مسلم خواتین سوچیں!

مریم جمال

اس وقت عالمی سطح پر خواتین بیداری کے لیے مختلف قسم کی تحریکات سرگرمی کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ ان کا مقصد خواتین کو مردوں کے برابر لانا اور دونوں جنسوں کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح یہ تحریکات خواتین کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں، مظالم اور عدم مساوات کی کیفیت کو ختم کرکے اس کے عزت و وقار میں اضافہ کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ تحریکات یوروپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر افریقہ اور ایشیاء کے پسماندہ اور غریب ممالک میں اور ترقی پذیر ممالک میں بطور خاص فعال ہیں۔ خواتین کی ان تحریکوں کو یوروپی ممالک کی سرپرستی، اقوام متحدہ کی سند اور اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی فعالیت اور جذبے ولگن سے اپنے کاموں میں لگی ہیں اور خواتین کو اپنے حلقہ اثر میں لے کر ذہن و فکر اور طرز زندگی کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ یہاں تک وہ عرب ممالک جہاں جمہوریتِ شجر ممنوعہ ہے اور تنظیم سازی غیر قانونی وہاں پر بھی یہ تحریکات اپنے افکار و اثرات کو مختلف ذرائع سے پھیلا کر وہاں کی خواتین کی سوچ اور زندگیاں تبدیل کررہی ہیں۔

خود ہمارے ملک ہندوستان میں ان تحریکات، ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد کے نتیجے میں پرانی سماجی قدروں، رسوم و رواج اورخاندانی نظام میں تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور بڑے بڑے شہروں ہی میں نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں تک میں خواتین کا انداز فکر اور طرزِ زدگی تبدیل ہورہی ہے اور پرانی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور معاشرہ قدیم وجدید اور ماڈرن و پرانی قدروں کے درمیان شدید نوعیت کی کشمکش سے گزرر ہا ہے۔

ان تحریکات کی کوششوں کے نتیجہ میں خواتین کے درمیان تعلیم کا تناسب بڑھا ہے۔ ملک کی تہذیب و ثقافت اور سماج و معاشرے پر بھی ان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سرکاری نوکریوں میں اور کثیر قومی کمپنیوں میں تو خواتین اور جدید تعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھیڑ کی بھیڑ پہنچ رہی ہے اور اچھی تنخواہوں اور اعلیٰ معیار زندگی سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ کال سینٹرس نے نوجوان لڑکیوں کے لیے بڑے مواقع پیدا کیے ہیں اور ایک خاص قسم کے ایسے آزادانہ کلچر کو فروغ دیا ہے جہاں گناہ اور جرم کا تصور بڑا مدھم بلکہ مفقود ہے۔ اس کے برخلاف ’کرم ہی پوجا ہے‘ کا نظریہ عام ہے۔

گذشتہ دنوں مرکزی حکومت نے مختلف کام کے اداروں کو اس بات کی اجازت دے دی کہ اب ان کے یہاں خواتین،رات کی شفٹ میں بھی کام کرسکتی ہیں۔ اور حکومت کے اس فیصلہ کا ملک کی خواتین تحریکات نے خیر مقدم کیا اور خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرنے کی جانب ایک قدم قرار دیا۔

خواتین کی یہ تحریکات مظلوم خواتین کو مختلف قسم کے مظالم سے نجات دلانے اور ان کے معاشی استحکام کے لیے بھی جدوجہد کررہی ہیں اور اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ موجودہ زمانہ کی عورت معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل ہو اور اسے کسی پر انحصار کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس طرح بے شمار تحریکیں ہیں ہیں جو خواتین کو طبی رہنمائی اور حفظان صحت سے لے کر قانونی رہنمائی تک کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہ حالات اور صورتحال کا ایک پہلو ہے جو بہ ظاہر کافی روشن دکھائی دیتا ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ حالات کا ایک پہلو اور ہے جس میں جھانکنے سے گھور تاریکی اور سخت اندھیرا نظر آتا ہے۔بلاشبہ سماج میں تعلیم بڑھی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہماری نوجوان لڑکیا ںسماجی بغاوت، معاشرتی حدود کی پامالی اور قدیم اخلاقی اقدار کی عملی تردید کے سنگین جرم کا ارتکار کر رہی ہیں۔ وہ اقدار جو اب تک ہمارے معاشرے میں بڑی پاکیزہ اور معیاری تصور کی جاتی تھیں حرف غلط بنتی جارہی ہیں۔ زندگی کی رفتار پہلے کے مقابلے کئی گنا تیز اور زندگی کا بوجھ ہر کام کاجی خاتون پر بڑھ رہا ہے۔ رشتوں میں پھیکا پن، گھروں اور خاندان میں کشمکش اور تنازعات ازدواجی زندگیوں میں تلخی اورتناؤ اور انفرادی طور پر ٹینشن کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔

اسی کے ساتھ ترقی یافتہ معاشروں، میٹرو پولیٹن شہروں، دولت مند گھرانوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں طلاق کی کثرت، خاندانی نظام کے بکھراؤ اور شتوں کی کڑواہٹ اب تیزی سے پھیل رہی ہے اور نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ بڑے شہروں کی پاش کولونیوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم، اعلیٰ خاندانوں میں خواتین پر ہونے والے مظالم اور آزاد ماحول رکھنے والی کمپنیوں میں خواتین کا جنسی استحصال اور ہراساں کرنے کے واقعات اور شہری علاقوں ہی میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں تک میں خواتین کے ساتھ زنا بالجبر اور قتل کے واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم اور ہمارا معاشرہ خواتین کی آزادی اور مساوات کے تمام تر دعووں کے باوجود نہ صرف یہ کہ انہیں ان کا مقام دلانے میں نکام ہے بلکہ مزید ان کے لیے سنگین مسائل پیدا کررہا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس وجہ سے ہے کہ آج دنیا فطرت سے جنگ پر آمادہ ہوگئی ہے۔ فطرت نے عورت کو فکر معاش سے آزاد کرکے تعمیر نسل کی کلیدی ذمہ داری دی ہے اور معاشی کفالت کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے۔ حادثہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی مساوات مردو زن کی دعوے دار ان تحریکوں نے مرد کو تو کفالت کی ذمہ داری سے آزاد کردیا، مگر عورت پر دوہری ذمہ داری لاد ڈالی۔ وہ فطری ذمہ داریاں تو ادا کرے گی ہی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی لیے تخلیق کیا مگر اس کے ساتھ ہی وہ معاشی خودکفالتی کے جال میں بھی پھنسا دی گئی ہے۔ اب وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے یہ خود ایک کشمکش اور ذہنی تناؤ کی کیفیت پیدا کرنے والی صورتحال ہے۔ دنیا کی رنگینی اور عیش وآرام کی طلب اس کے دل و دماغ میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ اس کے لیے اسے چھوڑنے کا تصور ہی ہلادینے والا ہوتا ہے۔ باقی بچتی ہیں فطری ذمہ داریاں تو اب عورت کے لیے صرف فطرت سے بغاوت ہی کی صورت باقی رہ گئی ہے اور اسی کے نتائج میں جو آج ہم خاندانی نظام کے بکھراؤ، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خواتین میں ذہنی تناؤ کی صوت میں دیکھتے ہیں اور یہی کیفیت ہے جو سماج کے اعلیٰ ترین طبقہ کی خواتین کو خود کشی کی طرف لے جانے میں مددگار ہورہی ہیں۔ ملک میں خود کشی کا تیزی سے بڑھتا رجحان اس بات کی واضح دلیل ہے۔

اس پوری صورت حال سے مسلم خاتون بھی متاثر ہے اور کسی نہ کسی تناسب میں وہ بھی ان کیفیات کا شکار ہے جن کا تذکرہ ہوا۔

آخر کون ہے جو آج کی عورت کو اس کے ان مسائل سے نجات دلائے۔ کیا وہی لوگ ان کے لیے علاج ثابت ہوسکتے ہیں جنھوں نے ان کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ نہیں —جس ڈاکٹر نے ہمارے سماج و معاشرے کو بیماری کی اس سنگین کیفیت تک پہنچایا ہے وہ ہرگز مداوا نہیں کرسکتے۔ مداوا تو صرف وہ کرسکتے ہیں جو الٰہی ہدایت رکھتے ہیں اور عدل و انصاف پر مبنی نظام زندگی کے علم بردار ہیں مگر وہ ہیں کہاں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہماری خواتین اس کیفیت کی سنگینی کا حقیقی اندازہ لگا کر اس کے علاج کی طرف متوجہ ہوں۔ اگر ایسا فوراً نہ ہوا تو یہ سیلاب بالآخر کہیں ہم اور آپ کو بھی بہا نہ لے جائے۔

مریم جمال

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146