برہمنوں کی بستی میں ایک رام داس نامی شخص رہتا تھا۔ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ماں، چھوٹابھائی، بیوی اور چار بچوں کی کفالت اس کے ذمہ تھی۔ تین بیگھا زمین، ہل، بیل اور بھینس بھی تھی انہیں کھیتوں میں محنت کرتا اور اپنے خاندان کی پرورش کرتا۔
بھینس چرانے وہ اکثر مدرسے کے سامنے کھلی زمین میں آجاتا۔ بھینس کو تو میدان میں چھوڑ دیتا خود دھوپ سے بچنے کے لیے مدرسے کے برآمدے میں آبیٹھتا۔ رمضانی صاحب جب پڑھاتے تو وہ ان کی باتیں سنتا۔ توحید کی، رسالت کی، آخرت کی، ایمان داری کی، ماں باپ کی خدمت کی، یہ باتیں اس کو اچھی لگتیں۔ اب اس نے اپنا معمول جیسا بنالیا تھا۔ بھینس کو چرنے کے لیے چھوڑ دینااور خود مدرسے میں آکربیٹھ جانا۔ اس کا ضمیر گواہی دیتا کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ سب کو ایک دن مرنا ہے پھر اپنے کاموں کا حساب دینا ہے۔ اس امتحان میں جو پاس ہوگا سدا سورگ میں رہے گا جو فیل ہوگا نرک میں جلے گا۔ دنیا میں انسان کتنا ہی باپ کرے دوسروں پر اتایاچار کرلے لیکن ایشور کی پکڑ سے نہ بچے گا۔
ایک دن اس سے نہ رہاگیا رمضانی صاحب کے پاس جا بیٹھا ادب سے بولا گرو دیو، میرا کیا بنے گا۔ نہ میں اپنے پالنہار کو جانتا ہوں، نہ اس کی پوجا کرتا ہوں۔ ناپاک ہوں پاپ میں ڈوبا ہوا ہوں، میں تو اوشہ نرک میں ڈالا جاؤں گا ہمیشہ اس میں جلتا رہوں گا۔ آپ مجھے پوتر کردیجیے مجھے ایشور کا داس بنادیجیے۔رمضانی صاحب نے سمجھایا نراش نہ ہو وہ بڑا دیالو ہے۔ سچے من سے کوئی چھما مانگے تو سب پاپوں سے اس کومکت کردیتا ہے اس کے لیے سورگ کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ اسلام کے وِشے میں اور جانکاری حاصل کرو من کو بھی ٹٹولو کوئی آشنکا تو نہیں رہ گئی ہے۔رام داس کادل ہدایت کے نور سے جگمگا اٹھا تھا۔ اب کفرو شرک کے اندھیرے میں ایک ایک پل گذارنا مشکل ہورہا تھا۔ صبح سویرے وہ رمضانی صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ گرودیو مجھے پاک کردیجیے، مجھے کلمہ پڑھا دیجیے۔ رمضانی صاحب سہم گئے۔ برہمنوں کی اتنی بڑی بستی اور چند مسلمان۔ رام داس کے ایمان کی خبر ایک چنگاری بن کر سب مسلمانوںکو جلادی گی۔ انھوں نے رام داس کو دلا سا دیا اور فرمایا جمعہ کے دن تم نہا دھوکر مسجد میںآنا وہاں امام صاحب تمہیں کلمہ پڑھائیں گے۔جمعہ کے دن مسلمانوں کے مشورے سے یہ بات طے پائی کہ رام داس اگلے جمعہ کو پکری براواں چلا جائے وہ مسلمانوں کی بستی ہے وہاں راجہ عبدالحفیظ خاں بھی رہتے ہیں، وہیں قبول اسلام کی تقریب کی جائے اور وہیں سکونت پذیر ہوجائے۔ آنے والے جمع کو پکری براواں کی مسجد میں رام داس نے عام مسلمانوں کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کیا۔
پریہ سجنو! میں اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ اپنے پاپوں سے ہر ویکتی پریشان ہوگا۔ توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا کسی کی فریاد بھی اللہ نہ سنے گا۔ جس نے جو کیا ہوگا وہ اس کے سامنے آئے گا۔ میں نے اس دن کی کامیابی کے لیے خدا کی پناہ میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعہ کی نماز کے بعد رام داس نے سب نمازیوں کے سامنے کلمہ پڑھا۔ اللہ کے سوا کوئی پوجہ نہیں محمدؐ اللہ کے انتم دودت ہیں۔ نمازیوں نے رام داس کا اسلامی نام عبدالرحمن تجویز کیا سبھوں نے اس کے لیے ایمان پر استقامت کی دعا کی۔
پکری براواں بڑی بستی تھی عبدالرحمن کھیتی باڑی کا کام اچھی طرح جانتا تھا۔ دو تین دن امام صاحب کے یہاں مہمان رہ کر اس نے محنت مزدوری شروع کردی اور روزی روٹی حاصل کرنے لگا۔ راجہ عبدالحفیظ صاحب نے بٹائی پر کچھ زمین دے دی ایک بنا بنایا مکان بھی دے دیا۔ عبدالرحمن مطمئن ہوکر زندگی گذارنے لگا۔اب عبدالرحمن کو اپنے گھر والوں کی فکر ستانے لگی۔ میری پیاری ماں جس نے اپنی کوکھ سے مجھے جنم دیا کیا وہ نرک میں جلے گی۔ میری بیوی بچے جو میرے شریر کا ایک انگ ہیں کیا دوزخ میں جائیں گے، میرا چھوٹا بھائی جس کو میں نے باپ کی طرح پالا پوسا ہے، کیا اس کابدن جہنم کی آگ میں جلے گا۔ یہ سب سوچ سوچ کر اس کا دل بے چین ہوجاتا تھا۔ آخر کار ایک دن ہمت کرکے وہ اپنے گھر کمہراواں جا پہنچا۔ بچے محبت سے چمٹ گئے، بھائی گلے سے لگ گیا۔ بہت دیر تک سب روتے رہے کچھ سکون ملا تو اس نے بیوی بچوں اور بھائی سے پوچھا تم سب مجھے چاہتے ہوں، سبھوں نے کہا بہت چاہتے ہیں۔ اس نے کہامیں بھی تم لوگوں سے بہت پیار کرتا ہوں۔ تم دیکھ رہے ہوکہ دسیوں برس سے میں محنت مزدوری کرکے تم سب کو پال رہا ہوں اب بھی میں تم سب کا بھلا چاہتا ہوں چلو میرے ساتھ چل کر رہو اللہ روزی دینے والا ہے۔ اس کا بھائی رام سروپ بیوی بچے سب اس کے ساتھ پکری براواں چلے گئے ماں سماج کے ڈر سے نہ جاسکی۔ سمجھانے بجھانے پر سبھوں کو اسلام دھرم پسند آیا اور سب مسلم ہوگئے۔ رام سروپ کا نام عبدالرحیم رکھا گیا۔ وہ بارہ تیرہ برس کا تھا اس کو پڑھنے کے لیے دارالعلوم بھیج دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد عبدالرحمن کی بیوی ماں باپ سے ملنے میکے گئی وہاں انھوں نے اسے روک لیا۔ اور دوسری جگہ شادی کردی۔ عبدالرحمن بہت دنوں تک بچوں کو خود ہی کھانا بنا کر کھلاتا رہا۔ پھر ماں کی خوشامد کرکے ماں کو لے آیا جو اس کے بچوں کو سنبھالنے لگی اور کھانا بھی پکانے لگی۔
ایک دن عبدالرحمن ماں سے بولا۔ ماں کیا تو یہ پسند کرے گی کہ تیرے کوکھ کا جنما بیٹا آگ میں زندہ جلے۔ ماں بولی بیٹا! کوئی ماں یہ پسند نہیں کرے گی۔ پھر عبدالرحمن نے کہا۔ کیا میرے جیسا بیٹا یہ پسند کرے گا کہ اس کی ماں نرک میں جلے؟ ماں تو وشواش کرمیں تجھے بہت چاہتا ہوں تیرا بڑا آدر کرتا ہوں پتا جی نہ رہے تو تو نے ہیہمیں پالا پوسا ہم یہ کیسے برداشت کریں گے کہ میری ماں میری نگاہوں کے سامنے دوزخ میں جائے۔ جو ایک ایشور کو نہیں مانتے وے جہنم میں جاتے ہیں۔ یہ کہتے کہتے عبدالرحمن رو پڑا اور ماں کے ہاتھ کو پکڑ کر دیر تک روتا رہا۔ اس کے خلوص نے ماں کے دل میں ایمان کی روشنی پیدا کردی۔ وہ ایمان لے آئی اور نماز روزے کی پابند ہوگئی۔ عبدالرحمن نے بھی دوسری شادی کرلی اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی رہی۔
پکری براواں میں بھی ایک صاحب عبدالحفیظ خاں تھے۔ وہ راجہ صاحب کے معتمد خاص تھے۔ راجہ صاحب ان کو بہت چاہتے تھے۔ ان کی زمین جائیداد، باغات، بینک اکاؤنٹ کا سب حساب گماشتہ جی رکھتے تھے۔ گماشتہ جی بھی کافی متومل تھے تقریباً اسی بیگھا کاشت کی زمین ان کے پاس تھی۔ قدآور اور خوبصورت انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سب نعمتوں اور خوبیوں سے ان کو نوازا تھا۔ دولت اقتدار شہرت تو گھر کی چیز تھی۔ لیکن اپنی بیٹی مہ جبیں کے مستقبل کے لیے کافی پریشان رہتے تھے۔
مہ جبیں قرآن و حدیث، فقہ ، اردو، فارسی کی تعلیم حاصل کرچکی تھی۔ سلائی کڑھائی پینٹنگ میں مہارت حاصل تھی۔ گھریلو کام کام میں یکتا۔ خدا نے بہت سی خوبیاں اس درِّ یتیم میں بھردی تھیں۔ اس لیے رشتوں کی کمی نہیں تھی۔ دور دراز سے امراء کبراء، نوابوں، زمینداروں، آفیسروں کے رشتے آرہے تھے۔ خود راجہ صاحب اس کو اپنی بہو بنانا چاہتے تھے۔ مگر گماشتہ صاحب دولت اقتدار اور شہرت کی چمک دمک سے بے نیاز تھے انہیں بس ایک انمول ہیرے کی تلاش تھی۔
ادھر عبدالرحمن کے چھوٹے بھائی عالمیت و فضیلت کی تعلیم مکمل کرکے گاؤں لوٹے، سرخ و سپید لمبا تڑنگا لڑکا۔ چہرے پر سیاہ گھنی داڑھی، کالی کالی سیاہ زلفیں، اس کے آنے سے گاؤں میں ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کوئی عبدالرحمن کو مبارک باد دینے جارہا تھا۔ کہ اللہ نے اس کے خاندان کو ایک عالم باعمل سے نوازا۔ جمعہ کادن آیا تو بستی والوں کا اصرار ہوا کہ عبدالرحیم صاحب خطبہ دیں گے اور نماز پڑھائیں گے۔ مولانا عبدالرحیم صاحب نے حمد و ثنا کے بعد سورۃ الضحی کی تلاوت کی اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے اپنے خاندان پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کا ذکر فرمایا تو آواز بھرا گئی، آنکھوں میں آنسو آگئے اور رونا شروع کیا توہچکی بندھ گئی۔ نماز کے بعد سب لوگ مسجد میں بیٹھ گئے۔ اور عبدالرحیم صاحب کی خبر خیریت معلوم کرنے لگے۔ جناب گماشتہ صاحب نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرایا ایک نوجوان عالم دین کی دولت سے آراستہ ہوکر بستی میں آچکا ہے اس کا یہاں نہ کوئی بھائی بند ہے، نہ خاندان وہ نومسلم ہے اور ہمارا مہمان ہے۔ اس نوجوان کو کون اپنی لڑکی دے گا؟ سوال سنتے ہی سب کے منہ پر مہر لگ گئی، محفل پر ایک سناٹا چھا گیا۔ ایسا لگا جیسے سبھوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ بستی کا ہر فرد جس کو رشک اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا اس سوال پر بغلیں جھانکنے لگا، نظریں چرانے لگا۔ فرار کاراستہ نہیں تھا ورنہ اٹھ کر بھاگ جاتا۔ آخر گماشتہ جی کی غیرت جوش ایمانی سے بے قابو ہوگئی۔ اور اعلان کردیا میری بچی اس نوجوان کے لیے حاضر ہے۔ دو آدمی میرے ساتھ چل کر بچی کی منظو ری لے آئیں اور عقد اسی وقت اسی مسجد میں ہوگا۔ منظوری آگئی امام صاحب نے اسی مسجد میںعقد پڑھادیا۔