بڑھتی حقوق بیداری سے پیدا الجھنیں

روپ ریکھا ورما

خبر ہے کہ اترپردیش کی سب سے بڑی عدالت نے ایک ’تاریخی‘ فیصلہ دیا ہے کہ شوہر-بیوی کے جھگڑوں میں جہیز کے ۹۹ فیصد معاملات فرضی ہوتے ہیں۔ خبر کے مطابق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر شوہر -بیوی کے درمیان دوسری تمام وجوہ سے چل رہی ان بن کے سبب ہی لڑکی کی طرف سے تمام الزامات ’جہیز کی سرنگ‘ میں ڈال دئے جاتے ہیں۔ جس خاص معاملے میں یہ فیصلہ دیا گیا (دیپتی یادو بنام سنجیو کما یادو) اس میں جو بھی گواہ اور دلائل پیش کئے گئے تھے، وہ کیا تھے اور کس وجہ سے اس معاملہ میں ججوں نے مدعی کے الزام کو جھوٹا پایا، یہ معلوم نہیں ہے اس لیے فیصلے پر اس لحاظ سے کوئی اظہار خیال کرنا اس وقت مقصد نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ججوں نے اس خاص معاملے کی سچائی و جھوٹ پر ہی فیصلہ نہیں دیا بلکہ جہیز سے متعلق معاملات اور معاشرے پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ اس لیے اس کا تجزیہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ فاضل ججوں نے یہ اعدادوشمار کہاں سے حاصل کیے کہ جہیز سے متعلق ۹۹ فیصد معاملات فرضی ہوتے ہیں۔ کس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا گیا کہ ’عام طور پر لڑکیاں جہیز کے جھوٹے معاملات بناتی ہیں۔ کیا یہ نتیجہ حقائق کے علمی جائزے کی بنیاد پر نکالا گیا ہے یا انصاف کے عمل اور لڑکیوں کے درمیان اپنے حقوق کے لیے حق بیداری سے سماج کے ذریعہ سیکھے گئے سبق کی بنیاد پر ہے۔ سوال نظریے اور ترجیحات کا بھی ہے۔ جہیز کی گھبراہٹ اور اس کے جال میں پھنسے معاشرے کی تکلیف کو سنجیدگی سے سمجھنے والا ایسے معاملات کو اتنی بڑی تعداد میں جھوٹا تسلیم کرنے کے بجائے اس بات کو لے کر بھی تشویش زدہ ہوسکتا ہے کہ ایسا تو نہیں ہے کہ جہیز کے سلسلہ میں گواہوں کا طریقہ اور ان کا اصول بھی مصیبت زدہ ہے۔ اور ان کے بارے میں قانون اور فیصلے کے نظریے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جو بھی ہو یہ بنیادی طور پتہ چلنا چاہیے کہ ۹۹ فیصد جھوٹے معاملات کا یہ دعویٰ کس طرح کے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اور اس تحقیق کا طریقہ کار کیا تھا۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ہم جہیز کو کس طرح سمجھتے اور پہچانتے ہیں۔ جہیز کئی صورتوں سے مانگا جاتا ہے۔ بنا کہے، کچھ اشارات دے کر اورباقاعدہ تحریر کردہ۔ بنا اذیت پہنچائے، یا پھر تھوڑی اذیت دے کرکے یا پھر انتہائی اذیت دے کرکے اگر کوئی ماں، باپ کسی ممکنہ (جو جلد ہی داماد بننے والا ہو) داماد کے اعلیٰ ترین عہدے سے خوش ہوتے ہیں اور شادی میں کلر ٹی وی، جنریٹر سیٹ، کار وغیرہ دیتے ہیں۔ تو ایسے ماں اور باپ کو غلط ماننا یا ان کا مذاق اڑانا بڑا آسان ہے۔ اونچے عہدوں یا عزت دار گھرانوں کے ایسے کتنے فیصد عزت دار لڑکے ہیں، جو ان قیمتی تحفوں کو لینے سے انکار کردیں۔ یا ایسے گھروں کی قابل لڑکیوں سے رشتوں کی پیش کش کرنے کی ضد کریں، جو کسی بھی طرح ایسے قیمتی تحفے نہیں دے سکتے ہیں۔ چونکہ رسم و رواج اور سبھی معاشرتی نظام پوری طرح سے لڑکے والوں کی جہیز کی چاہت کے بھی قائل ہیں اس لیے لڑکے والوں کا کام تو یوں بھی آسان ہوجاتا ہے۔ ایسے میں تمام بہادری اور سمجھداری کی امید لڑکی والے سے ہی کرنا کیا زیادہ سنگین بات نہیں ہے۔

اگر بڑے عہدے پر پہنچ کر قیمتی تحفوں کے سہارے داماد حاصل کرنا گناہ ہے تو ایسے تحفوں پر داماد گیری تسلیم کرلینا بھی گناہ ہی مانا جائے گا۔ اس کے ساتھ اس سمجھداری کا بھی استعمال ہونا چاہیے کہ اس گناہ کے فعل میں کس فریق(لڑکی/لڑکے) کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے۔ اور اس گناہ کو نہ کرنے کا خمیازہ کس فریق کو دوسرے سے کئی گنا زیادہ اٹھانا پڑتا ہے۔ ابھی تک تو یہی دیکھا گیا ہے کہ لڑکی والوں کو اس گناہ کو نہ کرنے کی جو سزا بھگتنی پڑی ہے، وہ گناہ کرنے پر ملی سزا سے کئی گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ شادی بالغ لڑکے لڑکی کی اپنی پسند سے ان کی ذہنی سطح، عادات و اطوار، پسند ناپسند اور آپسی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

ان باتوں کے بجائے صرف عہدے یا دولت کی بنیاد پر رشتے (تعلقات) غلط بھی ثابت ہوں گے۔ کیونکہ وہ عام طور پر دائمی اور روحانی خوشی نہیں دے سکتے۔ خوشی کی بنیاد کن اصولوں پر ہو، خواتین اور مردوں کے خوابوں اور دلچسپیوں کا اس میں رول ہو، اس پرہمارا معاشرہ عام طور پر غوروفکر بھی نہیں کرتا۔ اور ہم اپنی نوجوان نسل کو نہ تو اس کے متعلق سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔ اور نہ ہی اس کے متعلق اپنے ارادوں پر کھرا اترنے کا جذبہ اور سہارا دیتے ہیں۔

اس ضمن میں بے میل شادیاں کرانے کے لیے عام طو رسے پورا معاشرہ بھی ذمہ دار ہے۔ اس کا گناہ صرف لڑکی والوں کے ماتھے مڑھنا افسوس ناک ہوگا۔ لڑکا اپنے آپ کو حاصل کی جانے والی چیز کی شکل میں شادی کے بازار میں اتارے تو خریدار کو ہی صرف گناہ گار کیوں مانا جائے۔ اور ملک کی بنیادی اور ذمہ دار تنظیموں وغیرہ کے ذریعہ اگر اس سلسلے میں کوئی معاشرتی رائے دی جاتی ہے تو ان بکاؤ۔ دلہوں کے خلاف سخت رائے کیوں نہیں دی جاتی۔

جب ہم یہ الزام لگاتے ہیں کہ عام طور پر لڑکیاں جہیز کے جھوٹے معاملے درج کرتی ہیں۔ (جو حقیقتاً صحیح نہیں ہوتے ہیں) تو ہمیں یہ بنیادی نقطہ نظر کیوں نہیں دکھتا کہ لاکھوں گھروں کی بہوئیں نت نئی مانگوں اور خواہشات کے دباؤ میں مسلسل گھٹ گھٹ مرتی ہیں۔ بے عزت اور مظلوم بنتی ہیں اور کہیں شکوہ بھی نہیں کرتیں۔ ان کے اعزہ و اقرباء کئی کئی صدیاں جھیلتے ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان مظلوم خواتین کا ایک بہت تھوڑا سافیصد جب فیصلے کی اپیل کرتا ہے تو جہیز جیسے خاندانی و انفرادی لین دین اور اس سے متعلق مظالم کے لیے گواہ جمع کرنا اور تمام معاشرتی مجبوریوں کے درمیان پورے فیصلہ کن نظریہ کا بوجھ اٹھانا لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے اس بات کی طرف ہمارا ذہن کیوں نہیں جاتا۔

ایک بات اور بڑے تعجب کی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون ایسا نہیں ہے جس کا غلط راستہ نہ ہوتا ہو۔ خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کے ذرا سے بھی غلط استعمال کا جتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اتنا کسی اور قانون کا نہیں۔ مذکورہ بالافیصلے کو اخباروں میں جس شوق سے اہمیت دی گئی ہے، اور طرح طرح سے اجاگر کیا گیا ہے، کاش اس کا ایک حصہ بھی خواتین کے حقیقی مسائل کو مل پاتا۔ حقیقت میں خاندان کا حلیہ جن نا انصاف طاقتوں پر ٹکا ہے، وہ خواتین کی بڑھتی حق بیداری سے ڈگمگانے لگی ہیں۔

چونکہ معاشرہ ابھی تک اس تمام حق بیداری اور سمجھداری کو اکٹھا (جمع) نہیں کرپایا ہے جو اس صورتحال کو بدل کر بہتر منظم فیصلہ کن نظریہ تسلیم کرپائے، اس لیے خاندان کی شکوہ شکایت لے کر عدالت جانے والی خواتین سے معاشرے کو بڑی دقت اور خوف ہوتا ہے۔ شوہروں کا اقتدار ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں ایسی ساری کی ساری خواتین جھوٹی اور گناہ گار لگنے لگتی ہیں۔ تو اس ماحول کا جھوٹ دیکھنے میں بڑی روحانی تکلیف ہوتی ہے۔ اور یہ بہت خطرناک بھی ہے اس سے بچنا ہے، تو جھوٹ کسی اور کے سر پر تو مڑھنا ہی ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146