بالوں کو تندرست اور صحت مند رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی اور باقاعدہ طریقِ کار بہت اچھا اور لازمی ہے۔
بالوں کو باقاعدگی کے ساتھ دھوتے رہیے۔ خشک بالوں کو ہفتہ میں ایک بار اور چکنے بالوں کو ہفتہ میں دو بار بالوں کو دھونے کے لیے جو شمپو یا صابن استعمال کیا جائے وہ کیمیائی اعتبار سے سوزش پیدا کرنے والا نہ ہو۔ کونسا شیمپو، صابن یا محلول بہترین ہوسکتا ہے، اس کا مسئلہ ان کے بنانے والوں نے بڑی حد تک سلجھا دیا ہے۔ بیشتر کھوپڑیوں کے لیے بازار میں ملنے والے عام شیمپو کافی اچھے ہیں۔ یہ دیکھنا استعمال کرنے والے کا کام ہے کہ اس کی کھوپڑی خشک قسم کی ہے یا چکنی قسم کی۔ اگر کھوپڑی خشک ہو تو تیل والا شیمپو استعمال کرنا چاہیے، گو عام قسم کا شیمپو بھی اس شرط کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے کہ اس سر کو دھونے کے فوراً بعد تھوڑا سا تیل کھوپڑی پر ملا جائے۔ (بالوں کو نہ لگایا جائے)۔
اگر کھوپڑی قدرتی حد سے زیادہ چکنی معلوم ہو تو بغیر تیل والا شیمپو استعمال کیا جائے کیونکہ اس میں چکنائی کو خشک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر کھوپڑی میں چکناہٹ بہت زیادہ ہو تو کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے جو مناسب شیمپو تجویز کرے گا، تاہم عام طور سے وہ بھی شیمپو کے ان فارمولوں میں سے ہی ایک کا انتخاب کرے گا، جن کی تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے۔
بالوں میں روزانہ کنگھی یا برش کریں، کچھ ماہرین نے سفارش کی ہے کہ سخت بالوں والا برش (نائلون کا برش ہرگز استعمال نہ کریں) روزانہ سو بار بالوں میں پھیرا جائے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ نائلون برش بہت کھردرے ہوتے ہیں اور اس کے استعمال سے کھوپڑی زخمی ہوجائے گی۔ لہٰذا جانوروں کے بالوں والا برش ہی استعمال کیا جائے، تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ برش کرنا بھی فائدہ مند ہے، لیکن مناسب مالش اور کنگھی کرنے سے بھی خون کی گردش اور غدودی رطوبتوں میں ویسی ہی تحریک پیدا کی جاسکتی ہے۔ کنگھی مضبوط لیکن لچکدار ہونی چاہیے۔ اس کے دانت ہموار اور گول سروں والے ہوں، ورنہ سرے کھوپڑی کی جلد میں خراشیں ڈال دیں گے، جس سے وہاں چوٹ لگ جائے گی جو بالوں کی نشو و نما اور صحت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔
کھوپڑی میں روزانہ مالش کریں۔ مالش بڑی احتیاط کے ساتھ انگلیوں کے سروں سے انگوٹھے کے قریب ہتھیلی کی ابھری ہوئی جگہ کے ساتھ کرنی چاہیے، یہ دھیان رہے کہ مالش کرتے وقت بالوں میں کھنچاؤ پیدا نہ ہونے پائے یا وہ اکھڑ نہ جائیں۔ ہمارے بتائے ہوئے طریقہ پر غور کریں۔
قدرتی چکنائیوں کے باہر نکلنے کا فعل کمزور پڑگیا ہو اور اس کے باعث کھوپڑی خشک ہو تو مناسب ہوگا کہ تیل لگائیں، لیکن اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہیے کہ تیل خالص نباتاتی ہو۔ معدنی تیل مثلاً ڈائٹ آئیل وغیرہ ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ نباتاتی تیلوں میں زیتون، ارنڈی، تل، سرسوں اور سورج مکھی کے تیلوں کی سفارش کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ کھوپڑی اور بالوں کو یقینی طور سے خشک کردیتی ہے اسی طرح میں آپ کو کریم یا ویسلین کی قسم کی چیزوں کے استعمال سے خبردار کردینا چاہتا ہوں، کیونکہ ان سے کھوپڑی پر مٹی اور دیگر آلودگیاں بڑی مقدار میں جمع ہوجاتی ہیں۔ بالوں کا ڈنٹھلوں میں الجھاؤ پیدا کردیتی ہیں اور بالوں کی پھلیوں کے فعل میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
کھوپڑی کے دورانِ خون پر دباؤ نہ ڈالیں۔ اس بات کا کوئی قطعی اور حتمی ثبوت تو نہیں کہ کسی ہوئی ٹوپیوں سے گنجاپن پیدا ہوتا ہے لیکن اس تھیوری کو غلط یا درست ثابت کرنے کی ساری ذمہ داری آپ کو سنبھالنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ بالوں کی نشو ونما کو زیادہ سے زیادہ دورانِ خون درکار ہے۔ اور یہ بات ثابت کرنے کے لیے لیبارٹریوں میں تجربے کرنے کی ضرورت نہیں کہ کسی ہوئی ٹوپی خون کی گردش میں کوئی مدد نہیں کرتی، عام طور سے کوشش یہی کی جائے کہ باہر کھلی ہوا میں ننگے سر گھومیں، لیکن اگر موسم اور سماجی رسوم کا تقاضا ہو تو بلاشبہ ٹوپی پہننے میں کوئی حرج بھی نہیں، جیسا کہ ہمارے مشاہدہ میں آیاہے۔ حد سے زیادہ تمباکو نوشی بھی خون کی نالیوں کو عارضی طور پر سکیڑ دیتی ہے، کیونکہ تمباکو میں نکوٹین ہوتی ہے۔
مناسب غذا کی ضرورت کی اہمیت کا بار بار ذکر کرنا مناسب نہیں، حد سے زیادہ بقایا حد سے زیادہ چکناہٹ دونوں غیر متوازن غذا کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ چربی نشاستہ دار اشیاء اور لحمی اشیاء کا زیادہ استعمال تو ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ وزن کم کرنے کے لیے ڈاکٹر جو اچھی غذائیں تجویز کرتے ہیں، ان میں ایسی چیزیں نہیں ہوتی اس لیے بالوں کی نشو ونما میں فائدہ پہنچاتی ہیں، تاہم ایسی کئی خیالی غذائیں ہیں جن کی سفارش وقتاً فوقتاً رسالوں اور اخباروں میں کی جاتی ہے۔ ان کے اعتماد کی بنیاد غلط انداز کردہ یک جزوی غذائیں مثلاً انڈا، چاول اور کیلا وغیرہ ہوتی ہیں۔ ان کا منتہائے مقصود یہ ہوتا ہے کہ آپ کو ہفتہ میں دس پونڈ وزن اتار دینے کے قابل بنادیں۔ اور آپ بالکل نازک اندام ہوجائیں۔ یہ باتیں عام صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں، کئی وجوہ سے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ وزن کم کرنے کے معاملہ میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے، سخت ممنوعہ غذاؤں میں ان عناصر کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جو جسم کے بنیادی افعال کو برقرار رکھنے کے لیے بھی اشد ضروری ہوتے ہیں، چونکہ یہ حد درجہ غیر متوازن ہوتی ہیں، اس لیے جسمانی نظام کو درہم برہم کردیتی ہیں، اور عام صحت کے ساتھ ساتھ بالوں کی صحت بھی خراب ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس معاملہ میں حکیمانہ دانشمندی کی ضرورت ہے۔
نمک کے کم استعمال کی اہمیت بھی دیگر کسی غذائی مصلحت سے کم اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ عام گنجے پن کے علاج سے متعلق باب میں ڈاکٹر یوجین فولڈز کے دلچسپ تجربات پر روشنی ڈالوں گا۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ جسم میں نمک کی زیادہ اور بالوں کی نشو ونما میں رکاوٹ کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ آخر تو طبی تحقیق ہی اس تھیوری کی صحت یا عدم صحت کا ثبوت فراہم کرے گی لیکن اس اثنا میں ہمیں دیگر محققین کی جو دریافتیں دستیاب ہیں وہ ڈاکٹر فولڈز کے نظریہ کی حمایت کرتی ہیں، لہٰذا یہ امر عین مناسب ہوگا کہ نمک کے استعمال میں انتہائی کمی کردی جائے۔
کھوپڑی اور بالوں کے حفظانِ صحت کی بنیادی اصولوں میں مندرجہ ذیل باتیں ہمیشہ شامل ہونی چاہئیں۔
ہفتہ میں کم سے کم ایک بار سر کے بالوں کو دھونا یا شیمپو کرنا اگر زیادہ بار کیا جائے تو بال ضرورت سے زیادہ خشک نہیں ہوں گے۔ اگر بازاری شیمپو کسی وجہ سے غیر مؤثر یا ضرر رساں ثابت ہوں تو آپ کا ڈاکٹر کوئی اچھا فارمولا تجویز کرسکتا ہے۔ ان فارمولوں کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔
مالش: انگلیوں کے سروں یا برقی آلہ سے باقاعدہ اور ٹھیک ڈھنگ سے ہیجان پیدا کیا جائے۔ دھیان رہے کہ آپ کو اپنے بالوں کی مالش نہیں کرنی بلکہ کھوپڑی کی رگوں کی مالش کرنی ہے۔ گردن کی پشت اور اس کے پٹھوں کی بھی مالش کریں۔
کنگھی: کھوپڑی پر جمع گرد و غبار، چکناہٹ اور دیگر آلائشوں کو جو زیادہ بال جھڑنے کا موجب بنتی ہیں، آہستہ آہستے دور کرنے کے لیے صرف عمدہ کنگھی استعمال کریں۔
غذا: عام مفید قاعدہ یہ ہے کہ ایسی غذائیں جن میں چینی، نشاستہ اور سوڈیم شامل ہوں اور چکنائیاں بہت زیادہ استعمال نہ کی جائیں۔ اگر جلد اور کھوپڑی میں سے کسی ایک یا دونوں میں غیر معمولی چکنا پن ہو تو ان غذائی عناصر کا مکمل پرہیز کیا جائے صرف لحمی غذا (پروٹین) استعمال کریں۔
یہ حتمی بنیادی اصول ہیں، جن پر ہر شخص کی کھوپڑی اور بالوں کی صحت کے لیے عمل کرنا چاہیے۔
ان لازمی اصولوں کی فہرست میں ضرورت سے زیادہ دیر تک دھوپ اور پانی میں رہنے سے پرہیز کی اہمیت کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ ہر کسی کی اس خطرہ سے خبردار کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
مثبت فکر کا آئینہ خوبصورت چہرہ
کیا آپ اپنے چہرے کو پسند کرتی ہیں؟ کیا آپ اسے بدلنا چاہتی ہیں؟ دنیا کی بے شمار خواتین اسی چکر میں رہتی ہیں، جب ہی تو وہ بیوٹی پارلروں میں جاتی ہیں اور ایسے اشتہاری لوشن، کریم، میک اپ وغیرہ کا استعمال کرتی ہیں جو انہیں معجزانہ طور پر خوبصورت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کی یہ خواہش ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے چہرے کو پسند نہیں کرتیںاور چاہتی ہیں کہ اس میں خوشگوار تبدیلی آجائے۔ یہ ممکن ہے لیکن ماہرین بیوٹی بانت کے بقول نئے اشتہاری کریم یا لوشن اس باب میں کوئی خاص مدد نہیں کرسکتے۔ وہ چہرے کے چند گھنٹوں یا ایک دو روز تک تو بظاہر عارضی طور پر خوبصورت بناسکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔
اس قول سے زیادہ سچ بات اور کوئی نہیں ہوسکتی ’’ہم اپنا چہرہ خود بناتے ہیں۔‘‘ اب کبھی آپ بازار جائیں تو ملاقاتی کے چہروں کو بغور دیکھیں،آپ دیکھیں گی کہ ان سب کے چہرے مختلف ہیں۔ بعض کے چہروں سے اداسی، بعض کے چہروں سے خوشی اور بعض کے چہروں پر پژمردگی نمایاں ہوتی ہے۔ یہ سب افراد اپنے چہرے خود بناتے ہیں۔ دراصل ہر فرد کی زندگی کے حالات، اس کے اپنے خیالات اس کے چہرے کو متاثر کرتے ہیں۔ اچھے حالات، مثبت بلند خیالات سے چہرہ کھل جاتا ہے، جب کہ برے حالات، غلط منفی خیالات سے چہرہ مرجھا جاتا ہے۔ ملاقاتی کو ان کے چہرے دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا چہرہ خوبصورت نظر آئے تو ظاہری شکل و صورت کے بجائے اپنی اندرونی یعنی ذہنی کیفیت اور بیرونی حالات کو بہتر بنانے پر زیادہ دھیان دے۔
چہرے پر چاہے کتنی ہی قیمتی کریم پاؤڈر وغیرہ لگالیں اور خود کو خوبصورت ظاہر کرنے کی کوشش کریں، لیکن اگر دل میں بغض، نفرت اور خود غرضی جیسے خیالات جاگزیں ہوں گے، نیز ورزش نہ کرتے ہیں اور عمومی صحت کا خیال نہ رکھتے ہوں تو چہرے کی بدصورتی میک اپ لگے چہرے سے بھی کوٹ کوٹ کر ظاہر ہوگی۔ یاد رکھیں، چہرے کی اصل خوبصورتی صحیح سوچ سے آتی ہے۔