دیں۔ مگر کہیں کہیں مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور یہ مجبوری لکھنے والیوں کی ہے۔ ہماری بہت سے بہنیں اگر چاہیں تو بہت اچھے اچھے موضوعات پر لکھ سکتی ہیں۔ مگر وہ اس طرف توجہ نہیں دیتیں۔ کاش کہ امت کی یہ بیٹیاں جہاد بالقلم کے لیے خود کو تیار کرلیں۔ ایڈیٹر[
سرورق
حجاب اسلامی کے مسلسل نکھار کے لیے مبارکباد۔ سرورق گذشتہ کئی شماروں سے غیر معمولی طور پر معیاری اور جاذب نظر آرہا ہے۔ پروف/کمپوزنگ کی غلطیاں بہت کھٹکتی ہیں۔ کب ان پر قابو پائیں گے؟ ماہنامہ رسالہ میں تو ان پر زیادہ محنت کے بغیر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اندرونی صفحات پرتصاویر (لڑکیوں کی) کی روایت شروع ہوئی ہے۔ لیکن ذرا سنبھل سنبھل کے۔ فتنے، شروع میں اسی طرح بے ضرر اور معصومانہ راستوں سے نفوذ کیا کرتے ہیں۔
سرورق پر ایک بچی کی جو تصویر شائع ہوئی ہے وہ غالباً ’’بچوں کی نفسیاتی تربیت‘‘ موضوع کے پیش نظر شائع کی گئی ہے۔ الٹرا ماڈرن وضع اور انداز کے بجائے، سر پر اسکارف باندھے، شائستہ نظر آنے والی بچی کی تصویر ہوتی تو، رسالہ کے اسلامی نام اور اسلامی رواج سے سرورق کی مغائرت کو ٹالا جاسکتا تھا۔
یہ تاثرات مخلصانہ و خیرخواہانہ ہیں۔
محمد ز۔ع۔منصوری
]آپ کا خطہمارے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہے۔ کیونکہ سب سے بڑا محسن وہ ہے جو تنقید کرے اور خامیوں پر آگاہ کرے ہم آپ کے مشکور ہیں۔ ’’ہل جزاء الاحسان الا الاحسان‘‘ امید کہ آپ کے بے لاگ تبصرے ملتے رہیں گے۔ ایڈیٹر[
پُر مغز مضامین کی کثرت
حجاب اسلامی (جولائی) کا بھر پور مطالعہ کرنے کے بعد ہی قلم اٹھایا ہے۔ ماشاء اللہ مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ سرورق بھی اچھا ہے مگر تھوڑا ڈم سا ہے۔ اس بار حجاب میں کئی مضامین تعلیم پر تھے۔ سید سعادت حسینی صاحب نے بڑے بھر پور انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ ان کا پورا مضمون ہی جیسے دل میں اتر گیا۔ اور ایک تیکھی بات جو کہ میرے لیے، بلکہ میں سمجھتی ہوں ساری خواتین کے لیے، کڑوا سچ ہے کہ گذشتہ ایک صدی میں ہندوستان میں کوئی اسلام پسند خاتون علم و فن کے کسی شعبہ میں کوئی اجتہادی کارنامہ انجام نہیں دے سکی۔ اس کے علاوہ ’’فروغ علم کے لیے نبیؐ کی جدوجہد‘‘ بھی اچھا مضمون تھا۔ دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ اس دفعہ افسانے اور کہانیاں بھی اچھے تھے۔ ’’آپ کیا پڑھیں؟‘‘ کے موضوع پر مریم باجی کا مضمون بہت اہم تھا۔ خدا کرے ان کا یہ مضمون زیاد ہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور طلبہ و طالبات اپنے لیے اچھی کتابوں کا انتخاب کرنے اور مطالعہ کرنے کے لیے اپنے اوقات کو منظم کرنے کی طرف توجہ دیں ۔ عطیہ نیاز کا مضمون بھی پسند آیا کافی اچھا لکھتی ہیں۔ آج اسلام کو ایسی ہی فعال خواتین و طالبات کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی تربیت اور غذا سے متعلق مضامین ہمیشہ کی طرح مفید تھے۔
بہرحال پورا حجاب پسند آیا اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس بار پُر مغز مضامین کی کثرت تھی۔ اب جانے سے پہلے اتنی درخواست ہے کہ مجھے خاص نمبر سے متعلق معلومات فراہم کریں، میں اس کے لیے کچھ لکھنا چاہت ہوں، آپ نے دہلی میں ہی دینے کو کہا تھا غالباً آپ اپنی مصروفیتوں میں بھول گئے ہوں گے۔ لیکن اب براہِ کرم اس کے موضوع اور موضوع کے تحت مضامین سے مجھے ضرور مطلع کریں بڑی مہربانی ہوگی۔ خاص نمبر نکلنے کی مجھے اور سلمیٰ دونوں کو بے حد خوشی ہے۔
قانتہ ارم، رامپور
]قانتہ! تمہارے پاس منصوبہ ڈاک سے بھیج دیا گیا ہے اور اس میں موضوعات کو نشان زد بھی کردیا گیا ہے۔ ان موضوعات پر لکھنے کے لیے اگر کسی تعاون کی ضرورت ہو تو خط لکھو یا فون کرو۔ ایڈیٹر[
عریانیت کے خلاف جہاد
آپ کا موقر جریدہ انتہائی تابناکیوں کے ساتھ موصول ہوا۔ جیسا کہ ’’حجاب‘‘ نام ہی سے عریانیت کے خلاف ایک جہاد معلوم ہورہا ہے۔ یقینا اس کے مختلف النوع مضامین کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کو کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ ’سیرت صحابیہ‘ نامی کالم میں جو موصوع ہوتا ہے وہ بلاشبہ مسلم خواتین کی گھریلو زندگی، اخلاق و کردار، اہل خانہ سے سلوک شوہر کے حقوق وغیرہ کی نسبت سے انتہائی قابل تحسین ہے۔
نور اللہ خان، جامعہ ملیہ اسلامیہ
ہمارا میڈیا
حجاب اسلامی اگست ۲۰۰۵ء کا شمارہ ملا۔ بخدا شمارہ دن بدن بہتر ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ قارئین اسے اپنے حلقہ میں متعارف کراتے رہیں۔ اداریہ واقعی معقول ہے۔ کیا کیا جائے میڈیا والوں کا تو مزاج ہی بن گیاہے یہ باتوں کی تہہ تک نہ جاکر غلط انداز میں پھیلاتے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ واقعات کی تہہ تک جاکر حقیقتِ حال معلوم کریں۔
تذکیر، سیرت صحابیہ- حضرت ام رومانؓ، کہانیاں اور افسانے بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ کراٹے کا کارٹون مزاحیہ مضمون پسند آیا۔ گھریلو نسخے، بیوٹی ٹپس، صحت و غذا ، تبصرہ، مائدہ، گوشۂ نوبہار بھی رسالہ کے شایانِ شان ہیں۔
خاص طور پر بچوں کی تربیت کے نفسیاتی پہلو، اسلاف کی باتیں، سرورق کے تحت مختلف تحریکات میں خواتین کا حصہ بہت ہی پسند آیا۔ عزم و حوصلے سے بھرا، ’’میں کلکٹر بننا چاہتی ہوں‘‘ بھی خوب ہے۔ بزمِ حجاب کے حصہ میں ’’وقت قدرت کا ایک انمول عطیہ‘‘ ، ’’پردہ‘‘ قابل غور مضامین ہیں۔
قارئین حجاب سے گذارش ہے کہ ہم مشن کے طور پور (۱) قرآن (۲) سیرتِ رسولؐ و احادیثِ رسولؐ اور (۳) اسلامی لٹریچر کو سمجھ کر پڑھیں اور اپنے حلقہِ اثر میں دعوت کی مہم کو تیز کریں۔ پورے گھر کے لیے ’’حجاب‘‘ کو ضرورت بنائیں اور نئے خریدار بناکر اس پرچہ کو استحکام دیں۔
مستحق الزماں خاں، محی الدین نگر، بہار
پسندیدہ اشعار
یوں تو ہم حجاب کے دورِ اول کے قاری ہیں مگر درمیان میں ہم کچھ وقت تک مطالعہ نہ کرسکے مگر خدا کا شکر ہے پچھلے کئی ماہ سے حجاب کا مطالعہ کررہے ہیں۔
میں آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ پسندیدہ اشعار کالم جاری کریں بہت ہی اچھا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے آپ کے رسالہ کی اشاعت میں اضافہ ہوگا اور حجاب کو بھی چار چاند لگ جائیں گے اور یہ تمام نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا اچھا طریقہ ہوگا۔
محمد اختر قاسم صدیقی، دھامپور
ایک شکوہ
مجھے حجاب اسلامی کا خریدار بن کر ڈیڑھ سال ہوگیا۔ اس مدت میں میں نے تین مضامین روانہ کیے لیکن اپنی محنتوں، کاوشوں سے اور امیدوں اور ارمان کے ساتھ لکھے ہوئے مضامین سے ایک مضمون بھی حجاب کے اوراق پر نظر نہ آسکا۔ آخر کیوں؟
کیایہ میرا حق نہیں بنتا کہ میرے مضامین حجاب میں شامل ہوں۔ ’’دی دی کا خط‘‘ تحفۂ انمول اور میرا وہ درد بھرا مضمون جو مرحوم چچازاد کے غم میں لکھا گیا، اور وہ بھی ایسا غم کہ اس مضمون کی سیاہی میں میری رگوں کا خون بھی شامل ہے، ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملا اور میں ترس جاتی ہوں۔ حجاب اسلامی جسے خرید کر میں فیضاب ہوتی ہوں اور میرا مضمون اس کے اوراق پر چھپنے سے محروم ہے۔
میری ہم عمر ساتھیاں یوں کہہ کر طنز کرتی ہیں کہ یہ کیسا حجاب اسلامی رسالہ ہے کہ جتنے بھی مضامین تم لکھ کر بھیجتی ہو ان میں سے ایک بھی ہم نے حجاب میں نہیں دیکھا۔ حالانکہ تم اپنی گاڑھی محنت کے پیسوں سے لفافے خرید کر ارسال کرتی ہو۔ نفیس آئندہ سال تم حجاب کی خریدار مت بنو۔ اس سے اچھا ہے کہ تم کسی اور رسالہ سے دوستی کرلو۔ لیکن میرا دل گوارہ نہیں کرتا کہ جو محبت اس حجاب سے ہے اسے ترک کردوں۔
لہٰذا آپ سے ادباً گذارش ہے کہ آئندہ شماروں میں میرے مضامین شائع کرتے رہیے۔
نفسیہ فاطمہ طاہراتی، دھواڑہ
]عزیز بہن! آپ کے مضامین میں سے ایک یا دو تو حجاب میں شائع ہوئے ہیں۔ البتہ یہ تینوں مضامین ابھی بھی ہماری فائل میں ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ ان مضامین کو بعض مشوروں کے ساتھ واپس کیا جائے اور ترمیم اصلاح کے لیے خط لکھا جائے۔ لیکن آپ نے نہ لفافہ پر اور نہ ہی مضمون پر کوئی پتہ لکھا کہ ہم مراسلت کرتے۔ پہلی فرصت میں خط پر مکمل پتہ درج کیجیے۔ دوسری بات یہ کہ ہم آپ کی محنت اور لگن کی قدر کرتے ہیں، مگر کیا آپ اس بات کو پسند کریں گی حجاب میں ہر قسم کی تحریریں ہم یوں ہی شائع کردیا کریں۔ میرا خیال ہے نہیں! ہم آپ کے لیے ایک تفصیلی خط لکھ چکے تھے جو پتہ نہ ہونے کے سبب ارسال نہ کیا جاسکا۔ بس اتنا کہنا ہے کہ مایوس اور بد دل نہ ہوئیے! لکھتی رہیے کہ آپ کا اندازِ تحریر نکھر جائے اور ہر تحریر کسی بھی رسالہ میں شائع ہونے لگے۔ آپ کے مضامین شائع ہونگے۔ آپ اپنا پتہ بھیجئے۔ ایڈیٹر[
افسانہ ’’معصوم‘‘
میں بچپن ہی سے حجاب کاقاری ہوں، اگرچہ کہ اس وقت فصیح و بلیغ اور جامع تحریریں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ حسبِ معمول اس ماہ بھی حجاب (اسلامی) کا انتظار تھا۔ اگست ۲۰۰۵ء کا رسالہ ملتے ہی ورق گردانی شروع کردی۔ اچانک ایک عنوان پر میری نظر ٹھہر گئی۔ وہ مضمون احمد ندیم قاسمی کے قلم سے تحریر تھا عنوان (معصوم) کی جاذبیت اور کشش نے اسی وقت پڑھنے پر مجبور کردیا۔
درس و تدریس میرا پیشہ ہے۔ میں بچوں کو نہ صرف پڑھاتا ہوں بلکہ انھیں پڑھتا بھی ہوں۔ ساتھ ہی نفسیات میرا دلچسپ مضمون ہے۔ اپنے مطالعہ کا ایک بڑا حصہ میں اسی علم کے مطالعہ میں صرف کرتا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا مضمون پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میری علم نفسیات کا تمام تر مطالعہ ایک طرف اور ’’معصوم‘‘ افسانہ ایک طرف۔ انھوں نے بچوں کی نفسیات کے متعلق تمام تر علم کو اس افسانہ میں سمو دیا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ حجاب اسلامی ترقی کی راہوں پر گامزن رہے اور آئندہ کبھی بھی اس کی اشاعت کا سلسلہ منقطع نہ ہو۔ (آمین)
م ۔ع۔ر۔(آکولہ)