ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیار کرے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا، مسکین و محتاج کی دستگیری کرنا، مظلوموں کی حمایت و داد رسی کرنا اور خلقِ خدا کے کام آنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال سورئہ بنی اسرائیل میں ملتی ہے۔ فرمایا گیا کہ’’ اللہ کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو خصوصیت سے ان کا خیال رکھو، ان کے سامنے تواضع و انکساری کے ساتھ جھک جاؤ سختی سے ہرگز نہ پیش آؤ اور ان کے لیے دعائیں کرتے رہو۔ قرابت داروں، مسکینوں اور مسافرو ں کا حق ادا کرو اگر اپنی غربت اور افلاس کی وجہ سے ان کی مدد نہ کرسکو تو نرمی سے معذرت کردو۔ اپنی اولاد کو اس ڈر سے نہ قتل کرو کہ تم اس کو کھلا نہ سکوگے۔ اللہ انھیں بھی کھلائے گا اور تمہیں بھی کھلائے گا۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو، یہ بے حیائی کا کام اور زندگی کا غلط راستہ ہے۔ اللہ نے انسان کی جان کو باعزت اور محترم ٹھہرایا ہے اس لیے جب تک حق و انصاف کا تقاضہ نہ ہو اس کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کرو۔ یتیم کو بے آسرا سمجھ کر اس کا مال نہ کھاؤ جب وہ جوان ہوجائے تو اس کا مال اس کے حوالے کردو۔ عہدوپیمان کو پورا کرو۔ خدا کے یہاں اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ ناپ تول میں کمی نہ کرو جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے بارے زبان نہ کھولو یاد رکھو کان ناک آنکھ دل و دماغ ہر ایک کے بارے میں خدا کے یہاں سوال ہوگا۔ تکّبر اور غرور کی چال نہ چلو تم نہ ٹھوکر سے زمین کا سینہ چاک کرسکتے ہو اور نہ سراٹھا کر پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ یہ باتیں تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۳-۳۸)
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ اپنے بندے سے پوچھے گا میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑے نہیں پہنائے وہ حیرت و استعجاب سے پوچھے گا کہ یا اللہ آپ تو مالک دونوں جہاں ہیں، آپ کو کیسے بھوکے، پیاسے، ننگے ہوں گے تو اللہ کہے گا : میرا فلاں بندہ بھوکا، فلاں بندہ پیاسا، فلاں ننگا ضرورت مند تمہارے پاس آیا تھا تم نے اس کی یہ ضرورت نہیں پوری کی، ڈال دو جہنم میں۔ احادیث کے ذخیروں میں سینکڑوں ایسی احادیث ہیں جن میں رحم، ہمدردی وغمگساری کی بار بار تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ فرمایا : لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس۔ اللہ اس پر نہیں رحم فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیںکرتا۔’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے لہٰذا زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘
لن تومنوا حتی ترحموا۔ تم ہرگز ایمان والے نہیں ہوگے جب تک کہ تم رحم نہ کرو۔
ہم اپنا ذاتی طور پر احتساب کریں اور اس پہلو سے جائزہ لیں کہ ہم اس نصب العین کی طرف گامزن ہیں کہ نہیں۔ ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم سے یقینا باز پرس ہوگی۔ اس لیے اپنے طور پر آج ہی سے کام شروع کردیں جس سے کہ اللہ بھی راضی ہوجائے اور محلہ خاندان، شہر اور ملک بھی سنور جائے۔ ہمارے کرنے کے کام بہت سارے ہیں جو ترجیحی طور پر کیے جاسکتے ہیں۔
بچوں کو بڑوں کو الگ الگ انداز سے حقوق بتانا کہ کس کے کیا حقوق ہیں۔ مفت کوچنگ کلاس چلانا۔ مفت لائبریری کی سہولت مہیا کرنا۔ غریب بچوں کی کتابیں، پنسل، قلم، فیس اور یونیفارم کا نظم کرنا۔ پینے کا صاف پانی مہیا کرانا۔ روشنی کا انتظام کرنا، پیڑ پودے لگوانا۔ نہر، ندی نالوں کی صفائی کرانا۔ پولیو کے خاتمے کے لیے کیمپ لگانا۔ جسمانی، ذہنی و روحانی صفائی و طہارت کے بارے میں بتانا۔ محلے اور پڑوس میں سڑک و گلی میں صفائی مہم چلانا۔موسمی وبائی بیماری سے بچنے کی تدابیر بتانا ۔ مفت شفا خانے قائم کرنا۔ اسپتالوں نرسنگ ہومس میں جاکر بلا لحاظ مذہب و ملت انسانوں کی تیمارداری و خدمت کرنا۔آفات ارضی و سماوی میں ہر طرح سے ہر شخص کی مدد کرنا۔ بلاسودی قرض کے بینک اور اسکیمیں قائم کرانا ۔ جوا، سٹہ، لاٹری، شراب، رشوت، جہیز، شادیو ںمیں بے جا اسراف کے خلا زور دار مہم چلانا ۔ غریب بچیوں کی شادی کا نظم کرانا ۔ بیواؤں کی شادی یا ان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانا۔ یتیموں بے سہارا لوگوں کے لیے شلٹر ہوم بنانا جہاں وہ اپنی زندگیوں کو کامیاب بناسکیں۔ کیریر کاؤنسلنگ کیمپ لگانا۔نوکری یا بزنس کرانے کے سلسلے میں مدد و رہنمائی کرنا۔
یہ کچھ ایسے کام ہیں جو کہ انفرادی اور اجتماعی طور پرکیے جاسکتے ہیں۔لوگ ساتھ دیں گے ہر طرح سے مدد بھی کریں گے۔ پھر کچھ کام ایسے ہیں جن کو ہم انفرادی طور پر بھی کچھ کرسکتے ہیں مساجد کے ائمہ حضرات سے ملاقاتیں کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ اخبارات، میگزینوں میں اشتہارات دے کر توجہ دلائی جاسکتی ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اسکول اور مدارس کے ٹیچرس سے بھی اس کام میں مدد لی جاسکتی ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج رفاہی کاموں کے ہر محاذ پر دوسرے لوگ نظر آتے ہیں۔ حالانکہ خدمت خلق کی روشن تعلیمات سب سے پہلے اسلام نے دی تھی۔