وقاص نے گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ آفس بوائے دوڑتا ہوا آیا۔ ’’فون ہے آپ کا۔‘‘
’’ دیکھ تو رہے ہو کہ میں جارہا ہوں۔ کہہ نہیں سکتے تھے۔‘‘
’’جی کسی لڑکی کا فون ہے۔‘‘
’’تمہارا خیال ہے لڑکی کے فون کا سن کر میں سر کے بل دوڑا ہوا جاؤں گا۔ کہہ دو گھر چلے گئے ہیں۔‘‘
’’لڑکی بہت رو رہی ہے جی۔ مشکل سے بات کررہی تھی۔ آپ سن لیتے تو اچھا تھا۔‘‘
وقاص نے انجن بند کیا۔ زور سے دروازہ پٹخا اور قدرے جھنجھلاتے ہوئے انداز میں اندر گئے۔ بے دلی سے فون اٹھایا اور درشت لہجے میں بولے: ’’کیا بات ہے بھئی! ہوسپٹل کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ آپ شام کو میرے پرائیویٹ کلینک پر فون کرلیجیے گا۔‘‘
آنسوؤں سے بھیگی ہوئی مدھم سی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں بے وقت زحمت دینے پر شرمندہ ہوں مگر پتہ نہیں دادا جان کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ کسی بات کا جواب ہی نہیں دیتے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا سوائے اس کے کہ آپ کو فون کروں۔ میں کیا کروں؟‘‘ وہ پھر سسکنے لگی۔ وقاص کو جیسے کرنٹ سا لگا۔
’’میں فوراً آرہا ہوں گھبراؤ نہیں۔‘‘
انھوں نے رسیور کریڈیل پر رکھا اور دوڑتے قدموں سے گاڑی کی طرف لپکے۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح سمن آباد کی طرف جارہے تھے۔ بریکیں چیخ چیخ کر احتجاج کررہی تھیں، عاشی غضنفر صاحب کے پلنگ کی پٹی پر بیٹھی ان کی ہتھیلیاں مل رہی تھی وہ غضنفر صاحب پر جھک گئے۔ سانس دشواری سے لے رہے تھے۔ نبض کی رفتار بہت مدھم اور سست تھی وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے۔ وقاص نے فوراً ہسپتال ایمبولینس کے لیے فون کیا ’’ان کو کیا ہوگیا ہے صبح تو اچھے خاصے تھے۔‘‘ عائشہ نہ بیقراری سے پوچھا۔
’’یہ تو اب مکمل چیک اپ کے بعد ہی پتہ چلے گا۔‘‘ وقاص نے آہستگی سے کہا۔
وہ اس سیدھی سادھی بے یارومددگار لڑکی کو کیا بتاتے کے اس کے دادا کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ اسے کس طرح بتاتے کہ ان کی زندگی کی امید بس اتنی ہے جتنی کسی کو آندھی میں جلتے چراغ سے ہوسکتی ہے۔ وہ کیسے اسے مایوسی اور دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل سکتے تھے۔
’’میرے دادا جان ٹھیک ہوجائیں گے نا؟‘‘ وقاص نے عاشی کی طرف دیکھا وہ مجسم سوال بنی ان کی طرف دیکھ رہی تھی اسے ان پر اتنا بھروسہ تھا کہ انہیں دیکھتے ہی اس کے آنسو خشک ہوگئے تھے اور امید کی جوت ان میں جل اٹھی تھی۔ اب وہ آگئے تھے اور اس کے دادا جان کو اب کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ’’اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے دعا کرو۔‘‘
عاشی نے معصومیت سے کہا : ’’اب آپ آگئے ہیں نا تو مجھے لگتا ہے کہ میرے دادا جان محفوظ ہوگئے ہیں، انہیں اب کچھ نہیں ہوگا ہیں نا۔‘‘
’’میں ڈاکٹر ہوں نعوذ باللہ خدا نہیں ہوں، زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’آپ موت کاذکر کیوں کررہے ہیں۔ ایسی باتیں کرکے مجھے مایوس نہ کریں۔ مجھے امید دلائیے۔ اسی امید پر میری زندگی کا انحصار ہے۔‘‘
وہ جواب دینے کی بجائے پھر سے غضنفر صاحب کا معائنہ کرنے لگے۔ ایمبولینس آگئی عائشہ نے جلدی سے برقعہ پہنا اور وقاص کے ساتھ باہر آگئی۔
’’تم اگر گھر میں رہتیں تو بہتر تھا۔ اماں بی اور فریدہ راشدہ یہیں آجاتیں۔‘‘
’’نہیں میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔ وعدہ کرتی ہوں کہ میں آپ کو ذرا بھی پریشان نہیں کروں گی۔ جیسے آپ کہیں گے ویسے ہی کروں گی ایک کونے میں کھڑی رہوں گی اور جیسے ہی دادا جان کو ہوش آئے گا گھر آجاؤں گی۔‘‘
انھوں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ ہسپتال پہنچتے ہی وقاص نے ابا میاں کو فون کرکے ساری سچویشن سمجھائی، تھوڑی دیر بعد وہ سب ہسپتال پہنچ گئے اور بمشکل سمجھا بجھا کر عاشی کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔
غضنفر صاحب کی حالت میں بہتری کے کوئی آثار پیدا نہ ہوسکے، متعلقہ ڈاکٹروں نے جان توڑ کوشش کے بعد مایوسی کا اظہار کردیا اور آخر فجر کے وقت وہ اسی بے ہوشی کے عالم میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وقاص دن بھر کے فاقے اور رات بھر کے جاگنے اور پریشانی سے بری طرح نڈھال ہوچکے تھے۔ مرنے والے کے صدمے اورر ہ جانے والی کی فکر نے انہیں اور زیادہ نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انھوں نے غضنفر صاحب کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ دن بھر کا تھکا ہوا مسافر گہری پرسکون نیند میں ڈوب گیا تھا۔ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ باتوں کی پھلجڑیاں چھوڑنے والے لب خاموش تھے۔ ہر فکر سے بے نیاز ہر بوجھ سے آزاد وہ سو رہے تھے۔ وقاص نے چہرہ چادر سے ڈھک دیا اور خود باہر نکل آئے۔ آسمان کے مشرق میں سرخ الاؤ روشن تھا۔ ستارے بے نور ہوتے جارہے تھے۔ نیم تاریکی میں لپٹے ہوئے درخت خاموشی سے سر نیہواڑے کھڑے تھے۔ فضا میں خنکی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ عاشی کو یہ منحوس خبر کیوں کر سنائیں گے۔ کسی کو یہ بتانا آسان تو نہیں کہ تمہارے سر سے آسمان ہٹ گیا ہے اور تمہارے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ہے تم اپنا واحد سہارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم کرچکی ہو۔ اس بھری دنیا میں تم تنہا رہ گئی ہو۔ تمہارا مستقبل کہیں اندھیروں میں کھو گیا ہے وہ جو تم کو اپنے سے دور کرنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے تمہیں چھوڑ کر بہت دور چلے گئے ہیں کسی انجانی دنیا میں۔
اماں بی اور ابا میاں نمازِ فجر سے فارغ ہوکر وقاص کے ہی انتظار میں بیٹھے تھے۔ رات بھر کی جاگی ہوئی عاشی کی ابھی ابھی آنکھ لگی تھی۔ وقاص کی صورت دیکھتے ہی دونوں سمجھ گئے کہ کیا سانحہ ہوگیا ہے۔ ابا میاں نے یہی فیصلہ کیا کہ ان کا دوست انہی کے گھر سے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے رخصت ہوگا۔ ابا میاں انتظامات میں لگ گئے۔ وقاص اپنے کمرے میں چلے گئے۔ نہا کر کپڑے بدلے ناشتہ کیا اور گھڑی دو گھڑی کے لیے بستر پر جو لیٹے تو ایسی گہری نیند آئی کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ انہیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا جارہا تھا۔
’’بھائی جان اٹھئے تو، عاشی بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘
بمشکل آنکھ کھلی مگر ذہن ابھی تک سویا ہوا تھا۔
’’کمال کے آدمی ہیں آپ بھی گھر میں جنازہ آچکا ہے اور آپ ایسے مست ہوکر سورہے ہیں۔ عاشی کو تو چل کر دیکھئے۔ اپنے دادا کی میت دیکھ کر پہلے تو اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر وہ بے ہوش ہوگئی۔‘‘
ایک جھٹکے کے ساتھ وہ اٹھ کھڑے ہوئے انہیں سب کچھ یاد آگیا۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
’’اماں بی کے کمرے میں۔‘‘
اماں بی کے بستر پر وہ بے سدھ پڑی تھی۔ تکیہ پر لانبے سیاہ بل بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ چہرہ سرسوں کے پھول کی طرح زرد تھا۔ ہونٹ بری طرح باہم پیوست تھے۔ پلکیں گالوں پر سایہ فگن تھیں اس کی نبض ان کی حساس انگلیوں کے پوروں میں دھڑک رہی تھی انھوں نے اس کے سر کے نیچے سے تکیہ نکال دیا۔’’تھوڑا سا گرم دودھ گلوکوز ڈال کر لاؤ، لباس ڈھیلا کرو، کمبل اوڑھا دو۔ جسم گرم کرنے کی کوشش کرو۔‘‘
تھوڑی دیر بعد عاشی نے آنکھیں کھول دیں۔ وحشی ہرنی کی طرح چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ پھر اس کی نظریں وقاص کے چہرے پر جم گئیں اس نے بمشکل مدھم آواز میں کہا :’’مجھے آپ پر کتنا بھروسہ تھا مگر آپ نے بھی دھوکہ دیا۔‘‘ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’لیٹی رہو۔‘‘ انھوں نے نرمی سے کہا اور عاشی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ ان کے گرم اور مضبوط ہاتھوں میں عاشی کے ٹھنڈے اور کمزور ہاتھوں کو بے حد تحفظ اور راحت کا احسا س ہورہا تھا۔ جیسے سمندر میں ڈوبتے ہوئے شخص کو سہارا مل جائے مگر وہ جانتی تھی کہ یہ وقتی اور عارضی سہارا ہے۔ ’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ انھوں نے ملائمت سے پوچھا۔ وہ کسمسائی اور ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ وہ دھیرے سے مسکرائے۔ ’’گھبراؤ نہیں ابھی ہاتھ چھوڑدوں گا۔‘‘
وہ تو مجھے معلوم ہی ہے عاشی نے سوچا۔ کون کسی کا ہاتھ تھامتا ہے۔ ہاتھ تھامنے والے تو چلے گئے اور اس کی خشک آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ ابل پڑا۔ بے آواز آنسو بہے چلے جارہے تھے۔ عاشی کے ہاتھ آہستہ آہستہ گرم ہورہے تھے۔ اور نبض نارمل ہوتی جارہی تھی۔ وقاص کو قدرے اطمینان ہوا۔
’’لو اب جلدی سے یہ سارا دودھ پی لو۔‘‘
’’میرا جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’جی چاہے یا نہ چاہے یہ دودھ تو پینا ہوگا۔ فریدہ تم سہارا دے کر بٹھاؤ۔‘‘
’’میں نے کبھی دودھ نہیں پیا۔‘‘
’’بہرحال اب آج تو پینا ہوگا۔ میرا حکم سمجھ کر۔‘‘ اور اس نے خاموشی سے پوری پیالی پی لی۔ حکم جو تھا اور حکم سے سرتابی کرنا اس نے سیکھی نہ تھی۔
’’تم تو بہت بہادر لڑکی ہو۔ میں تو تمہیں حوصلے اور ہمت کی ایک چٹان سمجھتا تھا۔ یہ کیا ہوا کہ ایک ہی ریلے میں زمین بوس ہوگئیں ابھی تو زندگی میں بہت سے طوفان آئیں گے۔ سختی اور آزمائش کے کئی مرحلے آئیں گے۔ یہ کوئی خلاف توقع بات تو نہ تھی۔ آخر ایک دن تو ان کو جدا ہونا ہی تھا۔ سدا کون رہا ہے۔ وہ مسلسل تمہیں اس گھڑی کے لیے تیار کررہے تھے۔ بس اتنا ہے کہ ذرا جلدی چلے گئے۔ کئی کام ادھورے چھوڑ کر۔‘‘ عاشی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
’’فی الحال تم کچھ اور نہ سوچو، چچا جان بے شک جدا ہوگئے ہیں، مگر اللہ تو ہے۔ وہی تمہارا نگہبان ہوگا، حفاظت کرے گا۔ تمہارے سب کام سنوارے گا۔ ابا میاں اور اماںبی ہیں ان کے پاس محبت اور شفقت کی کوئی کمی نہیں۔ فریدہ اور راشدہ کے ساتھ تمہیں بھی شریک کرلیں گے تم اتنی بے سہارا بھی نہیں ہو جتنی سمجھ بیٹھی ہو۔‘‘
’’آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ میں بالکل بے سہارا ہوں۔ اتنی بڑی دنیامیں دو قدم چلنا بھی میرے لیے مشکل ہے۔ دادا جان کے بغیر میں بالکل اپاہج ہوں وہ میری بیساکھی تھے ان کے بغیر اتنا لمبا سفر کیسے طے ہوگا۔ میں تو ایک بہت ہی بزدل کمزور اور ڈرپوک لڑکی ہوں، میں تو اندھیرے کمرے میں بھی اکیلے جاتے ہوئے ڈرتی ہوں۔ ہائے اللہ جی میرا اب کیا ہوگا۔ کاش اللہ میاں مجھے بھی دادا جان کی طرح اپنے پاس بلالیں میں اب اور جینا نہیں چاہتی۔‘‘ وہ بلبلا بلبلا کر رو رہی تھی۔ اماں بی نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا اور چمکارنے لگیں۔
’’ایسی باتیں نہیں کرتے میری بچی۔ صبر اور حوصلے سے کام لے۔ مرنے والے کے ساتھ آج تک کوئی نہیں مرا۔ جب تک ہم دونوں زندہ ہیں تو اسی گھر میں رہے گی۔ ہمارے لیے کسی صورت بھی تو راشدہ اور فریدہ اور زاہدہ سے کم نہیں ہے۔‘‘
وقاص اٹھ کر باہر چلے گئے، عاشی کی حالت دیکھ کر ان کو بھی تکلیف ہورہی تھی مگر وہ مجبور تھے۔ اس کے حالات بدلنا ان کے اختیار کی بات نہیں تھی۔
چار بجے جنازہ اٹھا اور گھر میں سناٹا چھا گیا۔ عاشی کمرے میں بند سار دن روتی رہتی تھی۔ عاشی کے گھر کا سارا سامان ایک کمرے میں بند کرکے تالا ڈال دیا گیا تھا اور گھر کرایہ پر چڑھا دیا گیا تھا۔ جب تک عاشی کے مقدر کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اس کو یہیں رہنا تھا۔
تین ماہ اسی طرح گذر گئے۔ عاشی نئے حالات سے آہستہ آہستہ سمجھوتہ کررہی تھی پہلے سے خاصی سنبھل گئی تھی۔ اماں بی اور ابا میاں کی اجازت سے اس نے اپنی تعلیم کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو پھر سے جوڑلیا تھا اور باقاعدگی سے کالج جانا شروع کردیا تھا۔ وہاں کے ماحول میں اس کا دل بہلا رہتا تھا۔ دن تو کسی نہ کسی طور گذر جاتا تھا مگر رات کی تنہائیوں میں وہ اپنے خیالات کی بھول بھلیوں میں چکراتی رہتی تھی۔ کوئی راستہ نکلنے کا سجھائی نہ دیتا تھا۔ جس شخص کو اپنا مسیحا سمجھا تھا وہ تو ایسا بیگانہ نکلا کہ دادا جان کا جنازہ اٹھنے کے بعد ایک بار بھی پلٹ کر نہ پوچھا کہ کس حال میں ہو۔ اسے جیسے خبر ہی نہ تھی کہ گھر کے مکینوں میں ایک اور کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اسے ایک فی صد بھی امید نہ تھی کہ وہ اس کی انگلی پکڑ کر اسے زندگی کے اس پل صراط سے گذار دے گا۔ پھر آخر اس کے لیے اور کونسا راستہ تھا۔ ساری زندگی تو اس بیگانے کے گھر نہیں گزاری جاسکتی تھی۔ بالفرض ابا میاں اور اماں بی کو کچھ ہوگیا تو وہ پوری جان سے کانپ اٹھی۔پھر کیا کرے؟ کیا ڈاکٹر فرید کا پیغام قبول کرلے؟ ان کے گھر والے کئی چکر کاٹ چکے تھے۔ اس کی پروفیسر نے بھی دوبارہ اپنے بھائی کے لیے کہلوایا تھا۔ اماں بی نے شروع میں تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ لڑکی کی حالت کے پیشِ نظر وہ فی الحال اس قسم کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتیں مگر آخر کب تک۔ آخر ایک دن تو یہ ذکر چھڑنا تھا اور اسے بہر حال کوئی فیصلہ دینا تھا۔ آخر وہ گھڑی آگئی جس کا اسے خدشہ تھا۔ ایک دن اماں بی نے یہ تذکرہ چھیڑ ہی دیا۔
’’بی بی تمہارے دادا ابا کی مرضی تھی کہ وہ جلد از جلد تمہیں اپنے گھر بار کا کردیں۔ ان کو اللہ میاں نے موقع نہ دیا۔ اب یہ ذمہ داری ہماری ہے۔ ڈاکٹر فرید کے گھر والے بہت زور دے رہے ہیں، اب جو تمہاری مرضی ہو وہ بتادو۔‘‘
’’میری اپنی مرضی کیا ہوسکتی ہے اماں بی۔ آپ میری بڑی ہیں۔ ماں کی جگہ ہیں۔ آپ کا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے۔ دادا جان کے بعد آپ کی تابع ہوں۔ باقی رہی ڈاکٹر فرید کی بات تو یہ معاملہ دادا جان نے ڈاکٹر وقاص کے سپرد کیا تھا کہ وہ مکمل تحقیقات کرکے جو رائے دیں گے اسی پر عمل کیا جائے گا۔ آپ ان سے پوچھ لیں۔‘‘
’’اچھا یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔ میں وقاص سے بات کروں گی۔ تم کچھ اپنی مرضی بھی بتادو۔‘‘
میری صحیح مرضی آپ پوچھیں تو میں سرے سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتی۔ میں ایم اے کرکے کہیں لیکچراربننا چاہتی ہوں۔ اگر آپ سب کی یہی مرضی ہو تو ورنہ جیسے آپ حکم دیں میں کروں گی۔‘‘
اماں بی نے وقاص سے بات کی تو وہ حیران رہ گئے۔ کمال ہے پھر سے مجھے اس معاملے میں الجھا رہی ہے۔ حالانکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے اپنی تحقیقات کے نتیجے سے آگاہ کردیا تھا اور ان کی کیا مرضی تھی وہ بھی اسے معلوم ہے۔ خود اپنی پسند سے بھی آگاہ ہے۔ پھر اب اس نئے چکر کا کیا مطلب ہے۔ کیا وہ خود اپنی پسند کے شخص کا نام بتانے کی ہمت نہیں پاتی۔ میرے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ میں خواہ مخواہ میں اس کا رازداں جو بن بیٹھا ہوں یا پھر اس نے وقعی ڈاکٹر فرید سے شادی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ خاموشی سے سوچ رہے تھے۔
’’چپ کیوں ہو بیٹا؟ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘
’’میں معلومات کرکے آپ کو بتادوں گا اور بھی چند رشتوں کا ذکر غضنفر صاحب نے کیا تھا۔ شاید وہ لوگ بھی رجوع کریں۔ بہر حال فیصلہ لڑکی خود کرے گی۔ ہم اپنا کوئی فیصلہ اس پر نہیں تھوپیں گے آپ سمجھ گئیں نا۔ جہاں وہ چاہے گی وہیں اس کی شادی ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے یہ زندگی کا بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہے اسے خود ہی کرنا چاہیے۔ ہم فیصلہ کرنے میں اس کی مدد تو کرسکتے ہیں مگر زبردستی نہیں۔‘‘
وہ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ اماں بی کے دل کی بات دل میں رہ گئی۔ ان کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ وہ ان سے کہہ سکتیں کہ یہ چاند جو ان کے آنگن میں عاشی کی صورت میں اترا ہے اگر یہیں جگمگاتا رہتا تو کیسی اچھی بات ہوتی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم اپنی روشنی سے دوسروں کے گھر اجال دیں۔ بھلا تم سے بڑھ کر اور کون اس انمول خزانے کا مستحق ہوسکتا ہے مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔
برکھا رت کا ایک بے حد خوبصورت اور دل آویز دن تھا۔ اودی اودی گھٹائیں برسنے کے لیے تلی کھڑی تھیں۔ پروا چل رہی تھی۔ درخت اور پودے جھوم رہے تھے۔ ہر طرف گہرے گہرے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ وقاص سر جیکل وارڈ کا راؤنڈ لگا کر ابھی ابھی لوٹے تھے قریبی عزیزوں میں کوئی تقریب تھی۔ سارا گھر وہیں گیا ہوا تھا۔ وہ گھاس پر بچھی ایک کرسی پر نیم دارز ہوگئے اور کوٹ بے پرواہی سے گھاس پر پھینک دیا۔
جب سے عائشہ ان کے گھر آئی تھی وہ ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ آمنا سامنا نہ ہو۔ وہ خود بھی کم ہی کمرے سے باہر نکلتی تھی۔ اتوار بھی وہ ادھر ادھر گھوم گھام کر گزار دیتے تھے۔ یہ بھی قدرت کی عجب ستم ظریفی تھی کہ جس آگ سے بچنے کے وہ جتن کرتے رہتے تھے وہ ان کے دامن کے بالکل قریب آگئی تھی۔ اسے دیکھ کر اسے اپنانے کی خواہش ان کے سینے کی جلن بن جاتی تھی اور یہ بات صرف وہ خود جانتے تھے اس لیے اس کے وجود سے ہی بے خبر رہنا چاہتے تھے اور آج یہی سوچ کر گھر آئے تھے کہ وہ بھی باقی اہل خانہ کے ساتھ گئی ہوگی اور وہ یہ خوشگوار دن پورے اطمینان سے گھر میں گزار دیں گے۔
قدموں کی چاپ ان کے کانوں میں اس طرح آئی جیسے درخت سے ایک ایک کرکے پتے گر رہے ہوں۔ جیسے کلیاں ایک کے بعد ایک چٹکتی چلی جارہی ہوں۔ انھوں نے آنکھیں نیم وا کیں۔ سبز گھاس پر موتیے کے پھولوں جیسے پاؤں دھرے تھے۔ دو ہاتھ جھکے انھوں نے گھاس پر سے کوٹ اٹھایا جھٹکا اور دوسری کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔
’’آپ نہیں گئیں؟‘‘
’’یہ تم سے آپ کیوں؟ نہ میں اتنی محترم ہوں اور نہ محض تم کہہ لینے سے بیگانگی کی برف ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔‘‘
انہیں یوں لگا جیسے کانچ کی گھنٹیاں ہوا سے لرز رہی ہوں اور ان کا مدھر سنگیت فضا میں بکھر جائے تو ان کا یہ احساس غالباً موسم کے اثر سے تھا۔
’’اچھا جناب تم ہی سہی، کیوں نہیں گئیں؟‘‘
’’آپ کے خاندان کی تقریب تھی؟‘‘
’’تو کیا ہوا۔‘‘
’’بن بلائے چلی جاتی؟‘‘
’’اس میں حرج ہی کیا تھا؟ آخر پورے گھر کی دعوت تھی۔‘‘
’’بن بلائے تو انسان اللہ کے گھر بھی نہیں جاتا۔‘‘
’’تم بھی اسی گھر کا ایک فرد ہو اب۔‘‘
’’اچھا کیا واقعی؟‘‘
’’بالکل‘‘
’’اچھا! مجھے علم نہیں تھا۔‘‘
’’بیٹھو۔‘‘
’’نہیں میں آپ کی تنہائی میں مخل نہیں ہونا چاہتی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں اب آہی گئی ہو تو بیٹھ بھی جاؤ۔‘‘
وہ گھاس پر بیٹھ گئی۔
’’ادھر کرسی پر بیٹھو۔‘‘
’’ہم خاک نشینوںکے لیے فرش ہی ٹھیک ہے۔‘‘ وہ اپنے بسنتی دوپٹے کو حسبِ عادت اپنی انگلیوں پر لپیٹ اور کھول رہی تھی وقاص مسکرادئیے اور ذرا سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔
’’پہلے تو محترمہ یہ فرمائیے کہ یہ کیا سوانگ رچایا ہے کہ میں ڈاکٹر فرید کے بارے میں دوبارہ تحقیق کروں اور جو فیصلہ میں کروں گا وہ تمہیں منظور ہوگا۔‘‘
’’اس میں کیا غلط بات ہے۔ کیا دادا جان نے یہ کام آپ کے سپرد نہیں کیا تھا۔‘‘
’’میں نے بھی اپنی رپورٹ انہیں پیش کردی تھی۔‘‘
’’ہاں کردی تھی مگر میرا کیس ذرا بھی اچھی طرح آپ نہیں لڑسکے تھے۔ ڈاکٹر اچھے ہیں مگر وکیل اچھے نہیں حالانکہ میں نے آپ کو اپنی مرضی بتادی تھی۔‘‘
تو پھر اب دوبارہ اپنا کیس اسی خراب وکیل کے سپرد کیوں کررہی ہو؟‘‘
’’اس لیے کہ میری دسترس میں آپ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور تصویر کے دونوں رخ بھی آپ کے سامنے ہیں۔‘‘
’’معاف کیجیے گا محترمہ میں تو محض ایک رخ سے آگاہ ہوں دوسرے رخ پر کون حضرت تشریف فرما ہیں میں انہیں بخدا نہیں جانتا۔‘‘ وقاص نے ایک گہری نظر عائشہ پر ڈالی۔ اس کے گال تمتما اٹھے۔ بسنتی دوپٹے میں اس کے چہرے کی لالی نمایاں ہوگئی۔ وقاص نے قدرے افسردگی سے کہا۔
’’بولو بھئی کچھ اتہ پتہ دو۔ آخر وہ صاحب ایسی بے نیازی پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ آکر تمہیں مانگ کیوں نہیں لیتے۔ کس چیز کا انتظار ہے۔ معاملہ ایک طرف ہونا چاہیے۔ بے چارے فرید کا وزن گھٹتا جارہا ہے۔ کسی شریف آدمی کو یوں خواہ مخواہ لٹکائے رکھنا اچھی بات نہیں۔ سارا دن میرے آگے پیچھے پھرتا رہتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو پھر ہاں کردیجیے۔‘‘
وہ حیران رہ گئے۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولے۔
’’میں ہاں کردوں۔ میری شادی تو نہیں ہورہی۔ ہاں تو تمہیں کرنی ہے۔ واقعی تم بھی ایک معمہ ہی ہو، اس دن تو رو رو کر کہہ رہی تھی کہ فرید کا معاملہ ختم کرادیں۔ آپ کا احسان ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اور آج کس آسانی سے کہہ رہی ہو کہ ہاں کردیجیے۔ اس کا کیا ہوگا؟‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’اسی بدنصیب کا جو تمہیں پسند ہے۔‘‘
’’خدا نہ کرے کہ وہ بدنصیب ہو۔‘‘
’’بدنصیب ہی ہوا نا جو اس آسانی سے بھلا دیا گیا۔‘‘
’’وہ تو محض ایک بہانہ تھا۔ وہ وقت ٹالنے کے لیے آپ کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے۔ اس وقت میرا دادا جان کے پاس رہنا ہی مناسب تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔‘‘
’’تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اور کیوں بول رہی ہو اس کی وجہ میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ انتخاب کی پوری آزادی تمہیں حاصل ہے۔ پھر کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھاتیں۔‘‘
عاشی کچھ دیر خاموش رہی۔ جیسے سوچ رہی ہو کہ اسے کیا اور کتنا کہنا چاہیے۔
’’بات یہ ہے کہ وہ شخص جانتا تک نہیں کہ میرے دل میں اس کے لیے کیا احساسات ہیں۔ وہ ایک بے حس، سنگ دل اور بے درد انسان ہے۔ کسی پتھر کو پوجنے سے کیا حاصل، نہ وہ التجا سن سکتا ہے اور نہ کچھ دے سکتا ہے۔ پتھر زخم تو لگا سکتے ہیں مگر مرہم رکھنا نہیں جانتے۔ ڈاکٹر فرید کم از کم انسان تو ہوں گے نا۔‘‘
’’کمال ہے۔‘‘ وقاص نے جیسے خود سے کہا ’’تم نے اس پتھر تک اپنی بات پہنچائی تھی؟‘‘
’’میں ایک مشرقی لڑکی ہوں۔ آپ بھول نہ جائیے۔ ہم لوگ دل کی بات زبان پر نہیں لایا کرتے۔‘‘
’’تو پھر اس سے شکایت کیسی؟ جسے تم اتنا برا بھلا کہہ رہی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اتنا برا نہ ہو۔ اندر سے موم ہو۔ تم مجھے اس کا نام پتہ بتادو۔ اگر حرج نہ سمجھو تو۔ مجھے بھی ایک کوشش کرلینے دو۔‘‘
’’آپ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’توبہ توبہ تم مجھے ایسا سمجھتی ہو۔ تمہاری رسوائی اور میں چاہوں؟ میں تمہارا بے پناہ احترام کرتا ہوں کسی کو چاہنا کوئی گناہ تو نہیں ہے۔ تمہارا راز ہمیشہ میرے سینے میں دفن رہے گا۔ میں ان ڈائریکٹ طریقے سے کوشش کروں گا۔‘‘
عائشہ بے ساختہ ہنس پڑی۔ چاروں طرف جیسے چاندی کی گھنٹیاں بج اٹھی ہوں۔ انھوں نے حیران ہوکر عاشی کو دیکھا جس کی آنکھیں نجانے کیوں بھیگی جارہی تھیں۔‘‘ اس میں ہنسی کی کیا بات ہے۔‘‘
’’ایسے ہی اپنی تقدیر کی ستم ظریفی پر ہنسی آگئی تھی۔‘‘
اور وہ سوچ رہی تھی، عائشہ مظفر علی یہ تم کیسی عجیب اور دشوار سچویشن میں آپھنسی ہو۔ بولو یہاں سے دامن بچا کر کیسے نکلو گی۔
’’آخر آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جسے صرف میں پسند کرتی ہوں۔‘‘
’’تمہاری خوشی کی خاطر۔‘‘
’’اور بالفرض وہ صاحب مجھ سے نفرت کرتے ہوں۔‘‘
’’بلا وجہ ہی نفرت کرتے ہوں۔ آخر تم میں ایسی کیا بات ہے جو کوئی تمہیں ناپسند کرے۔ میرا تو خیال ہے کہ اس شخص کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے۔‘‘
’’یہ آپ کہہ رہے ہیں؟‘‘ عاشی نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے۔‘‘
’’ایسے ہی مجھے کوئی خیال آگیا تھا۔ اچھا چھوڑئیے اس قصے کو۔‘‘
’’تو گویا تم بتانا نہیں چاہتیں اور فرید سے شادی کرنے کو تیار ہو۔‘‘
’’میں تیار ہوں۔ یہ آپ سے کس نے کہا۔ میں تو فقط آپ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کررہی ہوں۔‘‘
’’یہ تم مجھے پاگل کیوں بنا رہی ہو۔ میں نے کب ایسا حکم دیا ہے۔ میں کون ہوتا ہوں تمہیں حکم دینے والا۔ یہ تمہارا خالص ذاتی معاملہ ہے۔ میری ہمدردی کا تمسخر اڑاتی ہو۔ میری بلا سے جس سے چاہو شادی کرو اور نہیں کرنا چاہتیں تو مت کرو۔‘‘ وہ بھڑک کر بولے اور اندر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عاشی کا چہرہ سفید پڑگیا۔
’’آپ تو ناراض ہی ہوگئے۔ اگر میری بات ناگوار گذری ہے تو معاف کردیجیے۔ میں بھلا آپ کی ہمدردی کا تمسخر اڑا سکتی ہوں۔ آپ کی ہمدردی تو میرے لیے متاعِ عزیز سے کم نہیں۔ خدا کے لیے مجھ سے ناراض نہ ہوں۔‘‘
’’بھئی میں کون ہوتا ہوں تم سے ناراض ہونے والا یا معاف کرنے والا۔ تمہارے معاملات سے میرا کیا تعلق۔ تم جانو یا ابا میاں اور اماں بی جانیں۔ خدا کے لیے میری جان چھوڑدو۔‘‘ انھوں نے اکل کھرے انداز میں کہا اور اندر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
سارا موڈ چوپٹ کردیا خوامخواہ ہی گھر آیا اس سے بہتر تھا کہ سڑکوں پر ہی جھک مارتا رہتا۔ پتہ نہیں یہ لڑکی خود کو کیا سمجھتی ہے۔ بے خبر، بے وقوف اور جذباتی سی۔ پتہ نہیں اس کو دیکھ کر میری حفاظتی دیوار میں دراڑیں سی کیوں پڑنے لگتی ہیں۔ وہ اصول کیوں ٹوٹتے محسوس ہونے لگتے ہیں جو میں نے بڑی احتیاط سے زندگی گزارنے کے لیے وضع کیے تھے۔ پتہ نہیں کب اور کیسے میرے دل میں اتر گئی اور وہاں دھرنا مار کر بیٹھ گئی ہے۔ اب کسی صورت نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ حالانکہ اس کے دل کا مکین کوئی اور ہے۔ خدا جانے کون کمبخت ہے۔ کیا میں اس سے حسد محسوس کررہا ہوں۔ میں جو اتنا پڑھا لکھا سمجھدار اور میچور آدمی ہوں۔ اصل میں میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس کی پسند کیسی ہے اس میں کون سے سرخاب کے پرلگے ہوئے ہیں۔ وہ نہ جانے کب سے کھڑکی کے سامنے کھڑے تھے۔
’’کھانا یہیں لے آؤں۔‘‘ وہی سوگوار سی آواز کمرے کی خاموشی میں سسکی کی طرح ابھری۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ عاشی کی آنکھیں رونے سے سرخ اور متورم ہورہی تھیں۔ اس نے ان کو کوٹ کرسی پر رکھ دیا۔
’’کیوں کیا آج بھی کوئی نوکر نہیں ہے۔‘‘
’’جی ہاں! میں تنہا ہی تو تھی۔ آپ کے بارے میں یہی خیال تھا کہ رات کو آئیں گے۔ مالی بابا ہے۔‘‘
’’میں باہر کھالوں گا۔‘‘
’’کیوں باہر کیوں کھا ئیں گے۔ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔ میں کھانا رکھ کر چلی جاؤں گی۔‘‘
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’میں کھانا گرم کرچکی ہوں اس کا کیا کروں۔؟‘‘
’’کسی فقیر کو دے دو۔‘‘
عاشی کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو مجھ سے اتنی شدید نفرت ہے۔ میں جلد ہی ہوسٹل چلی جاؤں گی۔‘‘
’’تو پھر مجھے کیوں سنا رہی ہو۔ میری وجہ سے تو یہاں نہیں رہ رہی ہو۔ یہ ابا میاں کاگھر ہے انہی کو بتانا۔‘‘
’’یہ آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی مرضی کے بغیر یہاں نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’میں نے کیا قصور کیا ہے جو تم میرے پیچھے پڑ گئی ہو۔‘‘
’’قصور تو میرا ہے جو میں نے اپنے دادا جان کی طرح آپ پر اعتماد کرلیا اور یہ سمجھ بیٹھی کہ شاید آپ کو مجھ سے کچھ ہمدردی ہوگی۔ مگر آپ کو تو جیسے میرے نام سے بھی چڑ ہے اور میرا وجود لمحے بھر کو بھی گوارا نہیں۔‘‘
’’پھر وہی بات۔ آخر تم نے یہ کیسے اندازہ لگالیا کہ مجھے تمہارے نام سے چڑ ہے۔ تم سے نفرت ہے۔ بغیر کسی وجہ کے ایک بیگانی اور اجنبی لڑکی سے بیٹھے بٹھائے میں کیوں نفرت کروں گا۔‘‘
’’کیا میں آپ کے لیے ایک اجنبی اور بیگانی لڑکی ہوں۔‘‘
’’تو کیا نہیں ہو؟‘‘ وقاص ذرا سا مسکرائے۔
’’ہوں گی ہی۔‘‘ عاشی نے ایک طویل سانس لیا۔ ’’ورنہ کیوں کہتے کہ خدا کے لیے میری جان چھوڑ دو۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آپ مجھے ذرا بھی اجنبی اور بیگانے نہیں لگتے۔‘‘
’’ذرہ نوازی ہے آپ کی۔ پھر بھی آپ نے مجھے اپنے راز میں شریک نہ کیا۔ نہ جانے اپنائیت اور بیگانگی کا فرق اور کیسے معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’شکر ہے آپ مسکرائے تو۔ اب تو ناراض نہیں ہیں نا۔‘‘
’’پتہ نہیں میری ناراضی کی تمہیں اتنی فکر کیوں ہے۔ ارے بھئی میں اگر ناراض بھی ہوجاؤں تو ایسا کونسا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔‘‘
’’یہی بات تو آپ نہیںجانتے ہیں۔ آسمان ہی تو ٹوٹ پڑے گا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’آپ کی ساری سمجھ تو آپریشن تھیٹر تک محدود ہے۔ جناب والا آخر میں انسان ہوں کبھی آپریشن کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔ اور آپ نے ناراضی کی وجہ سے انکار کردیا تو؟‘‘
’’تو اور وہ بے شمار ڈاکٹر ہیں۔ مجھ میں کوئی سرخاب کا پرتو نہیں لگا ہوا۔‘‘
’’اور اگر میں بھی دادا جان کی طرح آپ کو ہی اپنا مسیحا بنانے پر تل جاؤں تو۔‘‘
عاشی نے کبھی ان سے اتنی لمبی چوڑی باتیں نہیں کی تھیں اور باتیں بھی کچھ عجیب سی، ذو معنی سی۔ انھوں نے موضوع بدلا۔
’’تم روتی رہی ہو۔‘‘
’’کیوں کیا رونے کی اجازت بھی نہیں۔‘‘
’’کیوں روئی تھیں؟‘‘
’’کھانا لے آؤں ٹھنڈا ہورہا ہے۔‘‘
’’چلو کھانے کے کمرے میں وہیں کھالیں گے۔‘‘
کھانے کے بعد وقاص نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ کیوں روئی تھیں۔‘‘
’’جب واسطہ کسی پتھر سے ہو تو مقدر آنسو نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا۔‘‘ عاشی برتن اٹھا کر کمرے سے نکل گئی۔ وقاص وہیں واپس کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ اس جملے کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ کہیں یہ بے وقوف لڑکی کسی فریب نظر کا شکار تو نہیں ہوگئی۔ کہیں وہ سنگ دل پتھر اور بے درد میں تو نہیں ہوں۔ وہ گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔ اگر یہ میری خوش فہمی نہیں تو پھر یہ پگلی سراب کو آبِ حیات سمجھ بیٹھی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اتنی دور چلی جائے کہ اس کا لوٹنا مشکل ہوجائے اس کی زندگی کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ مگر میں بھی تو اسے اپنانا چاہتا ہوں۔ میری تو یہ آرزو ہے غلط … غلط۔ اپنی خوشیوں کی خاطر کسی کی زندگی برباد کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔ یہ صریحاً خود غرضی ہے۔ جو تمہیں زیب نہیں دیتی۔ جب وہ نئی زندگی شروع کرے گی تو سب کچھ بھول جائے گی۔ شکر کرے گی کہ ایک بھیانک غلطی کرنے سے بچ گئی۔ پچھلے سارے نقش مٹ جائیں گے۔ کم سنی کی جذباتی وابستگی، ٹین ایچ کرش، محض ہیرو ورشپ، ان جذبات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو پانی پر بنے ہوئے نقش ہیں کوئی پتھر کی لکیر نہیں کہ مٹ نہ سکیں۔ مجھے اس کے ان وقتی اور کچے جذبات سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اگر میں واقعی اسے چاہتا ہوں تو پھر اپنی ذات سے ہٹ کر اس کی بھلائی سوچنی چاہیے۔ بالکل بے غرض ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے اپنے کمرے سے کوٹ اٹھایا اور پیدل ہی موسلا دھار بارش میں باہر نکل گئے۔ اور رات گئے لوٹ آئے۔ سب گھر والے سو چکے تھے صرف عاشی کے کمرے میں بتی جل رہی تھی وہ جوتوں سمیت بے سدھ اپنے بستر پر گر گئے اور فوراً ہی سوگئے۔
اگلے دن انھوں نے اماں بی سے کہہ دیا کہ غضنفر صاحب کی یہی مرضی تھی کہ عاشی کی شادی ڈاکٹر فرید سے ہوتی اور انھوں نے بھی اچھی طرح اطمینان کرلیا ہے کہ بہت اچھا لڑکا ہے اور عاشی کے لیے بے حد مناسب ہے وہ فوراً ہاں کردیں اور امتحانوں کے بعد شادی کی تاریخ ٹھہرالیں۔
عاشی تک جب یہ خبر پہنچی تو جیسے وہ سکتے میں آگئی۔ دیکھ لیا عائشہ تم نے، سنگ خارا بھی کبھی موم ہوا ہے۔ تم نے اعتراف بھی کیا تو کیا پایا۔ بات بھی کھوئی التجا کرکے۔ انھوں نے تو تمہارے جذبات کی اتنی پرواہ بھی نہیں کی کہ اگر خود اپنا نہیں سکتے تھے تو کم از کم کسی دوسرے کے حوالے نہ کیا ہوتا۔ کس قدر اذیت پسند ہیں۔ چیر پھاڑ کرتے کرتے بالکل ہی بے حس ہوگئے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز کاٹنے سے ختم ہوجاتی ہے حالانکہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا انہیں کاٹو اتنا ہی وہ پھلتی پھولتی ہیں ان کی جڑیں اور تیزی سے پھیلتی ہیں اور جڑیں اگر گہری ہوں تو کبھی نہیں مرجھاتیں۔ کیسے آدمی ہیں یہ بھی خود ہی ذبح کرتے ہیں اور ثواب بھی خود ہی لینا چاہتے ہیں۔
اس نے اماں بی سے صرف اتنا کہا کہ ’’اگر آپ سب کا یہی متفقہ فیصلہ ہے تو پھر اس اعلان کو بھی امتحان کے بعد تک کے لیے مؤخر کردیجیے تاکہ میں اطمینان سے پڑھائی تو کرسکوں چار چھ مہینے کی تو بات ہے۔‘‘
اماں بی نے فرید کے گھر والوں سے کہہ دیا کہ اور بھی کئی رشتے نگاہ میں ہیں۔ عاشی کے امتحانوں کے بعد حتمی فیصلہ سنادیا جائے گا اور پھر فوراً ہی شادی کی رسم ادا کردی جائے گی۔
اماں بی نے عاشی کی شادی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ زیور بننے دے دیا تھا۔ کپڑے بھی کام بننے کے لیے دے دئیے تھے۔ عاشی یہ ساری تیاریاں دیکھ رہی تھی اور خاموش تھی وہ کسی معاملے میں اپنی رائے نہیں دیتی تھی اور نااپنی پسند نا پسند کا اظہار کرتی تھی۔ لڑکیاں اس کی خاموشی سے تنگ آکر خود ہی اپنی مرضی سے چیزیں خرید رہی تھیں۔ عاشی پڑھائی ضرور کررہی تھی مگر اس طرح کہ کتاب کھلی رہتی اور نگاہیں کہیں اور خلا میں گھورتی رہتیں۔ کوئی لیکچر کوئی بات کوئی لفظ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ذہن پر ایک دھند سی چھا گئی تھی۔
دسمبر کی چھٹیوں میں راشدہ آپا اور زاہدہ بھی آئی ہوئی تھیں اس لیے وقاص صحیح وقت پر پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ شام کو بہنوں کے پاس آبیٹھتے تھے خشک میووں کے ساتھ خوش گپیوں کا دور بھی چلتا تھا۔ عائشہ ایسی محفلوں میں شریک نہیں ہوتی تھی مگر اس دن وہ بھی اتفاق سے سفید شال میں لپٹی آتشدان کے قریب بیٹھی تھی۔ اسے کچھ زکام تھا۔ سر میں درد بھی تھا۔ جب وقاص اندر آئے تو وہ اسی طرح بیٹھی رہی گرم جگہ سے اٹھنے کو جی نہ چاہا۔ وقاص نے تین چار ماہ کے بعد اسے اس طرح قریب سے دیکھا تھا۔ ورنہ بس کبھی کبھار اس کی ایک آدھ جھلک نظر آجایا کرتی تھی۔ وہ پہلے سے بہت کمزور لگ رہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑگئے تھے۔ چہرے کی شادابی اور شگفتگی کہیں رخصت ہوگئی تھی۔ بال بھی الجھے سے تھے وہ خاموشی سے بیٹھی شعلوں کو گھور رہی تھی۔شعلوں کے عکس نے اس کی سیاہ آنکھوں میں سرخ الاؤ دہکادئیے تھے۔
’’بھائی جان آپ دیکھ رہے ہیں عاشی کتنی کمزور ہوگئی ہے اس کا چیک اپ ہونا چاہیے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ شادی تک بالکل ہی معدوم ہوجائے۔‘‘ زاہدہ نے کہا۔
’’فریدہ ہے نا کیوں نہیں چیک اپ کراتی۔‘‘
’’لیجیے آپ کے ہوتے مجھ معمولی ایم بی بی ایس کی کیا حقیقت ہے؟‘‘
’’تو کیا بڑے ڈاکٹر ہر مرض کا علاج کرسکتے ہیں۔‘‘ عاشی نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں، اگر وہ Diagnoseکرلیں تو۔‘‘ فریدہ نے کہا۔
’’اور اگر کوئی مرض ہی نہ ہو تو پھر وہ علاج کس کا کریں گے۔ مجھے تو کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔‘‘
’’تم کیا جانو یہ تو کوئی ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ بہر حال کوئی بات ہے ضرور۔ ورنہ اس طرح وزن لُوز کرنا، رنگ زرد پڑنا اور پھر چکرآنا۔ پلیز بھائی جان آپ کل اس کو زبردستی لے جائیں اور سارے ٹسٹ کرادیں۔‘‘
’’میرا مرض ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ نہ ان کی سمجھ میں آئے گا اور نہ یہ علاج کرسکیں گے۔‘‘ وقاص نے عاشی کی طرف دیکھا۔
’’یہ صحیح کہتی ہے میری سمجھ میں الٹے سیدھے مرض نہیں آتے اور ویسے بھی میں سرجن ہوں۔ جنرل پریکٹیشنر تو نہیں ہوں۔‘‘
زاہدہ شوخی سے بولی ’’لگتا ہے ہمارے بھائی پر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اب یہ فریدہ سے ہی اپنا علاج کرائے گی۔‘‘
عاشی کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ ’’آپ صحیح کہتی ہیں باجی دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ہوا کا جھونکا، بہتا پانی، گذرتا وقت اور راہ میں ملنے والا مسافر ان کا کیا بھروسہ۔‘‘
’’بھائی جان ان میںسے کون ہیں۔‘‘ فریدہ نے پوچھا۔
’’عائشہ تو فلسفی ہوگئی ہے اس کی باتیں دماغ میں نہیں گھستیں۔‘‘ زاہدہ آپا نے کہا۔
’’ارے میرا ذکر چھوڑئیے۔ میں تو گردِ راہ ہوں آج ہوں کل نہیں۔ بات ڈاکٹر صاحب کی ہونی چاہیے۔ کیوں اماں بی آپ ان کی شادی کیوں نہیں کرتیں۔ اس گھر میں بھی رونق ہوجائے گی اور یہ جو اتنی اتنی دیر باہر رہتے ہیں نا یہ بھی کھونٹے سے بندھ جائیں گے۔‘‘
انھوں نے عاشی کی طرف دیکھا وہ بڑی معصومیت سے اماں بی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’بیٹا یہ تو میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ مگر یہ مانتا ہی نہیں الٹی سیدھی تاویلیں کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’صاف بات یہ ہے کہ آپ ان سے رعب کھاتی ہیں۔ ماں بن کر حکم دیجیے کیسے سرتابی کریں گے آپ کو ناراض کرنا آسان تو نہیں۔ آخر آپ کے پاؤں تلے ان کی جنت ہے۔‘‘
’’اگر اس موضوع پر مزید گفتگو نہ کی جائے تو مہربانی ہوگی۔‘‘ وقاص ترشی سے بولے۔
’’بھئی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے جی خوش کرلینے دو۔‘‘ آپا بولیں۔
’’انہیں خالی دوسروں کی شادیاں کرانے کا شوق ہے۔ اب ان کی باری ہے۔ ہمارے کالج میں اتنی پیاری پیاری سی لڑکیاں ہیں ناکہ کیا بتاؤں اور ایک تو مجھے بے حد پسند ہے۔ اگر یہ مان جائیں تو ہم لوگ اس کے گھر کے دہلیز تک گھس ڈالیں گے۔ کیوں باجی۔‘‘
’’بالکل یہ ایک بار ہاں تو کرے۔‘‘ راشدہ بولی۔
’’وہ لڑکی جس کا میں ذکر کررہی ہوں اس کا نام ہے عنبرین احمد۔ انگلش لٹریچر میں ایک اے کررہی ہے۔ اس کے والد ایک بہت بڑے صنعت کار ہیں۔ وہ خود بھی بے حد موڈرن، باوقار اور حسین لڑکی ہے ہماری کلاس کی آدھی لڑکیاں اس پر مرتی ہیں۔ آپ لوگ ایک نظر اسے دیکھ تو لیں۔‘‘
وقاص خاموشی سے چلغوزے چھیل رہے تھے۔
’’تم وقاص کو منالو تو منہ مانگا انعام ملے گا۔‘‘ آپا بولیں۔
’’کیاواقعی؟ پکاوعدہ کیجیے۔ مگر امید نہیں کہ یہ انعام مل سکے۔ کیونکہ میں پتھر کو موم کرنے کے گُر سے ناآشنا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ عنبرین احمد کی شخصیت میں کوئی سٹون کر شروالی خصوصیت ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘
سب ہنس پڑے سوائے وقاص کے ۔ وہ اس آتش فشاں کی طرح خاموش تھے جس کے اند لاوا پک رہا ہو مگر اوپر خاموشی کی برف جمی ہو۔
’’پہلے عاشی کو تو رخصت کردیں اس کے بعد عنبرین احمد کو لانے کی بابت سوچیں گے پہلے لڑکیوں کا فرض ادا کرنا چاہیے۔‘‘
’’لیجیے پتھر پگھل رہا ہے۔ اماں بی پکا وعدہ لے لیجیے کہیں بعد میں پلٹ نہ جائیں۔‘‘ عاشی پر ایک عجیب سے کیفیت طاری تھی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں نہ ہو۔ اس کے گال تمتمارہے تھے اور آنکھیں جل رہی تھیں۔ شاید بخار ہورہا تھا۔ وقاص بڑے اطمینان سے بولے۔
’’قولِ مرداں جاں دارد۔ گھبراؤ نہیں اگر وعدہ کرلیا تو پلٹوں گا نہیں۔ عنبرین احمد کا ذکر کرکے تم نے مجھے اس کا ان دیکھا مشتاق بنادیا ہے۔ اگر وہ واقعی ایسی ہی ہے جیسا کہ تم کہہ رہی ہو تو پھر مجھے غور کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’آپ سیریس ہیں بھائی جان۔‘‘ فریدہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’کیوں کیا میں مذاق کے موڈ میں نظر آرہا ہوں۔‘‘ پھر وہ عاشی سے مخاطب ہوئے۔
’’تو پھر کب دکھوارہی ہو اپنی عنبرین احمد کو، کسی دن کھانے یا چائے پر بلالو۔‘‘
عاشی خاموش رہی۔
’’ارے یہ سانپ کیوں سونگھ گیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو خوب چہک رہی تھیں۔ منہ مانگا انعام نہیں لوگی؟‘‘
’’کیوں تنگ کررہے ہیں بے چاری کو۔ پہلے ہی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آج۔ اگر آپ واقعی سچ مچ چاہتے ہیں تو عاشی کسی روز بلالے گی۔ کیوں عاشی؟‘‘ زاہدہ نے پوچھا۔
’’جس دن کہیں بلالوں گی۔ ایسا نہ ہو کہ میں انہیں بلاؤں اور یہ غائب ہوجائیں۔‘‘ عاشی نے آہستگی سے کہا۔
’’یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ میں سر کے بل حاضر ہوں گا۔ اتنے بڑے صنعت کار کی صاحبزادی آئیں اور میں غیر حاضر ہوجاؤں بلکہ اگر تم نے کہا تو ایک روز کی چھٹی کرلوں گا۔ ایسی نادر روزگار شخصیتیں روز روز کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تو پھر یہ طے ہے۔ اب میں چلتاہوں۔‘‘ وہ دروازے سے باہر نکل گئے۔
ان کے لہجے کازہر عاشی کی رگوں میں قطرہ قطرہ بن کر ٹپک رہا تھا اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اتنا روئے اتنا روئے کہ دل کی ساری آگ بجھ جائے۔ روح کی جلن مٹ جائے۔ خود اس کا وجود آنسوؤں میں گھل کر بہہ جائے۔
رات کے بارہ بجے وقاص شانے پر بے پروائی سے کوٹ لٹکائے لوٹے انھوں نے جیسے ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا چونک پڑے، سامنے دیوار سے ٹیک لگائے عاشی بیٹھی تھی۔ بند کھڑکی کے شیشوں سے موسم سرما کے چاند کی ٹھنڈی سوگوار اور پھیکی پھیکی چاندنی اندر آرہی تھی۔ چاند کی اس چاندنی میں لپٹی عائشہ ایک ہیولا سا لگ رہی تھی۔
’’کیا بات ہے یہاں کیا کررہی ہو اس وقت۔‘‘
عاشی خاموش رہی۔ ’’دیوانی تو نہیں ہوگئی ہو۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔ اس وقت تمہاری موجودگی یہاں بالکل غیر مناسب بات ہے جو کہنا ہے صبح کہنا۔‘‘
’’ابھی چلی جاؤں گی صرف اتنا پوچھنے آئی تھی کہ سب سے سریع الاثر زہر کون سا ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘
سیدھا سا مطلب ہے۔ کون سا زہر جلدی اثر کرتا ہے اور بغیر تکلیف دئے آناً فاناً ختم کردیتا ہے۔‘‘
’’کیوں کیا خود کشی کا ارادہ ہے۔‘‘ انھوں نے الماری میں کوٹ لٹکاتے ہوئے پوچھا۔
’’خود کشی کرکے کیا کروں گی۔ پہلے ہی کون سا زندہ ہوں۔ ویسے بھی ہم ایسے ڈھیٹ ہیں کہ کسی چیز کااثر ہی نہیں ہوتا۔ زہر کا کیا ہوگا۔‘‘
’’پھر زہر کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہو۔‘‘
’’کسی نے پوچھا تھا۔ اپنے بیمار کتے کو مارنے کے لیے۔‘‘
’’صبح بھی پوچھا جاسکتا تھا کیا آدھی رات کو پوچھنا ضروری تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ تم اپنے ہوش میں نہیں ہو۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ تمہیں بخار ہے۔‘‘ انھوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو چھوا۔‘‘ اوہ ہو تمہیں تو خاصا تیز بخار ہے۔ میں تمہیں دوا دیتا ہوں۔ دوا کھاؤ اور اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو۔ زیادہ سوچنا اچھی عادت نہیں حاصل کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’نصیحتوں کا شکریہ۔ عمل کرنے کی کوشش کروںگی۔ مگر میری بھی ایک عرض ہے۔‘‘ وقاص نے دو گولیاں اور ایک گلاس پانی اس کی طرف بڑھایا۔ ’’لو پہلے تو یہ دوا کھاؤ شاباش۔ آخر تمہیں کیا ہوا ہے۔‘‘
’’کچھ نہیں، معمولی سا گناہ تھا، مگر ایک سنگ دل کے ہاتھوں سنگسار کردی گئی۔‘‘
’’ایسی باتیں نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ میں تمہیں ایک سلیپنگ پل بھی دے دیتا ہوں۔ صبح تک طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
’’ایسی پِل کیوں نہیں دے دیتے کہ میں قیامت تک سوتی رہوں۔ جاگتے جاگتے تھک چکی ہوں۔‘‘
اور وہ سوچ رہی تھی عائشہ غضنفر علی یہ تم کیسی دشوار اور عجیب سچویشن میں آپھنسی ہو بولو یہاں سے دامن بچا کر کیسے نکلو گی۔
وقاص زچ سے ہوکر صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’ہاں تو کیا کہنا چاہ رہی تھیں، کہو۔‘‘
’’مجھے صرف اتنا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک راستہ متعین کرلیا ہے اور میں اسی راستے پر چلنا چاہتی ہوں۔مجھے اس راستے سے ہٹانے کی کوشش ترک کیوں نہیں کردیتے۔ آپ کون ہوتے ہیں میری زندگی کے فیصلے کرنے والے۔‘‘
’’ظاہر ہے میں کوئی بھی نہیں ہوں۔ چونکہ تم نے کہا تھا اس لیے تمہارے حق میں جو بہتر نظر آیا میں نے اس کی سفارش کردی۔‘‘
’’آپ فریدصاحب سے کہہ دیجیے کہ وہ کسی اورلڑکی سے شادی کرلیں۔‘‘
’’مثلاً عنبرین احمد سے۔‘‘
’’عنبرین احمد کا کوئی وجود نہیں۔‘‘
’’ارے‘‘ انھوں نے حیرت سے پوچھا ’’توکیا یہ سب جھوٹ تھا۔‘‘
’’آپ کو افسوس ہورہا ہے۔‘‘
’’ظاہر ہے۔‘‘ وہ مسکرائے ’’بمشکل تو میں راضی ہوا تھا۔‘‘
’’توکیا ہوا۔ دنیا میں کیا لڑکیوں کی کمی ہے۔ ایک چھوڑ ہزار عنبرین احمد مل جائیں گی۔ ذرا سی تلاش کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے وقت آئے گا تو تلاش بھی کرلیں گے۔ فی الحال تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ تمہیں اب جانا چاہیے۔‘‘
’’چند لمحوں کے لیے بھی میرا وجود گوارا نہیں۔ چلی جاؤں گی۔ ہوسکتا ہے آج کے بعد آپ مجھے کبھی زندگی بھر نہ دیکھ سکیں لہٰذا جو میں کہہ رہی ہوں وہ سن لیں۔ میں اپنی زندگی خدمتِ خلق کے کام میں لگانا چاہتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ امتحانوں کے بعد نرسنگ کرلوں۔‘‘
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئی ہو۔‘‘
’’اگر آپ کو پاگل لگ رہی ہوں تو پاگل خانے میں جاکر چھوڑ آئیے بے چارے فرید صاحب کی قسمت کیوں پھوڑتے ہیں۔‘‘
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ’’یا اللہ کیا کروں، دیکھو عاشی…‘‘
عاشی نے بات کاٹ دی ’’میں کچھ دیکھنا یا سننا نہیں چاہتی۔ اگرآپ لوگوں نے ضد کی تو میں چپکے سے کہیں چلی جاؤں گی۔ اسے دھمکی مت سمجھئے گا۔‘‘
’’کیوںاپنی چمکتی دمکتی زندگی کے راستے میں تاریکیاں بکھیرنے کے درپے ہوگئی ہو۔‘‘
’’میرے راستے میں پہلے بھی کوئی کہکشاں نہیں ہے اور ویسے بھی شادی کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے کہ جس سے راہوں میں روشنی ہوسکے۔ آخر آپ بھی تو جی رہے ہیں اور اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہیں۔‘‘
’’دیکھو عاشی تم ابھی بہت چھوٹی ہو اور نادان بھی۔ میرے مسائل نہیں سمجھ سکتیں۔ میں نے یہ فیصلہ اپنی خوشی سے نہیں کیا اور نہ میں اپنی اس زندگی سے مطمئن ہوں۔ اب جب یہ بات بڑھ ہی گئی ہے اور ایک غلط فہمی کی بنا پر تم خود کو نقصان پہنچانے کی حد تک آچکی ہو تو مجھے کھل کر بات کرنی پڑے گی حالانکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات کبھی زندگی بھر میرے لبوں تک آتی۔ اپنے دل کا بھید کھولنے پر تم نے مجھے مجبور کرہی دیا ہے تو لو سنو اگر چند مجبوریاں میرے پیروں کی بیڑیاں نہ ہوتیں تو تمہارا حصول میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا ہوتی۔ تمہارے اطمینان کے لیے بتادوں کہ نہ میں پتھر ہوں، نہ بے درد، نہ بے حس، تم جاننا چاہتی ہو تو جان لو کہ تمہارے سوا کوئی لڑکی آج تک میرے دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکی اور تمہارے سواوہاں کسی کی پرچھائیں تک نہیں ہے۔ سچ پوچھو تو آج تک میں نے کسی لڑکی کو غور سے دیکھا تک نہیں۔‘‘ وہ خاموش ہوگئے جیسے سوچ رہے ہوں کہ انہیں اور کیا کہنا چاہیے۔ عائشہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ اس انکشاف پر قدرے حیران سی۔
’’پھر آپ مجھ سے اتنے گریزاں کیوں ہیں۔‘‘ اس نے آہستگی سے پوچھا۔
’’اس لیے کہ محبت اور ہوس میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ میری چاہت بے غرض ہے۔ اپنی خوشیوں کی خاطر میں تمہیں کیسے زندہ درگور کرسکتا ہوں۔خود تمہاری خاطر میںنے خود کو پتھر بنالیا ہے۔ ورنہ کیا کبھی کسی نے اپنی متاعِ عزیز خود اپنے ہاتھوں کسی کو بخشی ہے۔ میں نہ اتنا دریا دل ہوں نہ اتنا بے نیاز۔ مجھے یہ سب تمہیں نہیں بتانا چاہیے تھا مگر تم نے مجھے مجبور کردیا۔ تمہارے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے اس پر شک نہ کرو۔ یہ تمہاری بہتری کے لیے کیا ہے۔ آدمی جسے چاہتا ہے اسے شاد اور آباد دیکھنا چاہتا ہے۔ رہی میری بات تو بقول فیض:
وہ تیرگی ہے رہِ بتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بجھ گئے ہیں
اب جاؤ اور سب کے درمیان بیٹھ کر دل شکن باتیں نہ کیا کرو۔ میرے صبر اور حوصلے کا امتحان نہ لیا کرو۔ میں بھی آخر انسان ہوں کہیں میرے پائے ثبات میں لغزش نہ آجائے۔ جاؤ شاباش آرام کرو اپنی صحت کا خیال رکھو۔‘‘
عاشی کا پورا بدن کانپ رہا تھا جیسے چراغ کی لو تیز ہوا کی زد میں آکر تھر تھرارہی ہو۔ اس کا سارا وجود اَن بہے آنسوؤں کے قلزم میں ڈوبا جارہا تھا اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’میرے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف ایک نگاہِ التفات چاہیے۔ آپ کے قدموں میں ذرا سی جگہ چاہیے۔‘‘
’’زندگی اس طرح نہیں گزرتی۔ میرے ساتھ کیوں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو۔‘‘
’’میری زندگی ہے میں برباد کروں یا آباد۔ یہ میرا فیصلہ ہے آپ کو اس سے کیا۔‘‘
’’افوہ تمہیں کیسے سمجھاؤں، کیا بتاؤں، کیسے بتاؤں۔‘‘
’’آپ کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کی اور دادا جان کی ساری گفتگو سن چکی ہوں۔ انھوں نے آپ سے کہا تھا ناکہ آپ کی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کوئی ایسی لڑکی ضرور آپ سے ٹکرائے گی جو آپ کی خاطر ہر چیز کی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہوگی۔ اسے ڈس کرج نہ کرنا۔ کہا تھا نا انھوں نے یاد نہیں۔‘‘
’’ہاں کچھ یاد تو ہے۔ ‘‘ وقاص نے تھکے تھکے انداز سے کہا۔
’’تو پھر آج وہ لمحہ آپ کی زندگی میں آگیا ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے ورنہ ساری زندگی پچھتائیں گے۔‘‘
’’کچھ پتہ بھی ہے میرا ساتھ تم سے کس قربانی کا طلب گار ہے۔‘‘
’’آپ کو انھوں نے اپنی بیوی کے بارے میں بتایا تھا۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسی خاتون کی پوتی ہوں اور بقول دادا جان نہ صرف شکل وصورت بلکہ عادت اورمزاج میں بھی انہی کاعکس ہوں۔ مجھے ڈس کرج نہ کیجیے گا۔ مجھے بخدا کچھ نہیں چاہیے۔ میں صرف پوری آزادی کے ساتھ آپ کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کے لیے کھانا بناسکوں۔ آپ کی قمیض میں بٹن ٹانک سکوں۔ آپ کے موزوں کی مرمت کرسکوں۔ آپ کے لیے چائے بناؤں۔ گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں اور سردیوں کی تاریک اور سرد شاموں میں آپ کا انتظار کرسکوں۔ آپ کی رفاقت چاہتی ہوں۔ آپ کی قربت مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ تمام ڈر اور خوف ختم ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’تم نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ عورت کی زندگی میں اس کے شوہر کے علاوہ بھی کچھ اور ہوتا ہے۔ تم ابھی یہ سمجھ نہیں سکتیں۔ میں تمہاری بے خبری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔‘‘
’’میں بے خبر نہیں ہوں۔ آپ نے کہا تھا کہ جس درخت کے پھل کو کیڑا لگ جائے اسے کاٹ ڈالنا چاہیے۔ مگرکیوں کیا اس درخت کی گھنی اورٹھنڈی چھاؤں کو بھی کیڑا لگ جاتا ہے۔ کیا اس درخت کے نیچے تھکے ہارے مسافر گھڑی دو گھڑی کو آرام نہیں کرسکتے۔ چاند میں داغ ہوتے ہیں مگر کیا اس کی چاندنی کو بھی داغ لگ جاتا ہے۔ آخر چاند اپنے داغوں کے باوجود بھولے بھٹکے راہی کو راہ دکھاتا ہی ہے۔ میں کہہ جو رہی ہوں کہ مجھے سوائے آپ کے اور کچھ نہیں چاہیے۔ کیا آپ سمجھنا نہیں چاہ رہے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’سمجھ رہا ہوں بابا سمجھ رہا ہوں۔ اگر تم کبھی بعد میں پچھتائیں تو پھر۔‘‘
’’جب سیتا نے بن باس میں رام چندر کا ساتھ دیا تھا تو کیا وہ پچھتائی تھی۔ میں بھی زندگی کے اس بن باس میں آپ کا ساتھ دینا چاہتی ہوں۔ پچھتانا ہوتا تو پھر اتنا آگے ہی کیوں آتی۔‘‘
عائشہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ وقاص خاموشی سے صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ دور کہیں دل کی گہرائیوں میں آرزوؤں کی ایک ننھی سی کرن سر اٹھا رہی تھی۔ تاریکیاں سمٹتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ اور دور کہیں امیدوں کی قندیلیں نظر آرہی تھیں۔
(ختم)