سالانہ امتحانات ختم ہوئے ، گرما کی تعطیلات شروع ہوگئیں ، بچے اسکول کے ڈسپلن اور نظام الاوقات کی پابندیوں سے ایک دو ماہ کے لئے آزادی محسوس کرتے ہیں ، لٹو ، گلی ڈنڈا ، بلا اور گیند سنبھالے صبح جو گھر سے نکلتے ہیں ، میل کچیل ، پسینے میں شرابور ، گالم گلوچ اور گندی زبان سیکھ کر دوپہر کو لوٹتے ہیں ، پھر جو 3؍بجے نکلے تو مغرب بعد گھر واپس ہوتے ہیں۔ پھر ٹی وی جو چالو ہوا تو رات دیر گئے تک نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی گھر میں ہنگامے، لڑائی جھگڑے اور شورو غل۔ چھٹیوں کی طوالت کبھی اکتا دیتی ہے ۔ بچے پوچھنے لگتے ہیں ’’ ممی میں کیا کروں ‘‘ ’’ ممی میں بور ہو رہا ہوں ‘‘ اور کبھی والدین کی شکایت ہوتی ہیں ’’ اچھی چھٹیاں ہوئیں سارا گھر سر پر اٹھا رکھا ہے‘‘ اور کبھی کہتے ہیں ’’ تم لوگوں نے ناک میں دم کررکھا ہے بس انتظار ہے کہ کب اسکول کھلے اور کب تمہیں تعلیم کے نظام میں جکڑ دیا جائے ‘‘ ضرورت ہے کہ اس صورتحال کو خوشگواری میں بدلا جائے۔ اکثر والدین کو یہ نہیں معلوم کہ پڑھائی سے تو چھٹی ضرور ہوئی ہے مگر تعلیم سے چھٹی نہیں ہوئی ہے ۔ نظام الاوقات کی پابندی سے تو بچے آزاد ہیں مگر وقت کا زیاں اس کا متبادل نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ رسمی تعلیم کی مدت ختم ہوئی۔ اب ایک دو ماہ غیر رسمی تعلیم کے لئے ہے ۔ اساتذہ کی نگرانی ختم ہوئی مگر والدین کی نگرانی میں پھر تعلیم کا سلسلہ شروع ہونا ہے مگر یہ تعلیم بچوں کے لئے بوجھ نہ محسوس ہو بلکہ کھیل کھیل میں وہ بہت کچھ سیکھ لیں۔ تفریح طبع کے سامان کے ساتھ ، سلیقہ مندی ، ہنرمندی ، تجزیہ و تفکر ، دین داری اور خدمت انسانی کی تربیت کا بہترین نظم ہونا چاہئے۔ والدین کو چاہئے کہ گرما کی تعطیلات کے لئے ایک بہترین منصوبہ بنائیں۔ اس کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہر بچے کے لئے ایک A4سیٹ لے لیں ، ایک کالم تیار کریں ، کچھ اسٹکرس چسپاں کردیں ، کچھ اہداف طے کریں اور انہیں پورا کرنے کے لئے انعام مقرر ہو ، اس طرح کی منصوبہ بندی بچوں کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ اولا تو منصوبہ اور اہداف ایک نیا انداز ہے ، ثانیاً اسٹکرس سے بچوں کو دلچسپی ہوتی ہے ، ثالثاً انعامات ان کے لئے محرک ہوتے ہیں۔ انعام آئس کریم بھی ہوسکتا ہے ، ریشمی کباب بھی ہوسکتا ہے ، بوٹنگ یا پکنک بھی ہوسکتا ہے۔
اہداف طے کرتے وقت3باتوں کا خیال رہے ۔ اولاً سال بھر جو کمیاں ان میں محسوس کی جاتی ہیں غیرمحسوس طریقے سے انہی کو اہداف بنایا جائے، ثانیاً ان کی صلاحیتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کچھ ایسا ہوم ورک دیا جائے جس سے ان کی صلاحیتیں نکھریں اور پروان چڑھیں: مثلاً پیٹنگ ، گانا وغیرہ، ثالثا اہداف میں چیلنج ہونا چاہئے۔ اہداف پانے پر بچے میں’’ احساسِ کامیابی‘‘ ( Sense of Accompalishment) پیدا ہوگا۔ منصوبہ ہفتہ وار ہوتو مناسب رہے گا۔ منصوبہ بنانے میں بچے کی رضامندی شامل رکھیں ۔ بلکہ انہی سے پوچھ کر بنائیں ، صرف رہنمائی آپ کریں ، یاد رہے، آپ کا رویہ اور جوش و خروش اہم ترین ہے۔ ذیل میں ایک فرضی منصوبہ دیا جارہا ہے فہرست طویل ہے ، آپ ان میں سے کچھ کا انتخاب ہفتہ وار کریں اور اپنی ضروریات کے لحاظ سے تر میم و تبدیل کریں، منصوبہ ایسا ہو کہ وہ مصروف بھی ہوں اور مسرور بھی ہوں۔
اسلام میں خاندان کی بڑی اہمیت ہے مغرب میں خاندان تو بڑے دور کی بات بچوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کا باپ کون ہے ! مگر اسلام بڑوں کا احترام سکھاتااور اقدار کی نشوونما چاہتا ہے۔ گرما کی تعطیلات میں عموماً رشتہ دار گھر آتے ہیں باہم دیگر رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں۔ اس سے بچوں میں رشتہ داروں کا تعارف ہوتا ہے ، اچھے برے حالات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے ، بچوں میں ایک خاندان ہونے کا گہرا شعور ہو ، محسنوں کے احسان یاد رکھنے کی صفت عالیہ پیدا ہوتی ہے اور خاندان میں جن سے تعلقات میں خرابی ہو ، کم از کم آئندہ نسل میں یہ دوریاں منتقل نہ ہونے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ خاندانی شعور پختہ کرنے کے حسبِ ذیل طریقے ہیں۔
(۱) رشتہ داروں کے گھر جانا، ملاقاتیں اور تعارف کرانا۔
(۲) کبھی فوٹو البم لے کر بیٹھنا ، پرانی خوشگوار یادیں تازہ کرنا، بچوں کو مختلف شخصیات اور مواقع کا تعارف کرانا۔
(۳) تایا جان ؍ پھوپھی جان ؍ خالہ جان کے پاس بیٹھ کر یہ سناناکہ دادا جان کون تھے ، دادی اماں کی پیاری پیاری باتیں ، نانا جان کی قربانیاں دینے کے لئے ، نانی اماں کی دلچسپ قصے ، تایا جان کے احسانات وغیرہ۔
(۱) تیراکی
تیرنا ایک پُر لطف مشغلہ ہے ، تیرنا ایک ورزش بھی ہے اور فن بھی ، تیرنے سے غیر نافع اضافی قوت صرف ہو کر موٹاپا کم ہوتا ہے ، تیرنے کے بعد نیند بڑے مزہ کی آتی ہے ، صحت کے ساتھ تیرنے سے بچے کے اندر خوشی کا احساس ’’ احساسِ فتح ‘‘ ،نئے فن کے حصول کا احساس اور اپنے بارے میں مثبت احساسات پیدا ہوتے ہیں۔
سمر میں بچوں کو کسی تیراکی کلب میں داخلہ کرواکر مسلسل 30، 40دن کا کورس کرادیں۔
اس ضمن میں دیگر لڑکوں کی صحت ، اور کنواں اور ندیوں میں نہانا مہلک ثابت ہوسکتا ہے ، جہاں سومنگ پول ہو اور جہاں اچھے اور ماہر Trainersہوں صرف وہیں بچوں کو تیراکی کا مشق کرانا چاہئے بہتر یہ ہے کہ والدین میں سے کوئی ساتھ ہو۔
(۲)جانور پالنا
30تا60دن کی چھٹیوں کا ایک بہترین مصرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچوں کو ان کی دلچسپی اور ذوق کے پیشِ نظر کچھ جانور وغیرہ پالنے اور اپنا شوق پورا کرنے کا موقع دیں ۔ جانوروں میں بلی اور خرگوش پالا جاسکتا ہے ، انڈے سینے سے بچوں کا نکلنا وغیرہ اچھا لگتا ہے، تتلیاں پالنابھی ایک بہترین مشغلہ ہے جس میں کچھ نزاکتوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے ، بعض درخت کے پتے کے پیچھے ( مثلاً آگ کا پتہ) تتلیاں انڈے دیتی ہیں ، انہیں توڑ کر لانا اور جالی دار ڈبے میں رکھنا ہوتا ہے ان سے کیڑے نکلتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد وہ کویا بن جاتے ہیں ۔ ایک حسین صبح رنگین و دلنشین تتلی پھر پھڑاتے اس سے نکلتی ہے رنگ برنگ کی مچھلیاں لا کر شیشے کے جار میں بالنا بھی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے ان سب مشغلوں کے فائدے حسبِ ذیل ہیں۔
(1) بچوں میں Parent ego (پرورش کی انا) مضبوط ہوتی ہے۔ جانور سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ انہیں چارہ ، خوراک اور پانی پہنچانے کی فکر ہوتی ہے۔ ان کے لئے شیڈ ، گھر ، ڈبہ ، پنجرہ بنانے کا فن بھی سیکھ لیتے ہیں۔ انہیں پیار و محبت کرنے سے جذبہ پدریت و مامتا کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
(2)بچوں میں Adult ego( تجزیاتی انا( بھی پروان چڑھتی ہے ۔ بچے خدا کی ان مخلوقات کو غور سے دیکھتے ہیں ، ان کی زبان سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی عادات و اطوار ، ذوق ، شوق ، خورد و نوش ، نیند اور بیداری ، معصومیت اور غصہ وغیرہ کا جائزہ قریب سے لیتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں، آگے کی زندگی میں یہ تجربے ان کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
(3)خدا کی حیرت انگیز قدرت ، تخلیقی قوت ، اس کی ربوبیت کا گہرا اثر دل پر ہوتا ہے ، مزید برآں انسان کواشرف المخلوقات ہونے کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے اور شکر گذاری کے جذبات سے دل معمور ہوتا ہے۔
گرما کی تعطیلات میں اس مشغلے کو شروع کرنے سے قبل ماں باپ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو باور کرادیں کہ یہ سب کام31مئی تک ہی کے لئے ہوں گے ، اسکول شروع ہونے کے بعد گھر کو ان چیزوں سے خالی کردیا جائے۔
(3)سبزی؍ ترکاری اگانا
گرما کی تعطیلات کا ایک بہترین اور پُر لطف مشغلہ یہ ہے کہ بچے اپنا ایک باغیچہ بنائیں ، گھر میں پچھواڑہ ہو تو اس کی اضافی اور ضروری اشیاء فراہم کردیں تو پھر گرما کی چھٹیاں نہ ماں باپ کے لئے بوجھ نہ بچوں کے لئے بوریت کا سبب ہوں گی۔ بعض ترکاری اور پودے تاخیر سے اگتے ہیں ، بعض دو چار دن کے اندر بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر دن کی نئی گلوکاری بچوں کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہے ۔ دن میں کئی کئی بار اپنے بغیچے کا وہ دورہ کرتے ہیں ۔ صبح اٹھنے کے ساتھ وہ بغیچے کی طرف لپکتے ہیں اسی شوق سے کہ کونپل نکلا ہوگا، کلی کھلی ہوگی ، نیا پتہ پیدا ہوا ہوگا!!!
مولی ، پیاز ، کدو ،خطمیر ،دھنیہ ، پتہ) میتھی کی بھاجی ، گل عباس ، ٹماٹر ، ہری مرچ وغیرہ ایسے ہیں کہ روز اپنی ترقی ظاہر کرتے ہیں اور بہت جلد بچوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
کپڑوں کا گندہ ہونا ، کچن کے گلاس چاقوں وغیرہ کا بغیچہ میں پہنچ جانا ، والدین کو برداشت کرنا ہوگا۔
اس مشغلے سے بچوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرت ،صناعی،کاریگری،مصوری کے صفات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ایک ہی مٹی اور پانی سے قسم قسم کے پھل پھول کا اُگنا ،انسانوں اور جانوروں کے لئے غلہ اناج کا فراہم ہوناتوحید کے قرآنی دلائل میںسے ایک دلیل ہے ۔بچوں کو اس جانب توجہ دلائی جائے ۔
(4)لائبریری کا دورہ
ہر شہر اور محلہ میں لائبریری اور دارالمطالعہ (ریڈنگ روم) ہواکرتے ہیں ۔کہیں امدادی تنظیمیں تو حکومت کے ز یر اہتمام ہوتی ہیں۔کتابیں،اخبار،رسالے وجریدے،اور ہفت روز میگزین وغیرہ مقامی ریاستی ،ملکی وبین الاقوامی سطح کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سب سے پہلے تو واقفیت ضروری ہے کون کون سے اخبار دنیا میں چھپتے ہیں ۔پھر کچھ کچھ مطالعہ کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ کونسا اخبار کس نظریہ کا علمبردار ہے ۔پھر لکھنے والوں کی بھی جانکاری ہوگی۔لائبریریوں کا دورہ کرنا علم دوستی کی علامت ہے۔ضرورت پڑنے پر رکنیت کارڈ بھی بنادی جائے اور گرما کی تعطیلات میں لائبریری کے لئے ایک وقت بھی متعین کردیا جائے۔
(5)ایک اضافی زبان میں مہارت
’’زبان دانی ذہانت کے دست وبازو‘‘نفسیات کے ماہرین کا مقولہ ہے۔زبان پر قدرت، سلاست وروانی،فصاحت وبلاغت ،الفاظ کا ذخیرہ،ادبی اسلوب،اشعار،کہاوت اور ضرب المثل ،وغیرہ پر دسترس عام بول چال کی زبان سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے خصوصی کوشش اور مشق چاہئے۔پھر ایک زبان پرمکمل قدرت حاصل ہونے سے دوسری زبانوں کا سیکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ بچے انگریزی اسلوب میں کلام کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسی کے لئے ضروری ہے کہ spoken Englishکلاسس میں انہیں داخلہ دلوایا جائے اس کی چار سطحیں ہوتی ہیں:
(1)زبان کی بنیادی تعلیم (Basic of language)
(2)زبان کے ادب اور گرامر کی اصلاح(literature & grammer)
(3)بول چال کی زبان (spoken English)
(4)مجمع عام سے خطاب کافن(Art of public speaking)
بچے کی عمر ،کلاس اور صلاحیت کے پیش نظر کسی ایک سطح سے زبان سیکھنے کے کورسس میںداخلہ دلوایا جائے۔
اسی طرح عربی زبان سیکھنے کے بھی کلاسس ہوتے ہیں ۔عربی زبان سیکھنے کا دوہرا فائدہ ہے۔ اولا تو وہ قرآن کی زبان ہے ۔قرآن فہمی میں اس سے مدد ملے گی اور دینی لڑیچر کا راست مطالعہ کرنا آگے چل کر ممکن ہوسکتا ہے ۔دوم یہ کہ عربی زبان دنیا کے ایک بڑے علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔مستقبل کے پردوں میں ہم نے جھانکا نہیں ہے۔ہوسکتا ہے تعلیم یا معاش اسے وہاں کھینچ لے جائے۔مقامی زبانیںدعوتی نقطہ نظر اور معاشی نقطہ نظر سے بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہندی، تامل، تلگو، کنڑی وغیرہ اس حدتک سیکھ لینا کہ بغیر لکنت اور رکاوٹ کے ما فی الضمیرادا کر نے کی قابلیت ہو جائے۔اسی طرح اس میں کسی ایک (انگریزی،عربی،تامل)زبان میں مہارت پیدا کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جائے۔
(6)ایک صلاحیت کا اضافہ
دنیا میں انسان کی قیمت اس کی صلاحیتوں کے مطابق ہوتی ہے۔جو جتنا با صلاحیت ہوتا ہے (بے اخلاق ہوتے ہوئے بھی) اونچے عہدے اور مناصب حاصل کرلیتا ہے ۔صلاحیتوں کا حصول اور فروغ بچپن میںآسان اور بڑی عمر میں دقت آمیز ہوتا ہے۔صلاحیتیں قوت ہوتی ہیں ۔بے صلاحیت ہونا کمزوری ہے۔آپ نے فرمایا:
’’قوی مومن اللہ کے نز دیک ایک ضعیف مومن سے بہتر ہے۔‘‘
قوت کا حصول ایک مومن کے نز دیک اپنی دنیا بنانے سے زیادہ جہادکیلئے ہوتا ہے۔آپؐ نے مومنوں کو تیراکی، تیر چلانے،گھوڑا سواری کرنے اوردیگر مارشل آرٹس سیکھنے کی ترغیب دی۔اس کی شروعات سائیکل اور بائک کی سواری سے ہو۔پھر کار چلانے کا فن جانے۔ٹینک اور جہاز چلانے کی صلاحیت کے لئے مندرجۂ ذیل صلاحیتیں بنیاد بنا کر کام دیں گی ۔ اسی طرح کمپیوٹر پر مہارت آج کی دنیا میں انتہائی اہم ہوگئی ہے جو کمپیوٹر نہیں جانتے وہ پڑھ لکھ کر بھی illitrateکہلائے جائیں گے، کمپیوٹر اب انسان کی فطرت ثانیہ بنتا جارہا ہے ، میزائیل اور راڈار ٹکنالوجی کی بنیاد بھی کمپیوٹر پر ہے ، لہٰذا اس جانب بنیادی تعلیم تو آج کل اسکولوں میں مل جاتی ہے البتہ پیشگی بعض مخصوص میدانوں میں مہارت پیدا کرانے کی جانب توجہ دی جانی چاہئے ،انہیں چیزوں پر قیاس کرتے ہوئے ڈنڈا چلانے کے فن کی اہمیت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ لڑکیوں کے لئے سلائی کڑھائی اور پکوان اہم ترین صلاحیتیں ہیں ۔ ان میں ید طولیٰ پیدا کرنے سے عورت سسرال میں اونچا مقام حاصل کرتی ہے۔
(۷)ایک مشاہدہ
روز مرہ کی زندگی میں بہت سی چیزیں ہم استعمال کرتے ہیں مگر ہمیں پتہ نہیں کہ وہ کیسے بنتی ہیں اور کہاں بنائی جاتی ہیں ، ہمارے ارد گرد ہی یہ سب بنتے ہیں مگر نہ ہمیں ان کا شعور ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ مثلاً گارمنٹ فیکٹری ، جوتے کی فیکٹری ، دیا سلائی کی فیکٹری ، کپڑا اور چٹائی بننے کی فیکٹری وغیرہ کا ایک دورہ اور مشاہدہ بچوں کی آنکھوںکو کھولنے والا ہوگا۔ انسانی زندگی میں مشینوں کی کار فرمائیاں اور Industriatizationکے گہرے اثرات اسے سمجھ میں آئیں گے۔
اس طرح آئس کریم فیکٹری ، دودھ ڈیری ، شکر فیکٹری ، دھان فیکٹری ( جہاں چاول اور بھس الگ کیا جاتا ہے) وغیرہ کا مشاہدہ دلچسپ بھی ہوتا ہے اور آئندہ کی زندگی میں معاش کی راہیں کشادہ اور وسیع نظر آتی ہیں ۔ اسلئے آسانی اور سہولت کے مد نظر رکھتے ہوئے ایک یا دو مقامات کا مشاہدہ کرائیں۔
(۸) آرٹ
آرٹ سے دلچسپی تخلیقی ذہن کی علامت ہے۔ آرٹ انسانی فکر کی وسعتوں کے اظہار کا ذریعہ ہے ، موجودہ دور کی ترقیوں میں آرٹ کا بڑا اہم کردار ہے ، ایک پِن ، پانی بوتل ، صابن ڈبہ سے لے کر ایک کار اور جہاز تک ڈیزائنگ وہی کرتے ہیں جنہیں آرٹ کے فن سے دلچسپی ہو۔ اسی تفصیل طلب موضوع پر ہمارا اگلا مضمون ملاحظہ ہو ، یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیں گے کہ گرما کی تعطیلات میں بچوں کو رنگین قلم، اسکیچ پن ، موم کی پینسلیں ، کچھ کارڈبور وغیرہ فراہم کردیں اور ان سے کہیں کہ روزمرہ کی چیزوں کے نقشے بنانے اور ان میں رنگ بھرنے ہوں گے مثلاً پلنگ ، میز ، کرسی ، فرج وغیرہ۔
(۹)ذاتی شعور
خاندانی شعور کے ساتھ ایک بچے کو اپنی ذات کا شعور بھی ضروری ہے اپنی ذات کی مکمل پہچان اپنی قوت اور کمزوری کا احساس ، اپنے جذبات سے واقفیت سے اپنی خودی کا شعور جس قدر حاصل ہوگا اسی قدر زندگی میں بعض اہم موڑ سے گذرنا آسان ہوتا ہے۔ بعض اہم واقعات یادوں کا حصہ ہوتے ہیں ، بعض حادثات زندگی کی کایا پلٹ دیتے ہیں ، یہ سب زندگی کے سنگ ہائے میل ہوتے ہیں ۔ Time Scaleبنانے سے بچہ کو احساس ہوتا ہے کہ زمانہ اس کے سامنے کیسے گذرا اور کیا کچھ اس نے پایا ۔ بچوں کی یاد میں بہت سارے اہم مرحلے نہیں ہوں گے اس لئے والدین کو چاہئے کہ Time Scaleکی تیاری میں اس کی مدد کریں مثلاً:
25اکتوبر1996 میں عدی الحسن پیدا ہوا۔
2؍ نومبر1996 میں میرا عقیقہ ہوا۔
11مہینے چلنے لگا۔
15مہینے ابو کے ساتھ بائیک پر مارکٹ جاتا تھا۔
22فروری2000 تیسرے بھائی کی پیدائش پر ہسپتال جا کر منو کو دیکھا ۔
( دوسرے کی پیدائش یاد نہیں)
2؍ سال کرکٹ کھیلتا ، دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر ’’ چکس‘‘ کہتا ،
گھر میں سب خوش ہوتے۔
1؍ جون 2000 پرائمری اسکول میں داخلہ۔
2001 ایک حادثہ ۔ گردے میں چوٹ لگی ، پھٹ گیا22دن
ہسپتال میں رہا۔
مئی2005 ممبئی کا دورہ۔
1؍ جون2005 ایک دوسرے اسکولSFSمیںداخلہ ہوا۔
ڈسمبر؍2005 سونامی کے علاقوں کا دورہ اور تباہی سے متاثر ہوا۔