آج جس تحریک نسواں کو ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا حصہ مہاراشٹر میں واقع ایک حادثے کے خلاف پورے ملک میں ایک ساتھ پیدا ہوئے عورتوں کے غصے کا نتیجہ ہے۔
مہاراشٹر کے تھانے ضلع کے توربے تھانے میں ایک وحشی آدمی نے تھانے میں تعینات کئی سپاہیوں کے ساتھ ایک نابالغ لڑکی متھورا کی عصمت داغ داغ کی۔ لڑکی کی عمر صرف بارہ سال تھی، اور ان سپاہیوں کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ تک پہنچا لیکن وہ بری کردئے گئے۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ سپریم کورٹ کے ججوں کا ماننا تھا کہ متھورا کے جسم پر ان سپاہیوں کے کیے ظلموں کے کوئی بھی نشانات نہیں تھے۔ اور اس نے کوئی شور شرابہ بھی نہیں کیا۔ اس لیے انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سپاہیوں نے جو کچھ بھی ظلم اس پر کیے تھے وہ انھوں نے متھورا کی مرضی سے ہی کیے ہوں گے۔ یہ فیصلہ ۱۹۷۶ء میں سنایا گیا۔ اور اسی دوران ایمرجنسی کا بھی خاتمہ ہوا تھا۔لوگوںمیں بڑا جوش و خروش تھا، عوامی آزادی کی امید بھی تمام طبقوں میں خاص طور سے عورتوں کو زیادہ تھی۔
ایسے حالات میں اس فیصلہ نے آگ میں گھی کا کام کیا۔ اور سب سے پہلے ممبئی اور پھر ملک کے تمام شہروں، قصبوں میں عظیم احتجاجات ہونے شروع ہوئے۔ سپریم کورٹ سے بھی اس بات کی درخواست کی گئی کہ وہ اپنے فیصلے پر پھر سے غوروفکر کرے اور انھوں نے ایسا کرنا تسلیم کرلیا۔ سپریم کورٹ کے تمام افسران نے پھر سے مقدمہ سنا لیکن فیصلہ وہی کیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ عصمت دری کے قانونوں کی سزاؤں کی وجہ سے کوئی دوسرا فیصلہ ممکن ہی نہیں تھا۔
تو پھر قانون کو بدلنے کی لڑائی شروع ہوئی اس وقت پارلیمنٹ میں تحریک نسواں کے ’’شوشیلا گوپالن اور احلیہ رانگنیکر‘‘ جیسے قابل لیڈر موجود تھے۔ اور ان کی پہل پر جنسی تشدد کے قانون میں اصلاح کے لیے اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس نے ملک کے اندر گھوم کر تمام لوگوں کے احوال اور ان کے خیالات معلوم کیے اور ان ہی کے مشوروں کی بنیاد پر جنسی تشدد کے قانون میں اہم اصلاح کی گئی۔
پچھلے کئی سالوں کا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ اصلاح بھی کافی نہیں ہے آج بھی جنسی تشددکے قانونوں میں اتنی خامیاں ہیں کہ بہت ہی سنگین جرم کرنے والے کافی آسانی سے بری ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی کم سن بچی پر یہ وحشیانہ حملہ ہوتا ہے تو چونکہ وہ عصمت دری کی بہت محدود تعریف میں نہیں آتا اس لیے جرم کرنے والوں کو ہلکی سزا سنادی جاتی ہے۔ اس سب کا نتیجہ ہے کہ عورتوں، بچیوں اور لڑکیوں پر جنسی حملوں کی تعداد تو بڑھتی جارہی ہے لیکن ان میں مظلوموں کو انصاف نہیں مل پارہا ہے۔
یہ معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ اس کاجائزہ حال میں دلی پولس کے ذریعہ کیے گئے سروے کے نتیجوں پر نظر ڈال کر سمجھا جاسکتا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۱ء میں عصمت دری کے ۳۸۱ معاملات درج کیے گئے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں ۴۰۳، ۲۰۰۳ء میں ۴۹۰، ۲۰۰۴ء میں ۵۵۱ اور ۲۰۰۵ء کے چھ مہینوں میں ۵۵۶ معاملات پیش آئے تھے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ معاملات (واردات) ایسے حالات میں پیش آرہے ہیں کہ پولس خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کم از کم (تقریباً) آدھی وارداتوں کی رپورٹ تک نہیں لکھی جاتی ہے۔
پولس کے مطابق آبروریزی کرنے والوں میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ بڑھی ہوئی ہے جو ان مظلوموں کے بارے میں کافی حد تک معلومات رکھتے ہیں۔ سروے کے مطابق ۲۰۰۱ء میں اسی جرم میں چھ مظلوموں کے ساتھ خود ان کے باپ ملوث تھے۔ ۲۰۰۲ء میں تین ، ۲۰۰۳ء میں گیارہ، ۲۰۰۴ء میں چودہ اور ۲۰۰۵ء کے چھ مہینوں میں گیارہ باپ شامل تھے۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۱ء میں ان میں سے چار سوتیلے باپ تھے، ۲۰۰۲ء میں تین، ۲۰۰۳ء میں تین، ۲۰۰۴ء میں چھ اور ۲۰۰۵ء کے چھ مہینوں میں پانچ ۔ ۲۰۰۳ء میں تو دو دادا بھی تھے۔ اس کے علاوہ بھائیوں / چچاؤں / ماماؤں / چچیرے چچا زاد بھائی / بہنوئی (جیجا) اور سُسر کی تعداد بھی ہر سال دو سے لے کر دس تک رہی ہے۔
اس سروے کے بارے میں دو باتوں کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے پہلی تو یہ ہے کہ دارالحکومت دہلی میں عصمت دری کی وارداتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ دوسری یہ کہ کوئی معلومات درج نہیں کی جاتی ان کی تعداد کل معاملوں کی پچاس فیصد سے کم نہیں ہے۔ ان باتوں کو نیشنل وومین کمیشن نے ۲۸؍۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو دہلی میں (جنسی حملوں کے خلاف قانون) کی ورک شاپ میں رکھا تھا ان باتوں نے ایسے قوانین کی ضرورت کو اور لازمی قرار دیا ہے جبکہ خواتین پرظلم وزیادتی کی بات ہوئی ہے اور سخت قوانین بنانے کا مشورہ رکھا جاتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کے لیے خود ذمہ دار ہیں۔ اگر سخت قانون بنایا جائے تو اس کا غلط استعمال ہونے لگے گا۔ خواتین کارکنان باتوں کو بڑھا چڑھا کر رکھنے کی عادی ہیں۔
مجھے امید ہے کہ دہلی پولیس کے ان سروے کو دیکھ کر خواتین کی ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کی بھیانک تصویر ضرور لوگوں کے سامنے آئے گی اور دہلی شہر کا یہ حال ہے تو اس ملک کے گاؤں، دیہات اور قصبوں کا کیا حال ہوگا۔ جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اور اگر گھروں کے اندر والد، دادا، بھائی، ماموں، چچا اپنے ہی رشتے ناطے کی بچیوں کے پیار اور اعتماد کاغیر انسانی حدوں کو پار کرکے غلط استعمال کرسکتے ہیں تو پھر ان کے ظلم کے خلاف قانون کو تھوڑا سا مضبوط بنانے کی کوشش کتنی ضروری ہے اس بدترین قسم کے استحصال کے سامنے کسی قانون کے غلط استعمال کا بہانہ کتنی بڑی نا انصافی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
(ہندی سے ترجمہ، جرار احمد)