عبدالرشید عثمانی صاحب ایک مخلص، متقی، اعلیٰ درجے کے مربی رفیق تھے۔ ان کی بے شمار یادیں ذہن میں تازہ ہیں۔
ہر نماز کے لیے وہ پندرہ بیس منٹ پہلے تیار ہوتے۔ مسجد آکر لازماً دو یا چار رکعت نماز ادا کرتے اور امام کے مصلے کے ٹھیک پیچھے بیٹھ جاتے۔ ظہر اور عصر اور کبھی کبھی مغرب کی نماز پڑھاتے۔ عصر کے بعد اکثر تذکیر ان ہی کی ہوتی۔ ٹھیک پانچ منٹ میں اپنی بات ختم کرتے۔ ان کی گفتگو میں غیر متعلق کوئی بات نہ ہوتی۔ ان کی تقاریر اور خطبات جمعہ میں بھی وقت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا۔ وہ مقررہ وقت میں اپنی بات ختم کرنے کا لحاظ رکھتے۔
مرحوم ہر تقریر و تذکیر کی تیاری کرکے حاصل مطالعہ کے نوٹس لیتے، کتابوں کے حوالے اور صفحات اپنی کاپی پر درج کرتے۔ اگر ایک موضوع پر بار بار تقریر کرنے کا موقع ملتا تو ہر بار تقریر میں نئی باتوں کا اضافہ کرتے۔ موضوع سے متعلق احباب سے گفتگو کرتے۔ خطاب عام کے موضوعات پر جب وہ تقریر کرتے تو سامعین کے ذہن میں جو اشکال پیدا ہوسکتے تھے ان کو ضرور زیر بحث لاتے۔ درد مندی اور سوز و گداز ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے تقریر پُر اثر اور جاندار ہوتی۔ عوام و خواص کے دل ان کی طرف کھنچتے تھے۔
مالیگاؤں مہاراشٹر ان کا وطن تھا، جہاں جماعت اسلامی کی دعوت شروع ہی سے پہنچ گئی تھی۔ بچپن ہی سے جماعت کے اجتماعات میں وہ شریک ہوتے، ہائی اسکول کرنے کے بعد رفقائے جماعت نے ان کے والدین کو آمادہ کرکے رشید صاحب کو ثانوی درسگاہ رامپور بھیج دیا۔ چونکہ اس درسگاہ میں علماء و گریجویٹ ہی کو داخلہ مل سکتا تھا اس لیے وہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ لیکن ان کے ذوق و شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے ان کو خصوصی طور پر داخلہ دیا گیا۔ انھوں نے محنت کرکے خودکو اس کا اہل بھی ثابت کیا۔ اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جماعت کے کاموں میں لگ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امیر مقامی اور ناظم ضلع رہے۔ اس کے بعد ناسک کے ناظم ڈویژن مقرر کیے گئے۔جماعت کی نمائندگان کے رکن اور حلقہ مہاراشٹر کی شوریٰ کے ممبر بھی منتخب کیے گئے۔
۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی لگی تو وہ باہر رہے اور خاموشی سے دورے کرکے رفقاء کو تسلی و تشفی دیتے اور دعوت کو عام کرتے رہے جو لوگ جیلوں میں تھے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی خدمت کرتے بعد میں ان کو بھی گرفتار کرکے ناسک کی ارورا جیل بھیج دیا گیا وہاں بھی مرحوم نے غیر مسلموں اور مسلمانوں دونوں میں اسلام کے پیغام کو پہنچایا ، خاص طور سے آر ایس ایس کے ذمہ داران میں اسلام کے تئیں شبہات کو دور کرنے کی پوری کوشش کی۔ ان لوگوں کی خوب تواضع بھی کرتے یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے گوشت کھلانے کی فرمائش کی تو انھوں نے وہ بھی پوری کی۔ ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد مالیگاؤں کے غیر مسلموں نے ایک جلسہ کیا جس میں وہ سب لوگ شریک تھے جو جیلوں میں بند تھے اس جلسے میں رشید صاحب اور ان کے ساتھیوں کو سند تحسین پیش کی۔
ایمرجنسی کے بعد رشید عثمانی صاحب امیر حلقہ مہاراشٹر بنائے گئے۔ ان کا میدان اب پوری ریاست قرار پائی۔ انھوں نے پورے مہاراشٹر میں دورے کیے اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی گئے۔ وہ مرکزی شوریٰ کے ممبر بھی منتخب کیے گئے۔ چند سال کے بعد ان کو مرکز جماعت دہلی میں سکریٹری کی حیثیت سے بلا لیا گیا۔ ان کے ذمہ تربیت کی ذمہ داری تھی۔ انھوں نے یہ کام بہت ذمہ داری اور لگن سے کیا۔ ان کے کردار کے اثرات دور دور تک پھیل گئے۔
محبت، شفقت، انکساری اور ایثار جیسی خوبیاں ان میں بہت نمایاں تھیں۔ ہر رفیق انھیں اپنا محسن و کرم فرما سمجھتا۔ لوگ اپنے مسائل بیان کرتے۔ موصوف ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے، انھیں طرح طرح کی مشورے دیتے۔
جن نوجوانوں نے ان کے ساتھ کام کیا، ان میں خود داری، خود اعتمادی، پڑھنے کا ذوق نیز دین کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کا جذبہ پیدا ہوا۔ ان سے گفتگو کرکے دل سبک ہوجاتا۔ مرکز جماعت میں ہمارے جو کارکنان پڑھے لکھے نہیں تھے ان کو رشید صاحب نے پڑھنا لکھنا سکھایا۔
نماز جماعت کی پابندی بلکہ تکبیر تحریمہ میں شرکت ان کی عادت ثانیہ تھی وہ شب بیدار انسان تھے، تہجد کا غیر معمولی اہتمام کرتے بلکہ سفر میں بھی اس کی پابندی کرتے۔
ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ وہ باوضو رہیں، پھر بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا پسند کرتے۔ کوئی بھی جلسہ، میٹنگ یا نشست ہو وہ وضو کا اہتمام کرتے۔ وہ کسی کے خلاف دل میں میل نہیں رکھتے تھے۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جس شخص میں یہ دو خوبیاں پائی جائیں اسے جنت سے سرفراز کیا جائے گا۔جب کوئی ضد کرتا اور بال کی کھال نکالتا تو وہ خاموشی اختیار کرلیتے۔ اس طرح جب کوئی رفیق اختلاف میں اقدار کو پامال کرتا تو انھیں بہت تکلیف ہوتی وہ ایسے رفقاء کے لیے دعا کرتے۔
رشید عثمانی صاحب میں ذمہ داری کا احساس غیر معمولی تھا، وہ وقت اور وعدے کی پابندی کرتے تھے، جو کام ان کے سپرد کیا جاتا وہ اس کو کرنے میں جان لگادیتے تھے۔ ذمہ داری کا لفظ ہم بولتے سنتے اور لکھتے رہتے ہیں لیکن رشید صاحب کے عمل سے ذمہ داری کے معنی و مفہوم سمجھ میں آتے تھے۔ رشید صاحب کی زندگی اس حدیث کی زندہ ترجمان تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو محبوب رکھتا ہے جو ہر کام ذمہ داری سے انجام دیتا ہے اور اس کام کا حق ادا کرتا ہے۔‘‘
مالیگاؤں میں جامعۃ الہدیٰ ان کی کوششوں کا ثمرہ ہے جہاں طلبہ عالم دین بھی بنتے ہیں اور میٹرک بھی پاس کرتے ہیں۔ اس درسگاہ کا میٹرک کا نتیجہ تقریباً صد فی صد رہتا ہے۔ اخیر عمر رشید صاحب نے اسی درسگاہ کے لیے وقف کردی۔
وہ مضامین بھی لکھتے، رمضان اور عیدین سے قبل ان کے مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے۔ ان کا آخری مضمون ’’اللہ سے محبت کے تقاضے‘‘ کے نام سے اپریل ۲۰۰۶ء کے ماہنامہ زندگی میں شائع ہوا۔
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اقبالؔ