مہر کی رقم ملتی نہیں۔ مائکے کے جائیداد میں بھی حصہ نہیں ملتا۔ دونوں اسلامی اعتبار سے عورت کا حق ہے۔ ایک شوہر کے ذمہ ہے تو دوسرا باپ اوربھائیوں پر۔ لیکن اس مذہبی ذمہ داری کو تو کوئی پورا نہیں کررہا ۔ ہاں اب لڑکی کو شادی کے لیے ضرور پیسہ دینا پڑ رہا ہے۔ اور نہ دینے یا کم دینے پر نہ صرف ظلم برداشت کرنا پڑرہا ہے بلکہ اپنی جان بھی دینی پڑرہی ہے۔ طلاق ویسے بھی ایک آسان ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اب جہیز نے اس ہتھیار کو اور دھار دار بنادیا ہے۔ ایک وقت میں جہیز جیسی برائیوں سے بچے رہنے والے لکھنؤ کے مسلمانوں میں یہ مرض بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر اعداد و شمار سے حساب لگایا جائے تو ہر تیسرا معاملہ مسلمان گھروں کانکل رہا ہے۔
ملیح آباد کی انیس سالہ ثنا کا نکاح قریب کے ایک کھاتے پیتے گھر میں ہوا تھا۔ شادی کے بعد سسرال والوں نے جہیز کا مطالبہ شروع کردیا۔ مطالبہ آہستہ آہستہ تشدد میں بدل گیا۔ بعدمیں لڑکی کو مائیکے جانے سے روک دیا گیا۔ شوہر پچاس ہزار روپے اور مکان میں آدھا حصہ چاہتا تھا۔ اس درمیان ایک دن پٹائی سے لہو لہان ثنا کسی طرح بھاگ کر قریبی تھانے پہنچ گئی اور رپورٹ لکھائی۔ لیکن پولیس شروعاتی کارروائی کے بعد سسرال والوں کی طرف ہوگئی۔ کارروائی جارہی ہے اور شوہر دوسری شادی کرکے آرام سے ہے۔
ناہید کے ساتھ اور بھی برا ہوا پچھلے سال ۲۷؍جولائی کوناہید کو اس کے سسرال والوں نے جہیز کے لیے جلا کر مارنے کی کوشش کی۔ اسی دن عالم باغ تھانے میں اس کی رپورٹ درج کی گئی لیکن پولیس کی سستی کی وجہ سے سسرال والے بچ نکلے۔ آخرکار۶؍اگست کو ناہید کاصدر اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ یہ لکھنؤ میں مسلمانوں کے درمیان جہیز کی پھیلی لعنت کی صرف ایک مثال ہے۔ مسلمانوں میں جہیز کے اس رواج پر مولانا خالد رشید نظام الدین فرماتے ہیں کہ ہر آدمی روپے پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ شان و شوکت دکھانے کا رجحان بڑھا ہے اور لالچی لوگوں کی تعداد بھی۔ لیکن اس کا اس رسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کے لیے اصلاح معاشرہ کا راستہ تجویز کیا ہے۔ شائد جماعت اسلامی ہند نے بھی اپنے پروگرام میں اصلاح معاشرہ کی کافی باتیں کی ہیں۔ لیکن اس پر عمل در آمد کرانے میں ان کی کامیابی کہیں نظر نہیں آتی۔ شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد تو کہتے ہیں علماء ایسے لوگوں کا نکاح پڑھانے سے ہی انکار کردیں۔
کیا احتیاط کریں
٭ بار بار جہیز مانگنے والے، کھل کر بات نہ کرنے والے سمدھیانے سے بچیں۔
٭ اگر شادی سے پہلے لڑکی کے سسرال والے والدین، بھائی، بہن، رشتے میں مداخلت کریں تو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔
٭ اگر لڑکی نوکری کرتی ہے تو شادی کے فوراً بعد دباؤ میں آکر نوکری نہیں چھوڑنی چاہیے۔
٭ سب سے اہم یہ ہے کہ اگر لڑکے والے لڑکی کو مائیکے آنے سے روکیں، نہ کسی کو گھر آنے دیں، فون اور خط پر اپنے گھر سے رابطہ نہ کرنے دیں تو ہوشیار ہوجائیں کہ بیٹی کی جان خطرے میں ہے۔ معاملے میں مداخلت کریں۔ ضرورت پڑے تو پولیس کی مدد لیں۔ اور بیٹی کو گھر لائیں۔
کیا ہونا چاہیے
٭ جہیز اور تشدد سے متعلق قوانین سخت کردئے جائیں اور ان کی کمیوں کو دور کیا جائے۔
٭ جہیز لینے والے اور جہیز کے لیے تشدد کرنے والوں کا مکمل معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔
٭ شادی میں فضول خرچی اور شان و شوکت دکھانے والوں کی عوامی اور علانیہ مخالفت کی جائے۔
٭ مختلف برادریوں کے مابین رشتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
٭ لڑکی اور لڑکے کی مرضی کی بہر حال رعایت رکھی جائے۔
٭ بغیر جہیز کی شادیوں کی عوامی سطح پر حوصلہ افزائی کریں۔
٭ شادی میں لڑکی کے مائیکے سے لڑکی کو وراثت کا پورا پورا حصہ دیا جائے۔
٭ اسی طرح لڑکے کو دولت میں لڑکی کا حق ملے۔
٭ مہر اور نفقہ کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔