’’شاہین یہ سمیر کا خط آیا ہے۔ مئی جون کی چھٹی میں گاؤں آرہا ہے۔‘‘ شاہین کے گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے اطلاع دی۔
’’اچھا‘‘ ۔ مختصر سا جواب دے کر شاہین اسکول بیگ کمرے میں رکھ کر، فریش ہوکر واپس امی کے پاس آئی اور پوچھنے لگی:
’’امی! سمیر بھائی ہی گاؤں آتے ہیں، نہ تایا جان آتے ہیں اور نہ دوسرے تایا زاد بھائی ہی گاؤں آتے ہیں۔‘‘
’’ اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔ پتہ نہیں کیوں نہیں آتے۔‘‘ امی نے ٹالنے والے انداز میں جواب دیا۔
سمیر شاہین کا تایا زاد بھائی تھا۔ وہ اکثر گرمی، عید اور بقرہ عید کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں آتارہتا تھا۔ شاہین نے اس بار فیصلہ کیا کہ اس سلسلہ میں سمیر بھائی سے ضرور پوچھے گی۔ مئی کے آخری ہفتہ میں سمیر گاؤں آیا۔ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی با ادب دادی جان کو سلام کیا۔ دادی جان نے جواب میں ہزار ہا دعائیں دے ڈالیں۔ سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور گھر کے ہر فرد کی خیریت دریافت کی۔ اس بیچ شاہین نے سارا سامان کمرے میں سلیقہ سے لگادیا۔ شام کے وقت ابو بھی کھیتوں سے واپس آئے تو انھوں نے بھی اپنے بڑے بھائی کی خیریت جانی اور شام کے وقت تمام لوگ ایک چٹائی پر کھانے بیٹھے۔ سمیر نے کھانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا : ’’چچی جان! آپ کے ہاتھ کا کھانا کھانے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ میرا پیٹ اور بڑا ہونا چاہیے۔ میں تو نوکروں کے ہاتھ کا کھانا کھا کھا کر بور ہوچکا ہوں۔ چچی جان! اس میں آپ کون کون سے مصالحے ڈالتی ہیں۔‘‘
’’اس میں ممتا کی مرچیں، شفقت کا مصالحہ اور محبت کا تیل۔‘‘ شاہین نے امی کے جواب دینے سے پہلے ہی جواب دیا۔ اس کے جواب پر سب نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’سمیر بھائی، اگر ایک سوال دریافت کروں تو آپ خفا تو نہیں ہوں گے؟‘‘ شاہین نے پوچھا۔
’’نہیں، نہیں پوچھو۔‘‘ سمیر نے جواب دیا۔
’’سمیر بھائی! میں نے آپ کو دیکھا ہے اور کسی کزن کو نہیں دیکھا، آخر وہ یہاں کیوں نہیں آتے۔‘‘
’’میرے بھائیوں کو کلب، سینما، تھیٹر اور اپنے دوستوں سے فرصت نہیں ہے۔ ابو کو اپنے کاروبار سے اور امی کو اپنی فرینڈز سے۔‘‘ سمیر نے جواب دیا۔
’’تو ایسے مشکل مراحل سے نکل کر آپ کی تشریف آوری کیونکر ممکن ہوسکی۔‘‘ اس نے دوسرا سوال پوچھا۔
’’آپ نے تو صرف ایک سوال پوچھنے کو کہا تھا، تو دوسرا کیسے پوچھ رہی ہیں؟‘‘ سمیر نے شاہین کو ٹوکا۔
’’ٹھیک ہے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں معلوم ہے تو خفا مت ہوئیے۔ جواب مت دیجیے۔‘‘ شاہین نے بھی نہلے پر دھیلا رکھ دیا ۔
’’تو سنئے جواب۔ مجھے بھی پہلے گاؤں سے نفرت تھی۔ گاؤں کے بارے میں جانے کیا کیا سوچا کرتا تھا۔ ایک بار ابو نے کہا تم ذرا گاؤں چلے جاؤ اور چچا جان سے غلہ اور میوے کی فصل کا حساب کرلاؤ۔ پہلے میں نے انکار کردیا۔ جب ابو نے زیادہ اصرار کیا تو صرف چند گھنٹے ٹھہرنے کا فیصلہ کرکے اپنی کار سے آیا۔ لیکن مجھے ماں کی ممتا، دادی اور چچا کی شفقت کا ایسا چسکا لگا کہ گھر کے ایڈوانس ماحول سے نفرت ہوگئی اور میں آج تک اس محبت، ممتا اور شفقت کو پانے کے لیے آجاتا ہوں۔‘‘
سمیر کو آئے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔ سمیر دادی جان کے ساتھ سوگیا تھا۔ جب صبح کے وقت دادی تہجد کی نماز پڑھنے اٹھیں تو اس کی بھی آنکھ کھل گئی۔ پھر اسے نیند نہیں آئی لیکن وہ آنکھیں بند کیے لیٹا ہی رہا۔ وہ لیٹے لیٹے محسوس کررہا تھا کہ گھر میں سب ہی بیدار ہوچکے ہیں مجھے بھی اٹھنا چاہیے۔ کچھ دیر بعد دادی جان کی تلاوت کی دلکش آواز سنائی دی اور شاہین کی تجوید کے ساتھ سورہ رحمن پڑھنے کے انداز نے تو اس کا دل ہی موہ لیا۔
سمیر اگلے دن دادی جان کے پاس ہی لیٹ گیا اور کہا کہ صبح مجھے بھی جگا دینا۔ دادی جان دیوار سے تکیہ کیے تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ وہ اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کرنے لگیں اور اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر ماضی کے خیالات میں کھو گئیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، اکبر اور اصغر۔ اکبر نے گاؤں سے ہائی اسکول کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر میں داخلہ لے لیا اور وہاں ایک مالدار لڑکی سے عشق کر بیٹھے اور خاموشی سے شادی کرلی۔ آہستہ آہستہ اپنے گھر والوں کو بھول گئے۔ سب سے زیادہ بوڑھی ماں کی شفقت کو بھول گئے۔ ایک دن ماں نے سوچا دلہن یہاں نہیں آئی ہے تو کیا، میں ہی شہر جاکر منہ دکھائی کرلوں۔ وہاں پر عزت و اکرام تو درکنار، ماں کی سب نے بہت زیادہ بے عزتی کی۔ بس پوچھو نہ۔ اس کا داغ آج تک دل پر ہے۔ انہیں سلسلہ وار خیالات کے بیچ کب نیند کی دیوی نے آغوش میں لے لیا، پتہ ہی نہیں۔ علی الصباح اٹھیں اور تہجد کے بعد جب فجر کی اذان ہوئی تو دادی جان نے سمیر کو جگادیا۔ فجر کی نماز کے بعد جب وہ ٹوپی اوڑھے گھر میں داخل ہوا تو شاہین نے چھیڑا: ’’اوہو مرغے نے انڈا دے دیا۔‘‘
’’نہیں، خربوزے کو دیکھ کر خربوزے نے رنگ بدلا ہے۔‘‘ سمیر نے جواب دیا۔
جون کے آخری ہفتہ میں سمیر واپس شہر گیا تو اس نے ایک دن شام کے کھانے پر دھماکہ کیا کہ امی! میں چچا جان کی لڑکی شاہین سے شادی کروں گا۔ جہاں یہ فیصلہ ابو کو خوش کرنے والا تھا وہیں امی کو آگ بگولہ کرنے والا۔ ابو چاہتے تھے کہ میری وجہ سے ماں اور بھائی سے رشتہ کی جو ڈور ٹوٹ گئی ہے وہ اسی بہانے جڑ جائے۔ انھوں نے کہا: ’’جب ہمیں اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے تو ہماری اولاد اس حق سے محروم کیوں رہے؟‘‘
’’میں جانتی ہوں کہ تمہارے بھائی کی نظر میری دولت اور جائیداد پر ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح اس کے حقدار بن جائیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کے یہ چال تمہاری بوڑھی ماں مرگھٹ کی بھٹکی آتما کی کارستانی ہے۔‘‘ سمیر کی ماں ناگن کی طرح پھنکاری۔
’’نہیں ماں! میں شاہین کے ساتھ ہی شادی کروں گا۔ یہ میرا اٹل اور آخری فیصلہ ہے۔‘‘ سمیر نے پرعزم لہجے میں کہا۔
سمیر نے ایک رقعہ ٹیبل پر رکھا اور گھر سے نکل گیا۔ رقعہ میں لکھا تھا: ’’ڈیئر ممی…! السلام علیکم، میں آج گھر چھوڑ کر جارہا ہوں مجھے غم ہے لیکن تھوڑا۔ زیادہ غم جب ہوتا اگر آپ نے اپنا دودھ پلایا ہوتا۔ ممتا نچھاور کی ہوتی۔ ممتا کیا ہوتی ہے، یہ چچی سے پتا چلا۔ شفقت کیا ہوتی ہے یہ دادی جان سے پتہ چلا۔ میری گستاخی کو خدارا معاف کریں۔ فقط و السلام آپ کا نالائق بیٹا۔ سمیر‘‘
سمیر چچا کے گاؤں پہنچا تو سب لوگ اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے۔ دادی نے حیرت سے پوچھا: ’’بیٹا! تم ابھی تو گئے تھے بغیر اطلاع کے پھر آئے ہو۔ سب خیریت سے تو ہے نہ ۔‘‘
’’جی ہاں، سب خیریت ہے۔ آپ سب لوگوں کی محبت مجھے دوبارہ کھینچ لائی۔‘‘ کچھ دن رہنے کے بعد سمیر نے گاؤں ہی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں ۱۵۰۰ روپے ماہوار پر بحیثیت معلوم نوکری کرلی۔ اس بیچ سمیر کے والد اکبر نے گاؤں کے رشتہ کے چچا کے ذریعہ ساری بات اپنی والدہ سے کہلوادی، تو سمیر کو دادی نے سمجھایا: ’’بیٹا! سمیر میں شاہین کا نکاح تمہارے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی والدہ کو ناراض مت کرو، ان کو راضی رکھو۔‘‘
کافی جدوجہد کے بعد آخر ایک دن شاہین سمیر کی دلہن بن کر کرائے کے مکان میں آگئی۔ زندگی کے دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ ایک دن سمیر نے شاہین سے بڑے پیار سے پوچھا: ’’شاہین! تم نے مجھ سے میک اپ کا سامان لانے کی فرمائش آج تک نہیں کی۔‘‘
شاہین نے بڑے پیار سے کہا: ’’آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ لڑکی کی آنکھوں کی حیا اس کا مسکارہ ہے، شرم غازہ اور تبسم اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک ہے۔‘‘
شاہین نے بڑے پیار سے کہا: ’’اچھا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے تائی جان سے ملوادیں۔ میں نے آج تک ان کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’شاہین! تم میری ماں سے ملنا چاہتی ہو، وہ تو غصیلی بلی کی طرح تم کو دیکھتے ہی جھپٹ پڑیں گی اور گالیاں دیں گی۔‘‘ سمیر نے منہ بنا کر کہا۔
’’نہیں آپ ان کی برائی نہ کریں، سب سے پہلے میں ان کی قدم بوسی کروں گی کیونکہ انھوں نے مجھے اتنی محبت کرنے والا شوہر دیا۔ میری خواہش تھی کہ میری شادی جہاں ہوگی تو اپنی ساس کو ساس نہ مان کر ماں سمجھوں گی اور خسر صاحب کو باپ اور دیور، نیند کو بھائی بہن سمجھوں گی۔ سمیر اگر ہر لڑکی اس طرح سوچ رکھے تو یہ ساس بہو، نند بھاوج کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔ ‘‘
’’آمین ! ثم آمین‘‘ سمیر کی والدہ کی آواز آئی جو ممتا سے مجبور ہو کر ملنے آئی تھیں اور دروازے کے پیچھے کھڑی ہوکر ساری گفتگو سن چکی تھیں۔ انھوں نے دونوں کو سینے سے لگایا اور آنسوؤں کی جھڑی کے بیچ سمیر کی دادی کے گھر کی طرف معافی مانگنے کے لیے روانہ ہوگئیں۔