اللہ تعالیٰ قرآن پاک کی سورۃ الحج میں ’’قربانی‘‘ کے متعلق فرماتا ہے: ’’اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ تقویٰ کے معنی ہیں اللہ کا خوف، گناہوں سے پرہیز، پاکیزگی اور پرہیزگاری۔تقویٰ سے متصف اہل ایمان کو متقی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے سورئہ البقرہ میں متقین کی پہچان کروائی گئی ہے کہ ’’وہ غیب پر ایمان لاتے، نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جو آپ (رسول ﷺ) پرنازل ہوا اور جو نازل کیا گیا آپؐ سے پہلے، اس پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
لہٰذا قربانی کرنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نماز پر قائم ہیں، اگر ہم آخرت پر، تمام رسولوں اور ان پر نازل ہونے والی ہدایت پر یقین کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں اور رزق حرام سے دور رہتے ہیں، تو ہماری ’’قربانی‘‘ قبول ہوگی۔
ایک بار پھر سورۃ البقرہ میں متقی کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا گیا کہ صرف مشرق یا مغرب کی طرف ہی رخ کرنا نیکی نہیں ہے بلکہ اللہ، روزِ آخرت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور رسولوں پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنا مال رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد پر خرچ کرنے اور نماز پر قائم رہنے، زکوٰۃ کی ادائیگی، وعدہ(عہد) پورا کرنے، آزمائش اور تکالیف میں ثابت قدم رہنے والے سچے لوگ ہی متقی ہیں۔ لہٰذا اگر یہ خصوصیات ہیں تو ہماری ’’قربانی‘‘ حقیقی معنی میں قبول ہوگی۔ سورۃالمائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر تم متقی ہو اور اللہ سے ڈرتے ہو تو جو حلال، طیب روزی اللہ نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ‘‘ گویا حلال، طیب رزق قربانی کی قبولیت کے لیے شرط ہے۔ پوشاک (لباس) کے متعلق ’’تقویٰ‘‘ کی وضاحت سورۃ الاعراف میں اس طرح کی گئی ہے کہ ’’اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور تمہارے جسم کو پرہیزگاری کا لباس زینت دیتا ہے۔ وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔‘‘ اسی سورت میں بتایا گیا ہے کہ ’’ شیطان نے لباس اتراودئے تاکہ ان کے ستر ظاہر کردے۔ بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں چھپ کر دیکھتا ہے۔‘‘
ستر پوشی و لباس کے متعلق سورئہ النور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیب و زینت کے مقامات و جسمانی خدوخال) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں۔‘‘
سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے کہ ’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار زیب و زینت کرتی تھیں، اس طرح زینت نہ دکھاؤ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کردے اور تمہیں بالکل صاف کردے۔‘‘ لہٰذا اگر ہم پرہیز گاری کے لباس پر قائم رہتے ہیں اور سب کو بے حیائی و بے شرمی کی باتوں سے منع کرتے ہیں تو ہماری قربانی قبول ہوگی۔
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ والوں کو حکم دیا کہ ’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری (تقویٰ) کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔ ‘‘ لہٰذا اگر ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہوئے سچی گواہی دیتے ہیں اور انصاف کا دامن نہیں چھوڑتے تو ہماری قربانی قبول ہوگی۔
اسی طرح سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاروں کا تعارف اس طرح کروایا ہے کہ ’’اور (جو) جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔ (بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے۔ ان کی طرف دھیان نہیں کرتے) اور جب کہ ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)‘‘ لہٰذا اگر ہم جھوٹی گواہی اور بیہودہ چیزوں سے گریز کرنے کے ساتھ ساتھ پروردگار کی ہدایات کو اندھے اور بہروں کی طرح نظر انداز نہیں کرتے اور ان کے معنی اور مقصد پر غور کرتے ہیں تو ہماری قربانی قبول ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القصص میں پرہیزگاروں (متقین) کے لیے فرمایا ہے کہ ’’وہ (جو) آخرت کا گھر ہے، ہم نے اسے ان لوگوں کے لیے (تیار) کررکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور انجام نیک تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔‘‘ لہٰذا اگر ہم ملک میں ظلم اور فساد نہیں کرتے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں تو ہم متقین میں سے ہیں۔ تقویٰ ہی قرآن کریم کے مطابق قربانی کی حقیقی روح ہے۔ علاوہ ازیں (اہل تقویٰ) پرہیزگاروں کی پہچان کے لیے ہمیں سورۃ الاحزاب، سورئہ محمد، سورۃ الفتح، سورۃ الحجرات، سورۃ المجادلہ، سورۃ المدثر سے بھی رہنمائی حاصل کرنی ہوگی، تاکہ ہم اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ آیا ہم متقی (پرہیزگار) ہونے کا تقاضا پورا کرتے ہیں؟ اور کیا ہماری قربانی قبول ہوسکے گی؟ لہٰذا ضروری ہے ہم سب تقویٰ اور قربانی کی قبولیت پر غور کریں۔