آسماں سے مرے اک اور ستارہ ٹوٹا

ڈاکٹر سید عبدالباری

کل میرے عزیز دوست و ہم سبق رشید عثمانی بھی اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ دو سال پہلے وہ یہیں دہلی میں مقیم تھے اور صبح و شام ان کی دلنواز مسکراہٹوں اور محبت آمیز نگاہوں سے واسطہ تھا۔ آج سے ۴۸ سال قبل جب میں ۱۹۵۷ء میں رامپور میں جماعت اسلامی ہند کی ثانوی درسگاہ میں گریجویشن کے بعد عربی زبان اور دینی مضامین کی تعلیم کے لیے لکھنؤ سے آکر داخل ہوا تو سب سے زیادہ دلکش شخصیت کیرالہ کے عبداللہ صاحب اور مالیگاؤں کے رشید عثمانی کی نظر آئی جو میرے استقبال کے لیے سراپا انتظار تھے۔ پھر تعلیم کے حصول کے مراحل ان کی رفاقت میں طے ہوئے۔ رامپور کے یہ شب و روز بے حد دلکش و دلربا تھے۔ ثانوی درسگاہ کے ذہین طلبہ کی ٹیم بھی اپنے اپنے فن میں ماہر اور اساتذہ بھی منتخب روزگار، جو بیسویں صدی کی تاریخ ملت اسلامیہ میں اپنا ایک مقام بناکر اب رخصت ہوچکے ہیں، یعنی مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا عروج قادری وغیرہ۔ رشید عثمانی مجھ سے ایک سال سینئر تھے اس لیے رامپور کے اہل علم اور خواص میں رسائی ہمیں انھیں کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ ان کا کمرہ ہمارے کمرے کے بالمقابل تھا۔ ہاسٹل کے مطبخ اور اس کے نظم و انتظام کی ذمہ داری زیادہ تر انھیں کے سپردتھی۔ اساتذہ میں اپنی خوش مزاجی اور جذبہ خدمت کے سبب بے حد مقبول تھے۔ انھیں کے نقش قدم پر چل کر ہم نو واردین نے بھی تحریک اسلامی کا ایک مثالی کارکن بننے کا ہنر سیکھا۔ اگرچہ مجھے لکھنؤ یونیورسٹی میںطلبہ کے اندر دعوت حق پیش کرنے اور ان کی تنظیم سازی کا خاصا تجربہ ہوچکاتھا مگر رشید صاحب کے انداز میں جو قلندری، سادگی،خاکساری اور والہانہ انداز تھا وہ ہمارے لیے نرالا تھا۔ مولانا جلیل احسن ندوی کی ان پر خاص شفقت تھی۔ مولانا ہر نماز کے بعد چائے نوش کرتے تھے اور رشید عثمانی دو وقت ان کی چائے بناتے۔ مجھے بھی ایک وقت اسٹو پر چائے تیار کرنے کی سعادت کئی ماہ تک حاصل رہی۔

رشید عثمانی چلتے پھرتے قلندر تھے۔ مزاج میں عجب سیمابیت تھی۔ ماحول سے پوری طرح باخبر اور ہر شخص کی ضرورتوں کی تکمیل میں ہاتھ بٹانے کو تیار۔ رامپور کا چپہ چپہ ان کا چھانا ہوا تھا۔ کبھی وہ آموں کی فصل میں ثمر بہشت کا عالم ترشح میں لطف اٹھانے باغ بے نظیر اپنے رفقائے ثانوی کے ساتھ جاتے، کبھی رامپور کی نمائش کا لطف اٹھاتے، کبھی جامع مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد مولانا وجیہ الدین کی خانقاہ میں استفادہ کرتے، کبھی رامپور کے قلعے کے اندر رضا لائبریری اور صولت لائبریری میں وقت گزارتے۔ کبھی رامپور کے ٹوٹ کر ملنے والے بعض احباب اور بزرگ مثلاً منظور احمد شمسی مرحوم، مائل خیر آبادی مرحوم، مولانا افضال اللہ، اور اقبال احمد ایڈوکیٹ کی صحبتوں میں چائے کی جرعات کے ساتھ تازہ ترین مسائل ملت و ملک پر گفتگو ہوتی۔ رشید صاحب مولانا عبدالحئی کے رسالہ الحسنات میں برابر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ ثانوی درسگاہ کی عمارت کے سامنے حکیم مسیحا نظامی کی قدیم و کشادہ عمارت تھی جس میں وہ نوچندی کی رات میں قوالی کرواتے تھے جس میں فارسی کلام قوال پیش کرتے۔ ہم طلبہ اس روز اپنے مطالعہ کے نقصان پر ماتم کرتے۔ رشید صاحب بھی رات بھر’’ اہے خواجہ اہے خواجہ‘‘ کی عین سامنے کے کوٹھے سے آنے والی صدا پر بھناتے مگر جب بھی دن میں حکیم صاحب کے مطب کے سامنے سے گزرتے تو ان کو بڑھ کر سلام کرتے اور ’’نوبت بایں جا رسید‘‘ کا قطعاً کوئی ذکر نہ کرتے کہ حکیم صاحب کو روحانی ملال نہ ہو۔ رامپوری ہوا خوری کا نشہ ہر شخص پر نماز فجر کے بعد سوار ہوجاتا۔ بڑے بڑے بزرگ اور ہم جیسے نوآموز قیس دیوانے کی طرح شہر کے باہر صحرا نوردی کے لیے نکل کھڑے ہوتے مگر قائد تحریک اسلامی مولانا ابواللیث اصلاحیؒ سے سب مات کھا جاتے۔ مولانا کی ہوا خوری کا دائرہ خاصا وسیع تھا۔ رشید صاحب کچھ دیگر دانشور طلبہ کی طرح زیادہ فلسفیانہ گفتگو نہ کرتے لیکن انسان کی نفسیات اور انسانی رشتوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ سراپا ایثار و قربانی تھے۔ ہم غریب الوطن طلبہ کی بیماری آزاری میں سب سے زیادہ وہی کام آتے۔ کپڑے پھٹ جائیں تو سینے پرونے میں بھی مدد کرتے۔ ثانوی طلبہ کی ہفت روزہ بزم خطابت و مذاکرہ میں سب سے زیادہ پرجوش تقریر انھی کی ہوتی۔مولانا وحید الدین خاں جو اس زمانہ میں رامپور میں شعبہ تصنیف و تالیف میں تھے، اکثر اپنی دلچسپ عادات و اطوار کے سبب موضوع گفتگو رہتے۔ خاں صاحب شیروانی کے سخت مخالف تھے۔ اسی زمانہ میں جاڑوں میں میں نے اور میرے رفیق درسگاہ حبیب حامد الکاف نے رامپور میں شیروانی سلوائی تو خاں صاحب کی بڑی تیکھی نظر ہم پر پڑی۔ وہ ایک کمبل میں جاڑا کاٹ دیتے۔ بیٹوں اور بیٹیوں کو کم سے کم ضروریاتِ زندگی تک محدود رکھتے۔ رشید صاحب اس زمانہ میں خاں صاحب کی قلندرانہ زندگی کے خاصے قدر داں تھے البتہ ان کی فکری لغزید پائی پر تنقید بھی کرتے۔ ایک بار خاں صاحب نے بڑے اضطراب سے فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ایران پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔ اسلام تو دلوں کو جیتنے والا مذہب ہے پھر یہ فوج کشی اور جنگ و جدال کیوں ہوا۔ رشید صاحب اور ان کے ساتھ ہم لوگوں نے ہم آواز ہوکر خاں صاحب سے عرض کیا کہ مظلوموں کو ظالم سے نجات دلانا بھی انسانیت کا تقاضہ ہے اور صدیوں سے استعماریت و ملوکیت کی چکی میں پس رہے عوام کو چھٹکارا دلانے کے لیے حضرت عمرؓ نے یہ اقدام کیا تھا۔ حیرت ہے کہ آپ کی سمجھ میں یہ معمولی سی بات نہ آئی۔

غرض رشید صاحب حق گوئی میں کسی سے دبنے والے نہیں تھے۔ رامپور میں برادرم ابن فرید اکثر علی گڑھ سے آتے کبھی کبھی عرفان احمد صاحب تشریف لاتے اور اچھی صحبتیں رہتیں۔ شہر کے ممتاز کرم فرما فیاض احمد خاں صاحب، توسل حسین صاحب، رحمانی صاحب اور امجد صاحب کی مدارات بھی یاد ہے۔ ہر جگہ رشید صاحب پیش پیش ہوتے۔

رشید صاحب کی یہ خاص صفت تھی کہ وہ ابلی دال اور چاول بھی اسی اشتیاق سے نوش کرتے جس بشاشت کے ساتھ پلاؤ و قورمہ سے ہمکنار ہوتے۔ مرحوم مائل خیر آبادی اکثر ہم غریب الدیار طلبہ کو اپنے گھر ساگ میں پکی ہوئی ماش کی دال اور دیسی موٹے چاول کی دعوت دیتے۔ رشید صاحب اس موقع پر اس قدر خوش ہوتے گویا نواب رامپور کے دسترخوان پر جلوہ فرما ہوں۔ اف! اس عہد کی بے شمار یادیں ہیں کن کن کا ذکر کیا جائے۔ اس دلکش شخصیت کے ساتھ گذرے ہوئے تین سال کبھی نہ بھولیں گے۔ پھر وہ مالیگاؤں ۱۹۶۰ء میں چلے گئے اور میں ایم اے کرنے گورکھپور یونیورسٹی چلا گیا۔ پھر جماعت اسلامی کے کل ہند اجتماعات میں ان سے بار بار دید و شنید ہوتی رہی۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور قائد ہوگئے۔ فقیر ایک یونیورسٹی کا حقیر استاد مگر ادارہ ادب اسلامی ہند اور اس کے متعدد ماہناموں کے رشتے سے ان سے برابر ربط رہا۔ مالیگاؤں بھی ان کے دولت خانے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ بمبئی میں جب وہ امیر حلقہ کے منصب پر فائز تھے اس وقت بھی ان کے یہاں حاضری دی۔ کبھی کبھی وہ مجھے خطوط بھی لکھتے رہے۔ خوشی ہے کہ ان کی زندگی کے آخری دور میں دہلی میں ۲ سال ان کا قرب مجھے حاصل رہا جب کہ وہ شعبۂ دعوت کے سکریٹری کی حیثیت سے مرکز جماعت میں مقیم تھے اور فقیر ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جماعت کے شعبہ تصنیف و تالیف میں خدمت انجام دے رہا تھا۔ یہ مولانا سراج الحسن کی امارت کا عہد تھا جن کی شخصیت بے حد دلنواز تھی۔ رشید صاحب شعبۂ دعوت میں اکثر مصروف مطالعہ رہتے۔ ملک کے مختلف حصوں کے دورے کرتے، تذکیر و تلقین کا اندازبے حد دلربا تھا۔ چلتے تو سراپا خیر نظر آتے اور بات کرتے تو محسوس ہوتا کہ کوثر و تسنیم کے چشمے اسی دنیا میں رواں ہوگئے ہیں۔ رشید صاحب نے ثانوی درسگاہ میں جو علم حاصل کیا تھا اس کو پورا کا پورا اپنے ابنائے جنس میں تقسیم کردیا۔ دہلی سے جب وہ روانہ ہوئے تو بہت افسردہ و ملول تھے۔ دہلی کے احباب کی محبت ان کے دل میں بیٹھ گئی تھی۔ یہاں سے عوام کے ایک بڑے حلقے تک وہ اپنی بات پہنچا سکتے تھے۔ انھیں احساس تھا کہ مالیگاؤں جاکر وہ ایک محدود دائرہ میں سمٹ جائیں گے۔ بہرحال وہ چلے گئے۔ مرکز جماعت ایک دلکش شخصیت سے خالی ہوگیا۔ ہم لوگ انھیں یاد کرتے رہے اگرچہ اب جدید مشینی دور میں جانے والوں کو یاد کرنے کی بھی انسان کو مہلت نہیں ملتی یا شاید انسانوں کا ظرف اس قدر تنگ ہوگیا ہے کہ کوئی نظر کے سامنے ہے تو ٹھیک ہے، اور اوجھل ہوا تو اس کی ساری خدمات و احساسات بھی نسیاً منسیا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کا قول تھا: نام نیک رفتگاں ضائع مکن۔ خدا رشید صاحب کوجوارِ رحمت میں جگہ عطا کرے ، پسماندگان کو صبر عطا کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146