ایک شام وہ بھی تھی جب نازی پھولوں سے لدے ہوئے باغ میں کھڑی کسی کا انتظار کر رہی تھی، جہاں اس وقت اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا، مگر وہ اس پھولوں بھری دنیا میں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت لڑکی تصور کر رہی تھی اور یہ باغ اس وقت ایسا دکھائی دے رہا تھاگویا اس کی دیواریں بھی پھولوں سے بنی ہوئی ہوں۔ پھر اس کے خیالوں کا دھارا بہہ نکلا جو اسے اس باغ سے نکال کر پہاڑوں، دریائوں ، سمندروں اور سبزہ زاروں میں لے گیا۔ جہاں وہ ہر طرح سے خوش تھی۔ نہ اسے کسی آدم زادکاخطرہ تھانہ کسی خوفناک جانور کاڈر۔ وہ بڑے آرام کی زندگی بسر کر رہی تھی اوردل میں یہ تصور کئے ہوئے تھی کہ شاید دنیا میں اس جیسا خوش قسمت کوئی نہیں، جسے اتنی خوشیاں اورآزادی نصیب ہے۔
بڑی خاموشی سے اس کے باغ کے پچھلے دروازے سے کوئی داخل ہوا۔ جس نے نازی کو سنہرے اور پرفریب خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا سے… واقف کرانے کی جرأت کی تھی اور وہ اس کا پرانا بچپن کا ساتھی اس کا ماموں زاد بھائی پرویز تھا۔ جس کے ساتھ کبھی اسے بے حد محبت تھی۔ مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اس کو اپنے اوپر فخر محسوس ہونے لگا ۔ اور اب وہ یہ چاہتی تھی کہ اپنی اس دنیا میں مست رہے۔ وہ اکیلی ہی دنیا کی ساری خوشیاں حاصل کرلے۔ مگر قدرت کے فیصلے خواہشات کے تابع نہیں ہوتے۔ لیکن اسے پرویز سے ہمیشہ کے لئے منسلک کردی گئی ۔ اب وہ پہلے کی سی آزادی سے ہرجگہ چہل قدمی نہ کرسکتی تھی۔ اب اسے قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آنے لگیں ۔ اب وہ دوسرے کی مرضی کی پابند ہوگئی۔ اسے سب کام کسی کی مرضی کے مطابق کرنے پڑتے تھے۔ اس نے اپنے دل کو بہت سنبھالا کہ یہ دنیا تو چند روزہ ہے آخر ایک دن ختم ہوجائے گی تو چھٹکارا مل جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ انتظار کی یہ چند گھڑیاں اس کے راستے میں ایک پہاڑ کی طرح حائل ہوچکی تھیں۔ جس کے ساتھ وابستہ ہونا اس کی قسمت میں لکھا تھا وہ اس کی شریک حیات بن چکی تھی۔ اس کی ساری تمنائیں اس کے دل میں ہی رہ گئیں۔ وہ سوچتی کہ شاید عورت ذات پیدااس لئے ہوئی ہے کہ جس کا جی چاہے اس پر حکم چلائے۔ جو چاہے اس کو اپنا غلام بنالے۔ کوئی پرسش کرنے والا نہیں ہے۔ اُف یہ دنیا والوں کا ظلم۔ کیا عورت کی ہی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ اس دنیا میں مظلوم بن کر رہے۔ کسی کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتی خود ہر ایک کی محکوم بن کر رہے۔ مگر ان باتوں کو سننے والا کون ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی فکر میں لگا ہوا ہے کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون کس حال میں ہے۔ یہ سب کچھ وہی جان سکتا ہے جو خود یہ ظلم سہہ رہا ہو۔
وہ بھی شامل ہی تھی جب وہ اداس، مضمحل اور دنیا ومافیہا سے بے خبر اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کا خون ہوتے دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی کہ اچانک وہ پیچھے سے آدھمکا۔ ’’نازی! نازی! یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہے۔ تمھیں کچھ گھر کی بھی خبر ہے۔ رات ہونے کو ہے او رتم ایسی بے پرواہ بیٹھی ہو جیسے کچھ پتہ نہیں ۔ دیکھو! مجھے ذرا ایک دوست کے گھر جاناہے ۔ جلدی سے چائے تیا رکردو‘‘۔
اُف خدایہ میرے لئے کیا مصیبت آگئی۔ ایک دو گھڑی بھی مجھے تنہا نہیں چھوڑتے۔ نہ جانے دنیا کا کون سا کام اٹکا ہوا تھا کہ مجھے عدم سے وجود میں لانا لازم تھا۔ اس سے بہتر تھا کہ میں نے جنم ہی نہ لیا ہوتا۔ میں تو اتنے بڑے بڑے خواب دیکھا کرتی تھی ۔ سہانے سہانے سپنے دیکھا کرتی تھی۔ اپنی آزادی قائم رکھنے کے لئے جان تک نثار کرنے کے لئے تیار تھی۔ کیا قدرت کو میری خوشی منظور نہ تھی۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا اور ایک دن میں اس خود غرض انسان کے حوالے کردی گئی۔ اُف میں کچھ بھی تو نہ کرسکی اوراب… اب و ہ ہیں اور ان کے حکم ہیںہر وقت انھیں کی غلامی میں مصروف رہو۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی‘‘۔ کھٹاک… کھٹاک… اف یہ کیا؟ جیسے کوئی دماغ پر ہتھوڑے مار رہا ہے۔ کہیں دور سے اس کو پکارتی ہوئی آواز آئی‘‘۔ نازی! نازی! ارے، آج کس دنیا کی سیر کر رہی ہو؟ اتنی دیر سے پکار رہاہوں لیکن کیا عالم محویت ہے کسی طرح ٹوٹنے کا نام ہی نہیںلیتا‘‘۔ تو کیا یہ آواز… یہ آواز پرویز کی ہے۔ لیکن یہ ہے کہاں؟ اوہ ! یہ تو سامنے ہی کھڑا ہے۔ تویہ …یہ میرا پیچھا کسی وقت بھی نہ چھوڑے گا۔’’پرویز! تم مجھے پاگل کردوگے … خدا را میرے پیچھے نہ پڑو۔ مجھے آزاد چھوڑ دو تاکہ میں بھی ان خوش و خرم پنچھیوں کی طرح اڑتی پھروں ۔ جنھیں کوئی غم نہیں…خدا کی قسم تم نے مجھے کوئی خوشی نہ دی … تم نے میرے اوپر جبراً قبضہ کرلیا… میری آزادی کو سلب کرلیا۔ آخر تم کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو۔ میں نے جتنے شیش محل تعمیر کئے تھے وہ تم نے ایک ہی ٹھوکر سے چکنا چور کردیئے۔ میرا دل ٹوٹ گیا… یہ دنیا میرے لئے کانٹوں کا گھر بن چکی ہے… خدا را مجھ پر رحم کرو۔ اب بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دو‘‘۔
نہ جانے ابھی وہ اور کیا کیا کہتی کہ پرویز جو ابھی تک حواس باختہ کھڑا تھا سنبھلا ’’نازی! ہوش میں آئو۔ یہ آج تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا۔ جو ایسی الٹی سیدھی باتیں کر رہی ہو۔ نازی!خدا کے لئے ہوش میں آئو ورنہ میں دیوانہ ہوجائوں گا۔ ایسی باتیں تم نے آج تک تو کبھی نہ کی تھیں۔ ضرور تم کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ میں نے تمہیں قید کیا ہے؟ تم ہر طرح آزاد ہو جو چاہو کرو آئو میں تمھیں آزادی عطا کروں‘‘۔پرویز اتنی دیر میں سب کچھ اندازہ لگا چکا تھا کہ نازی غلط راہ پر چل نکلی ہے۔ یہ اپنے فرض اور زندگی کی اصل ہی سے غافل ہے۔ ’’نازی! یہ دنیا محض ایک دھوکہ ہے ایک فریب ہے۔ کامیاب زندگی وہی گزار سکتے ہیں جو اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین پہچانیں اور اپنی حقیقت پر غور کریں۔ وہی ایسے خوش قسمت ہیں جو دنیا میںرہتے ہیں لیکن یہ سوچ کر نہیں کہ یہ ہماری آخری قیام گاہ ہے بلکہ یہ سوچ کر کہ یہ تو ہماری امتحان گا ہ ہے اور اس کے بعد بھی ہمیں کئی منازل طے کرنا ہیں جائے قیام تک پہنچنے کے لئے۔ اقبال نے شاید اسی لئے کہا تھا ؎
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
خاکی یہ تیرا نشیمن نہیں
یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ کوئی تم پر مسلط ہے۔ تم اور میں سب اسی ایک ذات کے غلام ہیں، محکوم ہیں ،ہمیں اپنی زندگی اسی کے بتائے ہوئے طریقیپر بسر کرنی چاہئے ۔ اور اس کا بتایا ہوا طریقہ قرآن کریم ہے۔ حدیث شریف ہے۔ مجموعی طور پراسلام ہے۔ ج سے ہمیں اپنے حقوق و فرائض کا پتہ لگتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ مرد عورت سب برابر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عورت جسمانی اور دماغی لحاظ سے مرد سے نازک ہے۔ اس لئے ظاہری طور پر وہ مرد کی محتاج ہے لیکن یہ محتاجی مرد کی پیدا کردہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے بنانے والے نے یہ قانون بنایا ہے ۔ اس سے مرد افضل نہیں ہوجاتے۔ بلکہ ان پر ایک بہت بڑی ذمہ داری کا بوجھ آجاتا ہے کہ وہ جہاںاپنے لئے ضروریات زندگی مہیا کرتے ہیں ۔ وہیں وہ اپنی مائوں، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ برتری اور فضیلت نہیں بلکہ یہ وہ ذمہ داری ہے جس سے سبکدو ش ہونا ہر مرد کا فرض ہے ورنہ وہ قیامت کے دن اس بات کا جوابدہ ہوگا کہ وہ عورت پر محافظ بنایا گیا تو اس نے اپنی ذمہ داری کو کیوں بھلا دیا۔ تو نازی! تم یہ نہ سمجھو کہ اگر اللہ نے مجھے تمہارا شوہر ہونے کا شرف بخشا ہے تو تم بدقسمت ہو ، نہیں!بلکہ تم خوش قسم ہو کہ ایک مرد کی محافظت میں ہو اور مجھ پر یہ اتنی سخت ذمہ داری ہے کہ مجھے خوف ہے کہیں میں اس دن پکڑا نہ جائوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرا ساتھ دو۔ میری اس ذمہ داری کو ہلکا کرو۔ یہ جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ تم میری معاون بنو۔ اگر میرے کام میں مدد کروگی ۔ میرے لئے گھر کا کام کروگی تو میں یکسو ہوکر اپنا فرض پورا کرنے کے قابل ہوسکوں گا‘‘۔ جذباتی گفتگو میں پرویز کی بے انتہاسوز اور درد تھا۔ اچھا اب اٹھو چل کر کھانا کھالو۔ ملازمہ نے تیار کردیا ہے اور اب یہ سوچنا کہ میں نے جو کچھ کہا تمہارا دل اس پر مطمئن ہے یا نہیں…‘‘
پھر وہ بھی شام ہی تھی جب نازی اپنا مقصد پہچان گئی تھی وہ پرویز کو اپنا محسن خیال کرتی تھی کہ اس نے اسے غلط راہوں پر بھٹکنے سے بچا لیا۔ خاروں میں الجھنے سے بچا لیا اور سیدھی راہ پر گامزن کردیا۔ اب وہ دونوں خوشی سے زندگی بسر کر رہے تھے۔
پھر اس دن شام کو پرویز گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ نازی سجدے میں پڑی ہے۔ کتنی ہی دیر گزر گئی لیکن اس نے سجدے سے سر نہ اٹھایا ۔ شاید وہ اپنے مالک حقیقی کا شکر ادا کر رہی تھی کہ جس نے پرویز جیسے نیک اور مخلص انسان کو اس کا شوہر بنایا تھا۔ اس کا شریک حیات بنایا تھا۔ واقعی وہ دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تھی۔ پھر جب اس نے سجدے سے سراٹھایا تو پرویز بھی سجدۂ شکر بجا لایا کہ نازی بھٹکتے بھٹکتے صراط مستقیم پر آگئی۔