موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ایک ابدی نیند جو روزِ قیامت ہی اللہ کے حکم سے کھلے گی۔ روزِ قیامت جس دن ہمارے اچھے برے اعمال کاحساب ہوگا۔
یوم یقوم الحساب۔
’’جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘
عمر کے ہر مرحلے میں موت کے بارے میں ہمارے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ بچپن، جومعصوم ہوتا ہے، موت اور اس کی حقیقت سے انجان معصوم اٹکھیلیوں میں مصروف ہوتا ہے۔ لیکن جب موت کی حقیقت انسان کو اچانک معلوم ہوتی ہے، کسی اپنے کو آخرت کے سفر پر رخصت کرنے کا وقت آتا ہے تو اس قدر خوف زدہ، حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ اس حقیقت کو کئی دنوں تک بھلا نہیں پاتا اور آئندہ کے لیے اپنے آپ کو ہر برائی اور گناہ سے بچاتا ہے۔ چغلی، چوری سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے ہر جگہ موجود ہے اس بات کو اس قدر ذہین نشین کرلیتا ہے کہ برائیوں سے خود بھی دور رہتا ہے اور دوسروں کو بھی دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
لا ابالی بچپن تمام فکروں سے آزاد ہوتا ہے جبکہ ضعیفی سوچ کر عمل کرنے اور زندگی بھر کیے گئے برے اعمال سے توبہ کرنے اور معافی مانگنے کا دور ہے۔ جوانی امنگ، حوصلہ، کچھ کر گذرنے کی چاہ، نڈر پن، کل کی پرواہ نہ کرنے اور آسمانوں کو چھونے اور اسے قدموں میں جھکانے کی ہمت رکھنے کا دور ہوتا ہے۔ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی موت اور اس کی حقیقت سے منہ موڑ لیتا ہے۔ صغیرہ و کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہونے کا دور – بچپن کی وہ تمام باتیں جنھیں اس نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا، دماغ سے محو کردیتا ہے۔ بچپن میں بزرگ بتایا کرتے ہیں کہ ’’موت سب کو آئے گی، کوئی امتیاز کیے بغیر کسی کا لحاظ کیے بغیر۔ انسان کا آخری گھر اور آخری ٹھکانا قبر ہے جس میں اسے روزِ قیامت تک پناہ گزیں ہونا ہے۔ ہمارے دائیں کندھے پر نیکی لکھنے والا اور بائیں کندھے پر گناہ لکھنے والا فرشتہ ہر وقت موجود رہتا ہے جوں ہی ہم نیک عمل کرتے ہیں وہ ہماری نیکی درج کرلیتا ہے اور گناہ کریں تو وہ بھی درج ہوجاتے ہیں۔ ہمارا مکمل حساب کتاب ہرگھڑی، ہر پل کا ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ روزِ قیامت انہی نیکیوں اور بدیوں سے ہمارا حساب ہوگا۔ ہمیں جنتی اور دوزخی بنانے والی یہی نیکیاں اور گناہ ہوںگے۔ جیسے ہی ہمیں قبر میں دفن کیا جائے گا اور لوگ پیچھے ہٹیں گے، ہم سے سوال و جواب کا دور شروع ہوگا۔
اگر ہمیں قبر میں ہی نہ جانا پڑے تو؟ لیکن یہ کس طرح ممکن ہوگا؟ نیکو کار لوگوں کا گھر جنت ہوگا اور گناہ گاروں کو دوزخ کا ایندھن بننا ہوگا۔ اللہ سبحان تعالیٰ ذرہ سے بھی سوال و جواب کرسکتا ہے۔ قبر کے عذاب اور قیامت کے دن سے خوف زدہ ہونے اور خدائے برتر کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے نیک عمل کرنا ضروری ہے۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ انسان فانی ہے ہر انسان یہ بات جانتا سمجھتا ہے لیکن اسے نظر انداز کردیتا ہے۔ ہر وہ چیز جو فانی ہے وہ جمع کرتا ہے۔ عشرت کدے تعمیر کرتا ہے۔ مضبوط عمارتیں، فرنیچر، سونا، زیور، گاڑیاں، مہنگا سازو سامان جمع کرنے کی اس کی ہوس، زمین جائداد بنانے کی چاہ، خوب سے خوب تر اور زیادہ سے اور زیاہ کی اس کی ہوس کسی دور اور کسی ماحول و حالات میں بھی کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ غورکیجیے کہ اس فانی دنیا کہ فانی انسان کیا کچھ کررہے ہیں۔
اشرف المخلوقات، انسان کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ موت برحق ہے۔ گناہوں سے بچنے اور موت کے بعد کی زندگی سہل اور آسان کرنے کے لیے ہم کیا کرتے ہیں؟ گھر میں چھوٹے سے پروگرام کی شادی بیاہ کی تیاریاں تو کئی دنوں تک اور رات دن ایک کرکے بڑی تندہی سے کی جاتی ہیں۔ روز قیامت کے لیے ہم کیا تیاری کررہے ہیں؟
آج معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہم دیکھیں گے کہ بہت کم لوگ ہوں گے جو آخرت کی تیاریوں میں مصروف نظر آئیں گے۔ عام لوگ یا یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ تقریباً لوگ جب کسی کی میت میں شرکت کرتے ہیں تو بے خبری کے اس عالم سے اپنے آپ کو بیدار پاتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ ہمارا بھی یہی انجام ہونا ہے۔ آخرت کے لیے نیکیوں کا توشہ ہمیں بھی تیار کرلینا چاہیے۔ لیکن چند روز گذر جانے کے بعد دوبارہ دنیاوی کاموں کے مصروفیت اپنے آپ سے کیا ہوا عہد بھلا دیتی ہے۔ اس بات کو قطعی طور پر بھول جاتے ہیں کہ ہماری طے شدہ موت کبھی بھی، کہیں بھی، کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ اس کے لیے نیک اعمال کے ساتھ ہمیں تیار رہنا چاہیے۔
اذا جا اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون۔
’’ جب ان کی موت آئے گی تو ایک گھڑی کا پیچھا آگا نہیں کرسکتے۔‘‘
یعنی موت آئے گی تو ایک کھڑی کی بھی تاخیر نہیں ہوسکتی۔اس لیے آخرت کی تیاری ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔
تیاری:
آخرت کی تیاری کے لیے سب سے پہلے ہمارا رشتہ ہمارے پروردگار سے مضبوط ہونا چاہیے۔ اس کا وسیلہ نماز ہے۔ نماز کے ذریعہ ہم اپنے رب سے بات کرتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں۔ اس کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس عمل سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ نماز کے ساتھ ساتھ دوسرے ارکان ہر مسلمان پر فرض ہیں۔ جس سے ہماری آخرت سنور سکتی ہے۔ نیک اعمال کا ہونا لازمی ہے۔ فرض چیزیں تو ضروری ہی ہیں چھوٹی چھوٹی نیکیاں بھی آخرت میں ہمارے کام آئیں گی۔ ضعیفوں، کمزوروں، بے بسوں، بے کسوں، مجبوروں، یتیموں سے ہمدردی، جانوروں سے رحم دلی، بڑوں کی عزت، بزرگوں اور بچوں سے شفقت بھی نیکیوں میں شامل ہے۔ انسانیت کا جذبہ ہونا، دوسروں کے دکھ درد اور مصائب میں مدد دینا بھی نیک عمل ہے۔
ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔
’’اللہ نیکی کرنے والوں کے عملوں کو اکارت جانے نہیں دیتا۔‘‘
آخرت کی تیاری کے لیے نیک عمل کریں، صرف اسی بات کو مدِّ نظر رکھ کر نیکی کا راستہ اپنائیں کہ اللہ کی مرضی اور اس کی خوشنودی حاصل ہوجائے جس سے ہم اس کے انعام و اکرام کے سزاوار ہوں اور اس کی ناراضگی سے محفوظ ہوں۔ یہ ضروری ہے لیکن انسان ہونے کے ناطے اور انسانیت کی خاطر بھی ہمیں نیک عمل کرنے ہوں گے اور خدائے برتر کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہمیں جنت میں داخلہ اور خدا کے گھر سرخرو ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔
ان ربی علی صراط مستقیم۔
’’بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ملتا ہے۔‘‘
نیک عمل اور سیدھے اور سچائی والے راستے پر چلنا ہی آخرت سنوارنا ہے۔ اس کے باوجود بھی جانے انجانے اور کبھی کبھار جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے بھی ہم سے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور گناہوں کے بخشش کی دعا بھی۔
ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یقوم الحساب۔
’’اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اورسب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘