قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے ایک انچ حرکت نہ کرسکے گا۔ جب تک کہ اس سے پانچ سوالوں کے جواب نہ طلب کرلیے جائیں۔ (۱) اس نے اپنی عمر کن کاموں میں کھپائی (۲) دین کے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ (۳) مال کہاں سے کمایا (۴) اسے کہاں پر خرچ کیا (۵) اپنے جسم کو کن کاموں میں گھلایا۔‘‘ یہ سوالات رب العزت نے پوشیدہ نہیں رکھے۔ بلکہ آپؐ کی معرفت آپؐ کی امت تک پہنچ چکے ہیں۔
لہٰذا طلب العلم کا فریضہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ یہ فریضہ غارِ حرا سے شروع ہوتا ہے جس میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں صحابہ کرامؓ نے علم و فضل میں کمال حاصل کیا، وہیں ام المومنین حضرت عائشہؓ رشد و ہدایت کا ایسا مرکز ثابت ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے تھے۔ حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر فصیح و بلیغ اور تیز فہم کوئی خطیب نہیں دیکھا۔ آپؐ کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں حضرت عائشہؓ کا کوئی حریف نہ تھا۔ ان محسنۂ امت کے بارے میں ارشاد رسول ہے۔ ’’آدھا دین حمیرا سے سیکھو۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم و تفقہ اور فہمِ قرآن و حدیث مردوں کی میراث نہیں ۔ صاحبِ فہم و ذکا ایک خاتون بھی ہوسکتی ہے۔
یہ زمانہ تعلیمی بیدار کا ہے۔ لڑکوں سے کہیں زیادہ لڑکیاں تعلیمی مدارج میں ترقی کررہی ہیں۔ بالغات میں بھی تعلیمی رجحان بڑھ رہا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم B.A., M.A.تک محدود نہیں ہے۔ ریسرچ فیلڈ میں بھی قابل ذکر اضافہ ہورہا ہے۔ یہ پسندیدہ صورتحال ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے جیسے کوئی سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے۔‘‘
صد حیف کہ اتنی حقیر و بے مایہ زندگی کے لیے جسم و جان کی پوری قوت نچوڑ دی جاتی ہے۔ مگر ابدی زندگی و فکرِ آخرت پر ہماری توجہ کتنی ہے۔ آخرت کی لازوال نعمتوں اور دائمی فلاح کو نظر انداز کرکے بے وقعت و حقیر، عارضی زندگی کی طرف لپکنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ لیکن ہمارے شعور پر بے شعوری کی دھند چھا چکی ہے۔ عصری تعلیم کے لیے جسم و جان کی توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔ جبکہ دینی تعلیم کا دائرہ فرائض تک محدود ہوجاتا ہے۔ جبھی تو بڑی بڑی ڈگریوں اور بڑے بڑے پوسٹ پر فائز مسلمان، نہ مسلمان پروفیسر ہوتے ہیں، نہ مسلمان انجینئر، نہ مسلمان ڈاکٹر ہوتے ہیں، نہ کرنل۔ جبھی تو یہ روایتی مسلمان دین کو پرائیویٹ معاملہ سمجھ کر ہر شعبۂ زندگی سے مذہب کو خارج کردیتے ہیں۔ جو صوم و صلوٰۃ و مسجد و مصلیٰ تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔
سمندر کے چند قطروں پر (دنیا) ریسرچ کرکے، اپنے ذہن و دماغ کی بہترین توانائیاں صرف کرکے دماغ سوزی کرتا ہے جن کا حاصل اس حیات مستعار کے چند لمحے، چند ماہ یا چند سال ہیں۔ مگر جب سمندر کے یہ قطرے ختم ہوجائیں گے تو اسے لامحالہ آخرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن سمندر کی لہروں کو زیر کرنے والے، فضاؤں کے سینے پر سواری کرنے والے اور دنیا میں سائنسی وتکنیکی علوم میں ڈوبے رہنے والے یہ سارے لوگ آخرت کے احساس کے بغیر اس دن ہمیشہ کے لیے ناکام ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ اسکالر آخرت کی حقیقت سمجھنے کے بجائے، صرف دنیا کو ہی حاصل حیات سمجھنے کی فاش غلطی کر بیٹھا تھا۔ پھر فرشتۂ اجل سے بہ زبانِ حال کہے گا: ’’کاش مجھے تھوڑی سی مہلت اور مل جاتی، تو میں خدا کا شکر گزار بندہ بن جاتا۔‘‘ یہ ندامت یہ شرمندگی، یہ پچھتاوا، ان کا مقدر بنے گی۔ جن کے پاس ڈگریوں کے انبار تھے۔ کل باری تعالیٰ ہم سے ہماری ڈگری، ہماری سند کا طالب نہیں ہوگا بلکہ وہ ہر ایک سے استفسار کرے گا۔ جو علم تمھیں حاصل تھا، اس پر کتنا عمل کیا۔ ایسا علم جو انسان کو صرف خدا کا بندہ بنائے۔
یہ مقدس قرآن جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کردیا۔ قرآن ہی کی بدولت ان کی زندگیاں اعلیٰ سیرت و کردار کی حامل بن گئیں۔ حتی کہ ۳۱۳ بدری صحابیوں نے اسی قرآنی قوت کے سبب، باطل طاقت سے ٹکر لی، اور عرب کے وسیع خطے پر اللہ کا دین غالب آگیا۔ آخر امتِ مسلمہ بھی تو حاملِ قرآن ہے؟ اس کی سیرت و کردار میں یہ انقلاب رونما کیوں نہیں ہوگا۔ کہیں امتِ مسلمہ اس حدیث کے مصداق تو نہیں بنتی جارہی ہے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ قرآن سے بہت سے لوگوں کے مرتبے بلند کرتا ہے۔ اور اسی سے دوسروں کو پستی میں گرا دیتا ہے۔‘‘