دادی ماں مان گئیں

قانتہ ارم

میں جب ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ تیوری چڑھائے تھکی تھکی سی نظر آرہی تھیں۔ لیکن میں اپنی عادت سے مجبور چپکے چپکے ان کے پیچھے گئی اور اچانک ’’ہو‘‘ کردیا۔ وہ اچھل پڑیں لیکن آج انھوں نے اپنی عادت کے مطابق مسکرا کر مجھے سینے سے نہیں لگایا بلکہ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔

’’کیا ہے…؟‘‘ انھوں نے عجیب سے لہجے میں کہا۔

میں تو بس حیرانی کے عالم میں کھڑی رہ گئی۔

’’اب یہ ہو ، ہو کرنا بند کر اچھی خاصی بڑی ہوچکی ہے اور مجھے بھی یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ادب تمیز … سب بھول گئی ہے ۔ بس دن رات کھلنڈراپن کرتی رہتی ہے۔‘‘ دادی بغیر رکے بولتی ہی چلی گئیں۔

اتنا کچھ سننا وہ بھی دادی کے منھ سے … مجھ سے رہا نہ گیا ان کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر بھاگ کر ان سے لپٹ گئی ۔ ’’دادی بس اب مت ڈانٹئے ویسے بھی آپ ڈانٹتے ڈانٹتے تھک گئیں۔ اس لیے کہ آپ کو ڈانٹنے کی عادت نہیں اور … اور میں تو بس مذاق کررہی تھی۔‘‘

میں نے سوچا تھا لپٹ کر تھوڑی سی باتیں کروں گی تو مان ہی جائیں گی لیکن یہاں میرا اندازہ ہمیشہ کی طرح صحیح نہ نکلا وہ کہہ رہی تھیں:

’’چل ہٹ پرے … اب تو بھی مجھے کچھ نہیں سمجھتی۔‘‘ وہ خفا خفا سی مجھے ہٹانے لگیں اور ان کا اتنا کہنا تھا کہ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’کیا …؟ میں کچھ نہیں سمجھتی…؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے آپ ہی تو میرا سب کچھ ہیں … میں تو یوں ہی آپ سے مذاق کرتی ہوں۔‘‘ میں دوبارہ ان کے گلے میں جھول گئی۔

’’نہ۔ رہنے دے… مت کیا کر مجھ سے مذاق۔‘‘ وہ مسلسل خفا تھیں اور میں حیران و پریشان ہوئے جارہی تھی کہ دادی ماں جو مجھ پر بلکہ مجھ پر ہی کیا سب پر انتہائی شفیق ہیں صرف میرے ’’ہو‘‘ کرکے ڈرانے پر اتنا خفا ہوئی ہیں، ہو نہ ہو کوئی غیر معمولی بات ضرور ہے۔

’’دادی ماں ہوا کیا آخر…؟ جب سے میں آئی ہوں آپ مجھ پر غصہ کیے جارہی ہیں؟‘‘ میں نے روہانسی آواز میں کہا۔

’’کچھ نہیں … بس میرا تجھ سے مذاق کا رشتہ تو نہیں ہے تو بھی مت آیا کر میرے کمرے میں…۔‘‘

’’آں؟؟ ‘‘ میرا منھ کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

’’ک … ک کیا ہوا دادی ماں…‘‘ میں ان کے نزدیک آگئی اور اکڑوں ہوکر ان کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گئی آنسوؤں سے بھری آنکھیں مسلسل ان کے جھرّیوں دار غمگین چہرے پر تھیں میں کافی دیر آنکھ میں آنسو لیے ان کی طرف دیکھتی رہی۔ مجھے یقین تھاکہ بس ابھی دادی میری طرف دیکھیں گی اور پیار سے میرا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے لیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دادی ماں مسلسل اپنا رخ موڑے بیٹھی رہیں اور یہ سب میرے لیے برداشت سے باہر تھا۔ پھر کیا تھا میں نے بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا(لیکن مجھے یاد نہیں کہ مجھے کبھی دادی کو منانے کے لیے اس انتہا تک پہنچنا پڑا ہو) پھر وہی ہوا جس کا مجھے سو فیصدی یقین تھا۔ رونا ہی اس وقت دادی کے غصے کا بہترین علاج تھا وہ ایسی پگھلیں جیسے موم ہوں اور میرے سر پر شفقت و محبت سے بھرا ہاتھ رکھ دیا۔

’’ناں بچی ناں… مت رو … مجھ بڑھیا کے لیے کیوں ہلکان ہوتی ہے… ‘‘ وہ میرے بالوں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ میں نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔

’’دادی پلیز ایسی باتیں مت کیا کیجیے۔ بڑھیا وڑھیا کیوں کہتی ہیں؟ آپ ہماری دادی ہیں صرف دادی۔‘‘ میں نے کہہ کر دوبارہ ان کے گھٹنوں میں سر رکھ دیا۔

’’اب مجھے اطمینان ہوگیا کہ کوئی تو ہے جو میرے لیے بھی روسکتا ہے۔‘‘

’’کوئی کیا مطلب…؟‘‘ میں دوبارہ حیران آنکھوں کے ساتھ سراٹھا چکی تھی لیکن انھوں نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا بس ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہیں۔

’’کوئی نہیں دادی … سب … سب آپ کو اتنا ہی چاہتے ہیں جتنا میں آپ کو چاہتی ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور امی … امی کے لیے تو آپ سب سے بڑھ کر ہیں وہ تو آپ ہی کو اپنی ماں اور باپ دونوں کہتی ہیں۔‘‘

’’ہنھ… ‘‘دادی کے منھ پر زہریلی مسکراہٹ تھی۔ میں مزید حیران ہوگئی دادی کی باتیں میری سمجھ سے بالکل باہر تھیں۔

’’اگر میں اس کی ماں اور باپ دونوں سے بڑھ کر ہوں تو اس کے نزدیک ماں کی یہی اہمیت ہے کہ وہ اس کا حال احوال بھی نہ پوچھے۔ اس کے کمرے میں تین تین دن تک نہ جھانکے۔‘‘

’’اوہ … تو یہ بات ہے۔‘‘ میں بات کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔

’’ہاں… اور اسے میرے پیچھے لگادیا ہے …… ارے کیا نام ہے اس کا …؟‘‘

’’شنّو…‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے انہیں یاد دلایا (شنو دراصل ہمارے یہاں کام کرنے والی ایک لڑکی کا نام ہے) ’’ہاں شنّو … ونّو…ہوگاکچھ …‘‘

’’ارے میں کہتی ہوں اگر میرے کام کرنے کا دل نہیں چاہتا تو اس کرم جلی کو کیوں لگادیا ہے میرے پیچھے… ایسی اپاہج تو نہیں ہوگئی ہوں میں…‘‘ دادی اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہی تھیں۔ پھر بیٹھ کر زور سے سانس لینے لگیں۔ لیکن میرا دل ان کی باتیں اور خاص کر امی سے ان کی بدگمانی سن کر بری طرح دکھ رہا تھا مجھ سے خاموش نہیں رہا گیا۔

’’دادی اب آپ میری سنئے آج کل ہر شخص دوسرے شخص سے شاکی نظر آتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتا ہے میں بھی اپنی ذمہ داری کو پورا کررہا ہوں یا نہیں۔‘‘

دادی ماں کچھ کہنے کے لیے منھ کھول ہی رہی تھیں کہ میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔

’’ابھی آپ میری سنئے دادی ماں پھر کچھ کہئے گا۔‘‘

’’امی اگر آپ کے کمرے میں نہیں آئیں تو آپ بھی تو باہر آکر یہ پوچھنے نہیں آئیں کہ دلہن کیا بات ہے … بھئی کدھر ہو آج تو نظر ہی نہیں آئیں۔ اگر آپ باہر نکل پوچھنے جاتیں تو شاید آپ کو معلوم ہو ہی جاتا کہ امی تین دن سے ہاسپٹل میں ہیں۔‘‘

’’ک …ک… کیا ہوگیا اسے … یا اللہ خیر‘‘ انھوں نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے کہا اور دل پکڑ کر تخت پر بیٹھ گئیں۔ میں دوڑ کر پانی لائی۔

’’لیجیے… ‘‘ میں نے انہیں پانی دیتے ہوئے کہا۔

’’اسی لیے نہیں بتایا گیا تھا آپ کو کہ آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا۔‘‘

’’ارے بھاڑ میں جائے ہائی بلڈ پریشر … بتادیا ہوتا تو کم از کم اپنی بچی کے لیے دعا تو مانگ لیتی۔‘‘ انھوں نے زور زور سے سانس لیتے ہوئے کہا تو میں انتہائی مصیبت کے وقت میں بھی مسکرادی ان کی بی پی کی دوا اور پانی لے آئی۔

’’لیجیے دوا کھائیے…‘‘ میں نے ایک بار پھر پانی کا گلاس ان کے ہاتھ میں تھمادیا۔ اس عرصے میں شاید دادی کی زبان کانپنے کی وجہ سے ساتھ نہیں دے رہی تھی ورنہ اب تک جانے کیا کیا پوچھ چکی ہوتیں۔ لیکن مجھے ان کی دلی کیفیت کا پورا پورا اندازہ تھا اس لیے میں نے خود ہی بتایا۔ ’’دراصل بہت شدید گرمی اور تپش کی وجہ سے انہیں لو لگ گئی۔‘‘

’’یا اللہ … کتنا منع کرتی ہوں میں اسے لیکن مانتی ہی نہیں۔ کمرے سے اٹھ کر اک دم چلچلاتی ہوئی دھوپ میں نکل آئی۔‘‘

امی کے بارے میں دادی اماں کی پیاربھری سرزنش مجھے بے حد اچھی لگ رہی تھی۔

’’کیوں دادی اماں ابھی تو آپ…‘‘ میں نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’بس بس رہنے دے… جب مجھے کوئی بتائے گا نہیں تو … اور میرا بھی دل تو ہے کہ میرے بچے مجھ سے محبت کریں میرا خیال رکھیں… اور لے دے کے ایک تیری ماں ہی تو ہے جو مجھ سے محبت رکھتی ہے میرا ایسے خیال رکھتی ہے کہ شاید کوئی بیٹی بھی کیا اپنی ماں کا رکھے گی۔ اس نے مجھے کبھی ساس سمجھا ہی کہاں اور مجھے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ میری بہو ہے۔‘‘ دادی جذبات کی رو میں بولتی ہی چلی گئیں ’’لیکن … لیکن دادی ماں امی تو تین تین دن تک آپ کے کمرے میں نہیں جھانکتیں…‘‘

’’ارے ناں، رہنے دے مت چوٹ کر… میری بچی کی طبیعت خراب تھی ورنہ تو وہ دن میں پچاس چکر میرے کمرے کے لگاتی ہے اور میرا خود خیال رکھتی ہے۔‘‘ کہتے کہتے دادی ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے وہ کہہ رہی تھیں۔

’’اس نے اپنی ایسی عادت ڈالوادی ہے کہ اس کا مجھے ذرا بھی نظر انداز کرنا برداشت نہیں ہوتا ہے۔ ارے وہ تو میں ہی ہوں جو تین دن برداشت کرتی رہی اور منہ ہی منہ غصہ کرتی رہی اور اگر آج بھی غصہ نہ دکھاتی تو معلوم نہیں ہوتا کہ میری بچی کو لو لگ گئی ہے…‘‘

’’ابھی ابھی جاؤں گی اسپتال اپنی بچی کو دیکھنے۔‘‘ وہ کہتے ہوئے الماری کی طرف بڑھیں شاید وہ برقعہ نکالنے جارہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ دادی کا دل کتنا نازک ہے اور کتنی معصوم ہیں دادی بالکل کسی بچے کی طرح۔ کتنی جلدی ناراض ہوجاتی ہیں بلکہ بدظن بھی۔ اور کتنی جلدی مان جاتیں ہیں۔ ان کا دل محبت اور شفقت کے جذبات سے کتنا معمور ہے اور پیار کے کیسے انوکھے جذبات یہ رکھتیں ہیں۔ آہ! کاش میں ان کی ناراضگی کو کبھی ناراضگی نہ سمجھوں بلکہ ان کی ناراضگی میں چھپی شفقت کی مٹھاس کو محسوس کروں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں