اس کو رہ رہ کر اپنے باس پر غصہ آرہا تھا۔’’بڑے اللہ والے بنتے ہیں۔ نصیحت کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ: اسلام نے تو نکاح کو بے حد آسان کردیا ہے خصوصاًبیٹی والوں پر تو اس نے کوئی خرچ کا بار ہی نہیں ڈالا پھر کیوں خواہ مخواہ قرض کا بوجھ بڑھانا چاہتے ہو…؟‘‘
’’لیکن صاحب! باراتیوں کی خاطر … اورپھر ناطے رشتے والے …‘‘ اس نے مزید وضاحت کرنی چاہی تھی۔
’’اس کے لیے دس ہزار دے تو رہا ہوں۔ یہ کوئی کم تو نہیں ہیں اور پھر تم نے خود ہی تو بتایا تھا کہ لڑکے والے نہایت شریف ہیں اور جہیز وغیرہ کے بالکل خلاف ہیں۔ پھر خواہ مخواہ…‘‘
’’لیکن ……‘‘
’’پھر وہی لیکن —‘‘ اس بار انھیں غصہ آگیا تھا۔ ’’کتنی بار سمجھایا ہے کہ جتنی چادر ہو اتنے میں ہی پاؤں پھیلانے کی کوشش کیا کرو۔ ناطے رشتے والے تو کھاپی کر چلے جائیں گے اور ذرا سی واہ واہی کردیں گے لیکن قرض تو تمہیں ہی بھرنا ہوگا۔ لہٰذاعقل مندی اسی میں ہے کہ قرض کا بوجھ کم سے کم ہی رکھو یہی تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے زیادہ فی الوقت میں دے بھی نہیں سکتا۔ میری بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔‘‘
’’مجبوریاں! ‘‘ اس کے لبوں پر زہر خندہ بکھر گیا تھا۔ ’’ارے میں کوئی بھیک تھوڑے ہی مانگ رہا ہوں … قرضـ مانگ رہا ہوں، قرض … بڑے ہمدرد بنے پھرتے ہیں۔ بوجھ مت بڑھاؤ۔ ارے بوجھ بڑھاؤں گا تو اتارنا بھی تو مجھے ہی پڑے گا… سب نہ دینے کے بہانے ہیں۔‘‘
لیکن دل کی یہ باتیں وہ چاہتے ہوئے بھی زبان پر نہیں لاسکا اور مایوسی کے عالم میں دس ہزار کی حقیر سی رقم، جو اس کے باس نے اسے بطور قرض دی تھی، جیب میں رکھ کر آفس سے باہر نکل آیا۔ کرتا بھی کیا؟ اس مہنگائی کے زمانے میں دس ہزار کی رقم سے ہوتا ہی کیا ہے؟ اگرچہ کچھ رقم اس نے پس انداز بھی کررکھی تھی مگر اس سے بھی کیا ہوتا؟ شادی بیاہ میں تو جتنا بھی ہواتنا ہی کم ہے۔ اور پھر بیٹی کی شادی؟
بس آنے میں ابھی دیر تھی اور قریب کی مسجد سے عصر کی اذان کی آواز آرہی تھی۔ اس نے سوچا کہ اتنی دیر میں نماز ہی ادا کرلی جائے۔ پھر نماز ادا کرکے جب وہ باہر نکلا تو اس کی نظر اس اندھے اور معذور فقیر پر پڑگئی جو اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔
’’خدا کے نام پر کچھ دیتے جاؤ بابوجی!‘‘
اس کا ہاتھ غیر شعوری طور پر پینٹ کی جیب میں چلا گیا اور اگلے ہی لمحے ایک روپئے کا سکہ اس کی مٹھی میں تھا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ سکہ فقیر کی ہتھیلی پر رکھتا اس کے ضمیر نے اسے ٹوکا … ’’یہ کیا مذاق کررہے ہو؟ اس ایک روپلی میں اس بیچارے کا کیا بھلا ہوگا؟‘‘
اسے ضمیر کی یہ دخل اندازی بہت بری لگی اور وہ جھنجھلا گیا۔ ’’تو اور کیا کروں؟ سب کچھ انہی پر لٹا دوں؟ یہاں پر تو لائن لگی ہوئی ہے۔ میں کس کس کی ضرورتیں پوری کروں گا؟ … اور پھر نیکی تو بہر حال نیکی ہے خواہ ایک کھجور کے ذریعہ ہی کی جائے۔‘‘ اس نے گویا ضمیر کو مطمئن کرنا چاہا۔
’’بہت خوب!‘‘ ضمیر نے مضحکہ اڑایا۔ ’’اپنی ذرا سی نیکی تمہیں بہت لگ رہی ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے دوسرے کی دس ہزار کی مدد پر چیں بہ جبیں ہورہے تھے۔ اور پھر ابھی تو کافی بڑی رقم تمہاری جیب میں ہے۔ اسی میں سے ان سب کی بھی مدد کردوگے تو تمہارا کیا چلا جائے گا؟‘‘
’’بکواس مت کرو!‘‘ اسے پھر غصہ آگیا۔’’وہ رقم تو میں نے قرض لی ہے۔‘‘
’’تم بھول رہے ہو‘‘ ضمیر نے یاد دلایا ’’آج پہلی تاریخ ہے اورتمہیں تنخواہ بھی آج ہی ملی ہے۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں!‘‘ اس نے احتجاج کیا۔ ’’میں اس سے زیادہ مدد نہیں کرسکتا میری اپنی بھی ضرورتیں ہیں، میری بھی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔‘‘ اب وہ ضمیر کے آگے کچھ نرم پڑنے لگا تھا۔
’’تب پھر دوسرے کی مجبوریوں کو بھی سمجھا کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا باس بھی اس سے زیادہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔…اور پھر فضول خرچی تو کسی بھی صورت میں اچھی بات نہیں ہے اور نہ خواہشات کی کوئی انتہا ہوتی ہے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ اس نے گہرا سانس لیا۔ اب وہ ضمیر کی بات سے کچھ مطمئن ہوچلا تھا۔ ’’واقعی ہم سب کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن دشواری یہ ہے کہ ہم دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھنا نہیں چاہتے۔‘‘
اس نے جیب سے ریزگاری نکالی اور سامنے کھڑے ہوئے فقیروں میں تقسیم کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
اب اس کے اندر کا وہ غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا جو ذرا دیر پہلے وہ اپنے باس کے لیے محسوس کررہا تھا کیونکہ اب وہ خود کو باس کی جگہ رکھ کر سوچ رہا تھا اور خود کو بے حد مجبور پارہا تھا۔