دو سال پہلے بھی ایسا ہی ایک ریزرویشن بل حکومت نے پیش کیا تھا۔ اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ اس بل پر سبھی جماعتیں متفق ہو گئی ہیں لیکن وہ در اصل مصنوعی قسم کا اتفاق تھا۔جو لوگ اس بل کے حامی تھے ان کے لیے یہ ایک اچھا آئیڈیا تھا لیکن دوسرے لوگ جو اس سے متفق تھے انکا کہنا تھا کہ بل کی مخالفت کرنے والوں کو عورت کا مخالف قرار دینے سے گریز کیا جائے۔میں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ بل اس لائق نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی بات کی جائے یا اسے منظوری کے لئیے آگے بڑھا یا جائے۔
اب تک کے سبھی وزرائے اعظم یہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ وہ اس خواتین کے لیے ریزرویشن کے حامی ہیں ۔حالانکہ انہیں یہ بھی اعتراف تھا کہ یہ بل پارلیمنٹ میں پاس نہیں ہوسکے گا۔اس بل کے بہت سے حامی کہتے ہیں کہ بل کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو جہیز اور ستی جیسی رسموں کی حمایت کرتے ہیں۔انہیں خوف ہے کہ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو اس سے انکے سیاسی اثر و رسوخ پر گہن لگ سکتا ہے۔بل کی مخالفت کرنے والے سیاسی گروپوں کی اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔وہیں خواتین گروپوں کا الزام ہے کہ جو لوگ ہندوستانی عورت کو سبوتاژ کر رہے ہیں وہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کیا بل کے حمایتی یہ سمجھتے ہیں کہ محض پارلیمنٹ میں تبدیلی لانے سے عورت کی صورتحال بدلی جا سکتی ہے۔اس وقت اخبارات اور ٹیلی ویژن میڈیا میں خواتین تنظیموں کی دلیلوں کو ایک تسلیم شدہ سچائی کے طو رپر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت کی دنیا اس سے کہیں مختلف ہے۔ اب اس بل کو دوبارہ اگلے سیشن کے لئیے ملتوی کردیا گیا ہے۔تاکہ لوگ اس بل کا نئے سرے سے جائزہ لیں۔ میں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں خواتین کا مخالف ہوں بلکہ اس لیے کہ میں کسی طرح کے ریزرویشن کے حق میں نہیں ہوں۔
اب ایک نظر خواتین تنظیموں کی دلیلوں پر ڈالی جائے۔انکا کہنا ہے کہ ہندوستانی عورت سماج میں ایک عرصے سے ہر طرح کے فوائد سے محروم طبقہ ہے۔اس کی بد قسمتی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک اسے پارلیمنٹ میں واضح نمائندگی نہ دے دی جائے۔پارلیمنٹ میں عورتوں کو کبھی بھی مناسب نمائندگی نہیں ملی اس کی وجہ یہ کہ ہندوستانی سیاست پر مرد وں کا غلبہ رہا ہے۔انہوں نے عورتوں کو لوک سبھا میں آنے ہی نہیں دیا۔اس لئیے عورتوں کو ایک تہائی ریزرویشن دیا جانا ضروری ہے ۔تبھی جا کر ہندوستانی عورتوں کے حالات بدل سکتے ہیں۔اس دلیل میں گویا یہ مانا جا رہا ہے کہ ہندوستانی عورت’’ دلت ‘‘ہے اور مرد’’ اونچی ذات ‘‘کے لوگ ہیں۔جب دلتوں کو ریزرویشن دیا جاسکتا ہے تو عورتوں کو کیوں نہیں ۔
یہ تو رہی خواتین تنظیموں کی دلیل۔ لیکن اسکے علاوہ دوسرے مسائل بھی تو ہیں۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ درج فہرست ذات کے لوگوں کو پہلے ہی بہت زیادہ ریزرویشن دیا جا چکا ہے ۔اس ریزرویشن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ جاری رہے گا۔اسکے پیچھے مقصد یہ ہیکہ سماج کا ہر طبقہ ریزرویشن کے فوائد سے مستفید ہو۔لیکن کیا یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ نہیں! دلتوں میں صرف ایک بالائی حصہ Creamy Layerہے جو اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔دلتوں کی اکثریت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے وہ ریزرویشن سے پہلے تھی۔مان لیں یہ کہ تنقید درست نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ریزرویشن سے دلتوں کو فائدہ ہوا ہو۔ تب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔1990 میں وی پی سنگھ نے کہا تھا کہ سماج میں درج فہرست اقوام کے علاوہ بھی بہت سی اقوام ہیں جن کے حالات درج فہرست اقوام سے بھی بد تر ہیں۔تو کیا انہیں ریزرویشن سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد وی پی سنگھ سے منڈل کمیشن کی غلطی ہوئی جسکے بعد پورے ملک میں ایک ہنگامے کی کیفیت پیدہ ہو گئی تھی۔ جو لوگ بھی پسماندہ اقوام سے تعلق نہیں رکھتے تھے انہوں نے کہا کہ وی پی سنگھ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔اس لیے مزید ریزرویشن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
دلچسپ بات تو یہ کہ اس وقت جو لوگ ریزویشن کی مخالفت کر رہے تھے اب خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں خاص کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔آپ خواتین کے لیے ریزرویشن بل کی مخالفت یا حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔بعض خواتین سے میں نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ بل کی مخالف نہیں بلکہ اس بات کی مخالف ہیں کہ ریزرویشن صرف پسماندہ ذاتوں کی خواتین کو دیا جائے۔کیونکہ جن لوگوں کو منڈل کمیشن سے فائدہ ملا وہ پہلے سے ہی بہتر اور مستحکم حالت میں تھے۔مثلاً’’ یادو‘‘ برادری کے لوگ۔ اسی لئیے منڈل کی مخالفت کی گئی تھی۔
چلیے اس تشریح کو بھی تسلیم کر لیں ۔اس تشریح کے مطابق ایک نیا مسئلہ پیدہ ہوگا۔ اسی اصول کے مطابق ملک کا ایک طبقہ ایسا ہے جنکے حالات ہندوستانی خواتین سے بھی زیادہ بد تر ہیں۔ یعنی مسلمانوں کے حالات۔ہندوستانی مسلمان غربت‘تعلیمی پسماندگی اور بدترین قسم کے امتیاز کا شکار ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہت ہی معمولی تعداد میں مسلمانوں کو سرکاری نوکریاں حاصل ہیں۔ ملک کی اولین پانچ سو صنعتی یونٹوں میں ایک بھی مسلمان کی نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی فی کس آمدنی ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ حالانکہ انکی آبادی 12سے15فیصد ہے۔آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی بہت معمولی ہے۔جو لوگ سماج کے محروم طبقات کے لیے ریزرویشن کی وکالت کر رہے ہیں وہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں۔لیکن اس پر خواتین تنظیمیں ایک نرالی تشریح کرتی ہیں۔’’ہم مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ جنس کی بنیاد پر کر رہے ہیں‘‘۔قانون منطق خواتین تنظیموں کے غصے کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔میں یہ نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کے لیے بھی پارلمنٹ میں ریزرویشن کر دیا جائے۔ ہمیں انکی مشکلات پر ہمدردی ہے۔ لیکن اسکا یہ علاج نہیں ہے کہ انہیں ریزرویشن دیا جائے۔
بنیادی طور پر ریزرویشن کے لیے تین دلیلیں دی جاتی ہیں لیکن یہ دلیلیں بالکل نامعقول قسم کی ہیں۔سب سے پہلا مفروضہ یہ ہیکہ کسی خاص طبقے کا ممبر ہی اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لئیے بہتر طور پر کام کر سکتا ہے۔ودسرا مفروضہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو بہر حال رائے دہندگان کے نمونہ گروپ کے طور پر کام کرنا چاہئیے یا پارلیمنٹ بہر حال مخلوط معاشرے کا عکس ہو۔تیسرا مفروضہ یہ ہیکہ جمہوریت اس طرح سے کام کرتی ہے اور نہ عوام اس طرح سے ووٹ دیتے ہیں جیسے انہیں دینا چاہئیے۔
ریزرویشن کے لیے سب سے پہلا مفروضہ پوری طرح غلط ہے۔خواتین کے لیے ریزرویشن کے حامیوں کا ماننا ہے کہ خواتین کی صورتحال میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو مناسب تعداد میں پارلیمنٹ میں بھیجا جائے۔یہ بالکل نامعقول بات ہے۔ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ میں عورتیں ہر میدان میں بہت آگے ہیں ۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں انکا تناسب ہندوستانی پارلیمنٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ہندوستان کی سیاست میں عورتیں ایک طویل عرصے سے غالب ہیں۔لیکن یہ آج تک واضح نہیں ہوا کہ خواتین کو اندرا گاندھی سے زیادہ فائدہ ہوا یا جواہر لال نہرو سے ہوا۔یا طاقتور سیاسی خواتین مثلاً جئے للتا وغیرہ نے عورتوں کی بہتری کے لیے کتنا کام کیا ہے؟
اسکے بعد دوسرے مفروضے پر آتے ہیں۔جمہوری نمائندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی مسلمان کو فائدہ پہونچا سکتا ہے۔جمہوری نظام کے مطابق نمائندہ اپنے حلقہ انتخاب کے تمام لوگو ںکے لیے یکساں طور پر کام کرے گا۔خواہ رائے دہندگان ہندو ہو ںیا مسلمان‘غریب ہو ںیا امیر۔لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کے لیے بھی کام نہیں کرتا۔کبھی کبھی کوئی نمائندہ اپنے حمایتی گروپ کے لیے کچھ کام کرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک ’’یادو‘‘ اپنے حلقہ انتخاب کے یادہ کے لیے کچھ کام کرے۔اور کرمی پنڈت وغیرہ کے لئیے نہ کرے۔لیکن اگر یہ ایسے ہی ہوتا رہے تو یہ جمہوریت کی ناکامی ہے۔
خواتین تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ اس ناکامی کو ایک باقاعدہ قانونی شکل دے دی جائے۔ذرا تصور کیجیے کہ اوپر کی مثال میں ’’یادو ‘‘کی جگہ ایک عورت ہو اور وہ صرف اپنے لوگوں کے لیے کام کرے۔کیا ہم اس مفروضے کو برداشت کر سکتے ہیں کہ یادو ممبر پارلیمنٹ پہلے اپنے حلقے کے یادو کے لیے کام کرے اسکے بعد دوسرے رائے دہندگان کے لیے؟تیسرے مفروضے کے ساتھ مسئلہ واضح ہے۔ اکثر ریزرویشن اس لیے دیا جاتا ہے کہ بعض طبقے اس طرح منتشر ہوتے ہیں کہ انفرادی حلقہ انتخاب میں انہیں کبھی نمائندگی مل ہی نہیں سکتی۔لیکن خواتین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔وہ تو معاشرے میں نصف تعداد میں ہے۔انہیں ریزرویشن کی کیا ضرورت ہے۔وہ کیوں نہ ووٹ استعمال کرکے اپنا نمائندہ کسی عورت کو بنا لیں۔
ریزرویشن کی حامی خواتین کہتی ہیں کہ عورتوں کے لئے کسی عورت کو نمائندہ بنانے کا متبادل اکثر ہوتا ہی نہیں کیونکہ سیاسی پارٹیاں بہت کم ہی عورتوں کو اپنا نمائندہ بناتی ہیں۔اگر بات یہ ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے انتخابی نظام کو بدل کر رکھ دیا جائے۔جب اکثر سیاسی تنظیمیں خواتین کے لیے ریزرویشن کی حمایت کر رہی ہیں تو خواتین تنظیمیں ان پر دباؤ بنائیں کہ وہ ایک متعین تعداد میں خواتین کو امید وار بنائیں۔لیکن خواتین تنظیمیں یہ نہیں کرتی کیونکہ سیاسی جماعتیں انکے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دیتیں۔ اسکا صاف مطلب یہ ہیکہ کوئی بھی سیاسی جماعت خواتین کو ریزرویشن دینے کے لیے ایماندار نہیں ہے۔اگر سیاسی جماعتیں عورتوں کو ریزرویشن دینے کے لیے واقعی سنجیدہ ہوتیں تو پارلیمنٹ میں بغیر کسی ریزرویشن کے بڑی تعداد میں خواتین پہونچ جاتیں۔
ترجمہ: ادارہ