رشید عثمانی – مرد خدا مست

شمشاد حسین فلاحی

ہر انسان جو آیا ہے اسے جانا ہے۔ مگر وہ اپنی یادوں کے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ یادوں کے نقوش، جوان مٹ اور دائمی ہوتے ہیں، ایسے ان مٹ کہ انسان انہیں ذہن و دماغ میں سمیٹے قبر کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ یادوں کے ان نقوش کو اخلاق و کردار کی بلندی، محبت کی گرمی اور اخلاص گہرائی اور دوام بخشتے ہیں۔مذکورہ خوبیوں میں جو جس قدر بلند ہوگا اس کی یادیں بھی اتنی ہی گہری، اسی قدر دائمی اور ان کا حلقہ اسی قدر وسیع ہوگا۔

مولانا عبدالرشید عثمانی کی سادہ، ملنسار، پُر خلوص اور نیک شخصیت اگرچہ اب ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کی بے شمار یادیں ملک بھر میں بسنے والے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے ذہن و دماغ پر نقش ہیں اور اب جبکہ ان کے سانحۂ ارتحال پر تعزیت کا وقت ہے یادوں کے یہ نقوش نشتر کی طرح دل میں تکلیف برپا کررہے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

مالیگاؤں مہاراشٹر کے رہنے والے عبدالرشید عثمانی صاحب وہ خوب شخصیت تھے کہ جو ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ سادگی و للہیت کا پیکر، جو ان سے قریب ہوجاتا مزید قربت کا خواہش مند رہتا۔ خاکساری اور خوش مزاجی کا عالم کہ جب تک ملاقاتی خود اٹھ کر جانے کی خواہش نہ کرے وہ کسی بھی عمل سے ایسا ظاہر نہ ہونے دیتے کہ ان کا مزید وقت نہ لیا جائے تو بہتر ہے۔ ہر کسی سے ملنا اور خیر خیریت دریافت کرنا ان کا مزاج تھا۔

ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل یہ رہا کہ وہ نوعمری ہی میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور ثانوی درسگاہ رامپور کے طالب علم ہوئے۔ پھر کیا تھا اپنی جوانی، ادھیڑ عمری اور اب ۶۵ سال کی عمر پوری کرکے مرکز جماعت سے اپنے وطن واپس لوٹے۔ ان کے لیے اللہ کے دربار میں شاید اس سوال کا جواب آسان ہو کہ عمر کس چیز میں گذاری اور جوانی کہاں صرف کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال ودولت اور اس کی خواہش سے بھی دور رکھا اور انتہائی سادگی کے عالم میں زندگی گزاری۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طویل حساب و کتاب سے بھی محفوظ رکھا جس سے اہل ثروت و دولت کو گزرنا ہوگا۔

مولانا عبدالرشید عثمانی اگرچہ کوئی اعلیٰ ڈگری یافتہ شخص اور سند یافتہ عالم نہ تھے مگر دینی علم و معرفت اچھی خاصی رکھتے تھے اور جو کچھ علم ان کے پاس تھا اس پر عمل کرنا ان کا وصف تھا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا ’’تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ مرحوم عثمانی صاحب جدھر جاتے صدقے کرتے نکلتے جاتے۔ جس سے ملتے بڑی نری محبت اور خلوص سے ہاتھ ملاتے، آہستہ آہستہ ہاتھ کو ہلاتے رہتے اور مسکراتے ہوئے ما شاء اللہ، ماشاء اللہ کا ورد کرتے رہتے۔ ان کے قریب رہنے والے احباب جانتے ہیں کہ ان کی راتیں ان کے دن سے زیادہ انہیں اللہ سے قریب رکھتی تھیں اور ان کی تنہائیاں ان کے مجلسوں سے زیادہ اللہ کے تقوے کی نمائندہ تھیں۔

اللہ کا تقویٰ اور اس کی محبت کو ناپنے کا اگرچہ کوئی پیمانہ نہیں ہوتا مگر بندے کے ظاہری و باطنی اعمال اس کی نمائندگی ضرور کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا لباس، ان کا انداز زندگی، ان کی عبادات اور اس کے لیے اہتمام، مسجد سے محبت اور دین کولوگوں تک پہنچانے کی ان کی تڑپ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرنے والے اور اس کی محبت سے سرشار داعی تھے۔

تزکیہ و تربیت اور داعیانہ تڑپ کے پہلو لیے ان کی دل کو چھولینے والی تذکیریں، تحریریں اور جمعہ کے خطبات جو ہمیشہ پیچیدگی سے دور، معنی و مفہوم کے اعتبار سے واضح اور عام لوگوں کی سوچ کی سطح سے قریب تر ہوتے تھے ان کی داعیانہ تڑپ اور مومنانہ سوچ کے عکاس ہوتے تھے۔

مولانا کی شخصیت میں موجود زبردست کشش ہمیں اس بات پر مجبور کرتی تھی کہ یوں ہی آتے جاتے انہیں سلام کرلیا جائے اور مصافحہ کی سعادت حاصل کرلی جائے۔ ان کا جذبۂ محبت اس قدر مضبوط اور ہمہ گیر تھا کہ ملنے والا ان سے متاثر ہوئے تعبیر نہ رہتا۔ گذشتہ میقات میں فارغین دینی مدارس کے لیے مرکز میں ایک ہفت روزہ تربیتی پروگرام منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے علماء کرام شریک ہوئے جو تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مکاتب فکر کے اختلاف کے باوجود سبھی مولانا کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ سب کی زبان پر چلتے وقت بس مولانا کا تذکرہ تھا۔ اور ہم نے ایک نوجوان کو جو سلفی تھے رخصت کے وقت بچشم تر یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’’مولانا آپ کی صحبت میری زندگی کا حاصل ہے، معلوم نہیں کہ اب یہ کبھی ملے نہ ملے۔‘‘ اور اب یقینا ہم میں سے کسی کو بھی یہ نصیب نہ ہوسکے گی۔

ان کے احباب نے شاید کبھی ان کو غصہ کی حالت میں اور شکوہ شکایت کرتے ہوئے نہیں پایا ہوگا۔ کیونکہ وہ حلم و بردباری کا پیکر اور معاف کردینے کے عادی تھے۔ ان سے کوئی کتنی سخت اور تکلیف دہ بات کہہ دے کبھی پلٹ کر جواب نہ دیتے۔ بحث و مباحثہ کی صورت میں خاموشی اختیار کرتے اور موضوع بدلنے کی کوشش کرتے۔ مرکز کے کارکنان سے انتہائی محبت و شفقت کا معاملہ کرتے اور کبھی کسی سے اونچی آواز میں اور سختی سے گفتگو نہ کرتے۔

اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ہمارے پاس صرف ان کی حسین یادیں رہ گئیں ہیں۔ اور یہ یادیں اس وقت دل میں اک ٹیس اور درد کی کیفیت پیدا کررہی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات تو ہے کہ ہم نے انہیں بچشم تر دہلی سے رخصت کیا تھا اور امید تھی کہ ملاقاتیں ہوتی رہیں گی مگر یہ سلسلہ بہت جلد ختم ہوگیا۔ اب ان کا تذکرہ کیا کریں گے اور دل کو بہلایا کریں گے۔ اور تذکرہ بھی کن کن خوبیوں کا کریں گے۔ وہ اخلاق و کردار کے اس مقام پر فائز تھے جہاں آج کل کم ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ ایسے وقت میں نبوی اخلاق و کردار کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ان کی موت ایک نمائندے کی موت اور بہت بڑا خسارہ ہے۔

’’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں‘‘

اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور خوشحالی عطا کرے۔ آمین۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146