ذہنی معذوربچوں کی تعلیم و تربیت

ڈاکٹر سید سجاد حیدر

ذہنی معذوری کسی مرض کا نام نہیں۔ یہ ایک ذہنی حالت ہے جو ذہانت میں کمی اور ادراک میں پختگی نہ ہونے کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے۔ اس کی وجوہات بے شمار ہوسکتی ہیں۔ بعض وجوہات کا علم انسانی ادراک سے بالاتر ہے۔

چند فقروں میں ذہنی معذوری کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ وہ قابلیت و صلاحیت جو نارمل بچوں میں ہوتی ہے یعنی بامقصد کام کیا جائے، سوچ میں معقولیت، استدلال اور شائستگی موجود ہو۔ ماحول کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہو۔ ہرکام، حالت اور صورت کی وجہ اور نتائج سے آگاہی ہو۔ یہ تمام صفات نارمل بچوں میں نشو ونما پاکر معاملات کو سلجھانے اور معاشرہ کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے کے ڈھنگ اور اسلوب سکھا دیتی ہیں۔ ان صفات کو ذہانت کہتے ہیں۔ یہی ذہانت ذہنی معذور بچوں میں معیار سے کم اور بعض حالتوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔

تعلیم و تربیت

ذہنی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے مکمل نصاب کے لیے بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے جو اسپیشل اسکولوں کے لیے زیادہ موزوں ہوگا۔ یہاں والدین کے لیے بنیادی اصولوں کو مدِّ نظر رکھ کر مختصر اور عام رہنمائی جس میں ضرورت کے مطابق ترمیم کی جاسکے، پیشِ قارئین ہے۔

نارمل بچوں میں جن صفات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور جو ذہانت کی تعریف میں آتے ہیں، ان کادارومدار حواسِ خمسہ کے ذریعہ اطلاعات کا دماغ تک جانا، ادراک، تجربات اور مشاہدہ کے سہارے ان کو معنی کالباس پہنانے پر ہے۔ وہ انفارمیشن کی صورت میں جمع ہوکر ذہانت کی نشونما کے ذریعہ معاملہ فہمی، مسائل کو سلجھانے اور احسن طور پر تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کے طور پر پروان چڑھتی رہتی ہے۔

معذور بچوں کی تعلیم و تربیت میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ حواسِ خمسہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے:

(۱) کیا آنکھ میں دیکھنے کی صلاحیت ہے۔

(۲) کیا کان کا اپریٹس مکمل ہے اور سماعت میں نقص تو نہیں۔

(۳) کیا سونگھنے کا سسٹم مکمل ہے۔

(۴) کیا چھونے کی حس موجود ہے۔

(۵) کیا ذائقے کی حس موجود ہے۔

مندرجہ بالا پانچ حسوں میں سب سے اہم دیکھنے کی قوت ہے کیونکہ تجربہ و مشاہدے نے ثابت کردیا ہے کہ تقریباً ۸۰ فیصد سیکھنے کی صلاحیت قوتِ بینائی کی محتاج ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہیے کہ باقی حواس کی قوتیں کم اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ تمام حواس ایسے دریچے ہیں جن سے ماحول کی اطلاعات دماغ میں داخل ہوتی ہیں اور فہم و ادراک بیدار ہوکر گزشتہ تجربات اور مشاہدات کی بنا پر ذہانت میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ معذور بچے کو حواسِ خمسہ کے ذریعہ مناسب طریقے اور نظم کے ساتھ اطلاعات فراہم کریں۔ تاکہ دماغ میں انفارمیشن پہنچتی رہے۔ پھر ایک تدریجی پروگرام کے تحت ادراک کی نشو ونما کو بڑھائیں تاکہ بچے کا دماغ انفارمیشن کو معانی کا لباس پہنا سکے۔ اس طرح ادراک کی مشقوں سے دماغ کے خلیوں سے کیمیائی برقی تاریں لمبی ہوکر ایک دوسرے سے منظم ملاپ پیدا کرتی جائیں گی اور آہستہ آہستہ، ایک حس کاادراک دوسرے حواس کے ادراک کے ساتھ شریک ہوکر ذہنی معذوری کو کم سے کم تر کرسکے گا۔

چند مشقیں بطور نمونہ پیشِ قارئین ہیں۔ والدین انہیں استعمال کرتے وقت ضرورت، حالات اور بچے کی استطاعت کے مطابق کم و بیش کرسکتے ہیں۔ ان میں حسبِ قاعدہ تبدیلی کرکے بچے کے معیار کے مطابق مرتب بھی کرسکتے ہیں۔ مشقوں کے لیے زیادہ سامان خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ عموماً گھر میں اکثر چیزیں جن کی ضرورت ہوتی ہے، میسر آجاتی ہیں۔ سب سے اہم یہ بنیادی اصول ہے کہ آسان سے مشکل کی طرف بڑھا جائے اور اگر کہیں دشواری ہو تو فوراً آسان کی طرف لوٹ آیا جائے۔ اسی طرح ہر معمولی کامیابی پر بچے کی ستائش کے ساتھ ساتھ صبر اور مستقل مزاجی کو اپنایا جائے۔

یہ مشق کسی خاص حس کے تحت پیش نہیں کی جارہی۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر ایک سے زیادہ حواس ایک مشق میں حصہ دار ہیں بلکہ حواس کے ساتھ ساتھ کام کرنے والے پٹھوں کی بھی پریکٹس ہورہی ہے۔ خاص طور پر ہاتھ اور انگلیوں کی پریکٹس، کیونکہ قدرت کے نظام کے مطابق انسانی ہاتھ کی انگلیاں اور انگوٹھا روز مرہ کے کام میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے حواس اور ان کے ادراک سے پوری طرح مطابقت اشد ضروری ہے۔ ہر کام میں حس، حرکت اور ادراک میں باہمی اتحاد کے بغیر کام کی تکمیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ ایک اور سوال توجہ طلب ہے کہ کون سی مشق پہلے کرائی جائے اور کون سی بعد میں۔ اس کا جواب بچے کے شوق و رغبت پر منحصر ہے۔ کیونکہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ کسی کام یعنی مشق کو جب کرسکے گا تو کامیابی پر جو تحسین و تعریف ہوگی اور خود کامیابی جس خوشی کا پیغام لائے گی، وہ اس کے حوصلے کو بڑھانے اور اعتماد پیدا کرنے میں معاون و موثر ثابت ہوگی۔ اکثر معذور بچے روز مرہ کے کاموں میں ناکامی کاسامنا کرتے کرتے مایوس اور اداس ہوجاتے ہیں۔ اسی لیحے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے آسان قدم سے شروع کرکے بتدریج مشکل کی طرف جائیے تاکہ شروع کی کامیابی مضبوط بنیاد بن جائے اور حوصلہ و ہمت بڑھتی رہے۔

رنگوں کی تمیز

گھر میں بے شمار چیزیں مختلف رنگوں کی موجود ہیں، ان میں سے جن چیزوں سے زیادہ رغبت ہے ان کے رنگ کا نام لے کر سکھائیں۔ اور جب اس رنگ کو پہچان لے، شروع میں خواہ ایک ہی صحیح رنگ ہو، تعریف اور پیار کے ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ کچھ وقت لگے گا۔ بار بار سبق دینا پڑے گا۔ اگر سبق یاد بھی ہوجائے تو کئی روز تک اس کو دہرانا چاہیے کیونکہ ذہنی معذوری کی وجہ سے ذہن میں نقوش اتنی جلدی پختہ مقام حاصل نہیں کرپاتے۔

مشابہت اور اختلاف

چند پھل اورچند سبزیاں طشتری میں ڈال کر سامنے رکھیں اور سکھانے کے بعد پوچھیں کہ پھل کون سے ہیں اور سبزیاں کون سی؟اس سبق کو بتدریج آسان سے مشکل بنایاجاسکتا ہے۔ گھر میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو مختلف زمروں میں تقسیم کرکے سوال پوچھے جاسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے یہ مشق قدرے مشکل ذہانت کاسبق ہوگا۔ اگر معذور بچے اسے کھیل سمجھ کر ساتھ ساتھ لطف اندوز بھی ہوں تو پہچان کے ذریعہ سوچ، شعور اور ذہانت کی نشو ونما کے لیے یہ مشق مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ بچہ اگر الجھن محسوس کرے یا مشکل سمجھ کر جھنجھلا اٹھے تو فوراً آسان کی طرف لوٹ آئیے۔

اشیا کو مختلف انواع میں تقسیم کرنا

(۱) پھل سبزیوں کو ملا کر کہیں کہ پھل علیحدہ کردو اور سبزیاں الگ۔

(۲) مختلف رنگوں کی چیزیں علیحدہ قطار میں رکھ دو۔

(۳) لمبی چیزیں، چھوٹی چیزوں سے الگ کردو۔

(۴) بھاری چیزیں، ہلکی چیزوں سے الگ کردو۔

(۵) میٹھی چیزیں نمکین سے الگ کردو۔

(۶) آوازوں کی بنا پر تمیز کرو۔ گھنٹی کی آواز ، ڈھول کی آواز، باجے کی آواز، الارم کی آواز، جانوروں اور پرندوں کی آوازیں۔

(۷) نرم چیزیں (ریشمی کپڑے) کھر درے کپڑے۔ ہاتھوں سے چھو کر اور آنکھوں سے دیکھ کر سردیوں کے کپڑے اور گرمیوں کے کپڑوں کی پہچان۔

مندرجہ بالا مشقیں پہلے بطور سبق سکھانی چاہئیں۔ پھر بار بارآسان سے بتدریج مشکل کی طرف مشق کرائیں۔ وقت اور مشق کے ساتھ حواس خمسہ کا باہمی تعاون بڑھتا جائے گا جو ذہانت میں اضافہ کا سبب بھی ہوگا اور مظہر بھی۔

انگلیوں اور ہاتھوں کی حرکات و لمس کی مشق

چیزوں کی پہچان اور شناخت کی مشق کے دوران اگر بچہ اپنی انگلیاں اور ہاتھ بھی چیزوں پر پھیرتا رہے توبہتر ہوگا۔ پہلے آنکھوں سے دیکھ کر اور پھر آنکھیں بند کرکے مشق کرائیں۔ بعد میںچند مختلف اشیاء کو ایک ڈبے یا تھیلے میں ڈال کر اسے کہیں کہ آنکھیں بند کرکے اس ڈبے میں سے فلاں چیز نکال دو۔ تو پھر وہ ہاتھوں کے لمس سے پہچان لے گا کہ کنگھی کون سی ہے۔ شیشہ کدھر ہے۔ تالا ڈھونڈ نکالے گا۔ اپنا ٹوتھ برش پہچان لے گا۔ بڑا گیند نکالنا آسان ہوگا۔ چھوٹے گیند کو تلاش کرتے ہوئے بڑے چھوٹے میں تمیز آجائے گی۔

مختلف چیزوں کی پہچان کروا کر یہ مشق بار بار کروائیں۔ اس سے دماغ میں خلیوں سے نکلنے والی اعصابی تاروں کا جال پھیلتا چلا جائے گا اور شعور اور ادراک ترقی پذیر ہو ںگے۔

اشیاء سے حروف کی طرف

اگر بچہ اشیاء کی پہچان میں عمر اور استطاعت کے اعتبار سے ترقی کی منازل اپنی رفتار کے مطابق طے کررہا ہے تو ا ب تا یا A B Cکی مشق کروائی جائے۔ پہلے حروف کوموٹے موٹے قلم سے ہاتھ پکڑ کر لکھیں۔ انگلیوں سے ریت پر لکھوائیں۔ ریگ مار کاغذ کو بڑے حروف میں کاٹ کر بڑے گتے پر گوند سے لگادیں۔ آنکھیں بند کروا کر اس پر اس کی انگلی پھیریں۔ حروف پر پتلا کاغذ رکھ کر ٹریس کروائیں۔ ہر قدم پر حروف کو بآواز ادا کریں اور بچے سے کہیں کہ وہ آپ کی پیروی میں حروف کو آواز سے کہے۔ ہر کامیاب قدم پر شاباشی اور پیار کو ضروری سمجھیں۔

ہاتھ، انگلیوں اور آنکھوں میں رابطہ

بازار سے آسان آسان معموں کے پزلس خرید لیں۔ یہ گھر میں بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ ان کو بکھیر کر دوبارہ مناسب جگہ پر ٹکڑوں کو جوڑ کر پہلی حالت والی شکل سے مکمل کرنا ہے۔ بچے اس سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ شروع شروع میں کسی سے مدد بھی ملتی رہے۔ مختلف شکلوں میں رنگ بھرنا، آسان سے مشکل شکلوں میں اور ٹریسنگ کی مشق بھی بہت کارآمد ہے۔ گندھی ہوئی چکنی مٹی سے پہلے گیند، پھر کیلا، پھر طوطا وغیرہ بنانے کی مشق سے ہاتھ اور آنکھوں میں موافقت قائم ہوتی ہے اور دماغی و اعصابی حالت میں گونا گوں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ قینچی بشرطیکہ محفوظ ہو یا بچہ خود محتاط ہو تو شکلیں کاٹ کر گوند سے دوسرے کاغذ پر چسپاں کرنا۔ یا اون کے موٹے دھاگے کاٹ کر کاغذ پر بنی ہوئی شکل کے بارڈرز پر گوند سے چسپاں کرنا چاہیے۔ اس سے ہاتھ اور آنکھوں کی ادراکی موافقت اور مطابقت بڑھے گی۔

نقطوں کو ملانے کی مشق

کاغذ پر دو نقطے لگا کر بچے سے کہیں کہ پنسل سے یا رنگ دار چاک سے لائن لگا کر نقطے کو ملا دے۔ پہلے لائن ٹیڑھی ہوگی، آہستہ آہستہ آنکھوں اورہاتھوں کی موافقت سے لائن سیدھی ہوتی جائے گی۔ نقطوں کی تعداد بڑھاتے جائیں اس طرح مختلف شکلوں کی پریکٹس ہوجائے گی۔ مثلاً گول دائرہ، حروف، ا، ج، د، ل، م یاجانوروں اور پرندوں کی شکلیں مکمل ہوجائیں گی۔ نقطے قریب قریب فاصلے پر رکھے جائیں اور پنسل سے ان کو ترتیب وار آپس میں ملادیا جائے۔

یادداشت بڑھانے کی مشق

بچے کے سامنے دو چیزیں رکھیں۔اسے کہیں کہ دیکھو اور بتاؤ یہ کیا ہے۔ نام بتاؤ۔ پھر اس سے کہیں کہ آنکھیں بند کرلو۔ اس دوران، ایک چیز سامنے سے اٹھالیں۔ کہیں کہ آنکھیں کھولو اور بتاؤ کون سی چیز غائب ہے۔ چیزوں کی تعداد بڑھاتے جائیں۔ پھر ایک کی بجائے دو یا تین چیزیں غائب کرلیں۔ یہ مشق ذرا سی مشکل ہے لیکن کافی حد تک آسان بنائی جاسکتی ہے اور کھیل تماشہ کی شکل میں بچے اسے پسند بھی کریں گے۔ نارمل بچوں کو بھی شامل کرلیا جائے۔ ایسی چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں، جن کے استعمال کا طریقہ اور صحیح استعمال سے فائدہ یا غلط استعمال سے نقصان کاسبق بھی ملتا رہے گا۔ انہیں مشق میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ بچے کے ذہن میں صلاحیت پیدا ہوچکی ہو۔

پرانے میگزینوں کی تصویروں سے استفادہ

رسالوں میں دی گئی تصویروں میں دلچسپی بڑھانے سے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ ان تصویروں پر آپس میں گفتگو ہوسکتی ہے۔ چند تصویروں کو کاٹ کر تاش کے پتوں کی طرح دو تین یا زیادہ کا گروپ بنا کر کھیل کی صورت میں مشق ہوسکتی ہے کہ کیا کیا اور کون کون سی چیز ایک جیسی ہیں اور کیا کیا مختلف ہیں یہ بھی بتایا جاسکتا ہے۔

کسی فرنیچر، جانور، پرندے یا انسان کی تصویر کا کچھ حصہ کاٹ کر پوچھا جائے کہ اس میں کیا کمی ہے تو اس مشق سے سوچ، تجسس، شعور اور ذہانت کی نشو ونما ہوگی۔ اسی قسم کے کئی چھوٹے چھوٹے کھیل درجہ بدرجہ امید افزانتائج پیدا کریں گے۔

(جاری)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146