حضرت جلیبیبؓ کی بیوی

ابو عدنان انجم تیمی

اللہ اور اس کے رسول کی بلا قیل و قال فرماں برداری و اطاعت گذاری ایک مومن مرد و عورت کے دل کی حقیقی تمنا ہوتی ہے۔ اس کے مقاصد زندگی کی فہرست میں یہی چیز سرفہرست ہوتی ہے۔ کوئی طوفان اٹھتا ہے تو اٹھے، مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے لیکن ایک پکا اور سچا مومن کسی بھی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجا آوری کی راہ میں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردینا اپنی سب سے بڑی سعادت و خوشی تصور کرتا ہے۔ خود رب کائنات بھی یہی چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’اور کسی مومن مردوعورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو اللہ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘ (احزاب: ۳۶)

مطلب یہ ہے کہ خدا اور رسولِ خدا کا فیصلہ آخری اور حتمی فیصلہ ہے اور دونوں کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد و عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرتسلیم خم کردے۔ گویا اسلامی معاشرہ اس مصرعہ کی سچی اور کامل تصویر ہوتا ہے ؎

سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی مصطفی ﷺ نے اپنے ہم نواؤں اور ہم پیالوں کی جو جماعت تیار کی تھی اس کا ایک ایک فرد اپنی جان سے زیادہ اطاعت خدا و رسولِ خدا کو عزیز سمجھتا تھا۔ ان کے ایک جنبشِ ابرو پر سو جان سے صدقے جانا اس جماعت کے ہر ہر فرد کے لیے عزیز ترین متاعِ حیات تھی۔ اس کی شہادت صرف اپنوں ہی نے نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے جانی دشمنوں نے بھی دی ہے۔ کچھ ایسی ہی جاں نثاری و فدائیت ہماری اس خاتون نے پیش کی ہے۔ آئیے اس عظیم صحابیہ کی داستانِ حیات سنئے اور اپنا محاسبہ کیجیے۔

رسول اکرم ﷺ کی بیدار آنکھیں مدینہ کی نو آموز مسلم سوسائٹی کی مسلسل پہرے داری کررہی تھیں تاکہ اس سوسائٹی، میں خدانخواستہ کوئی ایسی برائی نہ آنے پائے جو مستقبل میں خطرناک صورت اختیار کرکے پورے سوسائٹی کی ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بن جائے۔ آپ کی اسی چوکسی کی بنا پر وہ چھوٹا سا مدنی معاشرہ ایسا مثالی معاشرہ بن گیا تھا جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی لیکن رسول اللہ ﷺ کے کانوں میں چند دنوں سے مسلسل یہ خبر آرہی تھی کہ جلیبیبؓ نامی ایک شخص بلا روک ٹوک مسلم خواتین کے پاس جاتا ہے، ان سے گفتگو کرتا ہے، انہیں ہنساتا ہے اور ان سے مزاح و مذاق کرتا ہے جس سے لوگ اسے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں اور وہ مدنی سوسائٹی کے فساد و بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ خبریں سن کر حضور انور ﷺ پریشان ہو اٹھتے ہیں کیوں کہ معاملہ رفتہ رفتہ یہ صورت حال اختیار کرگیا تھا کہ لوگوں نے اپنی بیویوں کو یہ حکم دے ڈالا تھا کہ اگر حلیبیب ان کے پاس آئے تو وہ اسے جھڑک کر گھر سے نکال باہر کریں۔ آخر اس شاذو نادر معاملہ کا علاج کیا ہو؟ اس نے ایسے کسی گناہ کا ارتکاب بھی نہ کیا تھا کہ اسے سزا دی جائے یا اس پر اسلامی تعزیرات کی کوئی دفعہ نافذ کی جائے؟ کیا اسے آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ جہاں چاہے جائے اور آئے؟آخر اس کے بارے میں کون سا پیمانہ اختیار کیا جائے؟ دربار رسالت سے اس مرض کا یہ علاج تشخیص کیا جاتا ہے کہ اس کی شادی کردی جائے کیوں کہ حلیبیب کی اس کمزوری کا اس کے سوا کوئی دوسرا علاج تھا ہی نہیں۔ رسول اکرم ﷺ ایک شخص کو اپنی بیٹی سے حلیبیب کی شادی کردینے کی بات فرماتے ہیں لیکن لڑکی کی ماں بھڑک اٹھتی ہے۔ اس کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور وہ کہنے لگتی ہے کہ کیا جلبیب آپؐ کا بیٹا ہے؟ قسم بخدا ہم اپنی بیٹی کا نکاح حلیبیب سے ہرگز نہ کریں گے۔ لیکن سعادت مند بیٹی جواب دیتی ہے کہ ’’ہوشیار باش! رسول اکرم ﷺ کے حکم کی بجا آوری سے کتراتے ہو؟ مجھے ان کے سپرد کردو، وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے۔‘‘

رسول اکرم ﷺ کی خواہش و تمنا کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینا کوئی کھیل نہیں۔ یہی سوچ کر وہ سعادت مند لڑکی آپ کی صدائے دلنواز پر لبیک کہتی ہے۔ آپؐ اسے دعا دیتے ہیں کہ اے اللہ! تو اس پر اپنے کرم و عنایت کی بارش کر اور اس کی زندگی اجیرن نہ بنا۔ مستجاب الدعوات کی دعا باب رحمت سے شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی اس کے دن پھر گئے اور اس کا گھرانہ انصاریوں میں سب سے زیادہ مالدار گھرانہ بن گیا، وہ خاتون ہوشمند محتاجوں، مسکینوں اور کمزوروں کا ٹھکانہ بن گئی۔ یہ تھی اس خاتون جنت کی مختصر روداد۔ اور وہ حلیبیبؓ؟ تو وہ ایک معرکہ میں رسول دو جہاںؐ کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ جب معرکہ کی آگ بجھتی ہے تو آپؐ حلیبیب کو اپنے ساتھیوں میں موجود نہیں پاتے۔ آپؐ ان کی تلاش میں نکلتے ہیں اور دیگر لاشوں کے درمیان جب ان کا لاشہ ملتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سات بار قتل کیا گیا ہے۔ آپؐ انہیں دیگر شہداء کے ساتھ بغیر غسل دیے دفن کردیتے ہیں اورپھر فرماتے ہیں کہ ’’میں کا ہوں اور وہ میرا ہے۔‘‘ (مسلم)

حاکم قوم ایسا ہی ہوتا ہے وہ اپنی قوم کے کمترین افراد کو نظر حقارت سے نہیں دیکھتا بلکہ اس کا قلب حاذق اپنی بے پایاں بصیرت سے اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ اگر ان میں سے کسی کمترین فرد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ اپنی قوم کے لیے بڑا ہی سود مند و مفید شخص بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اس شہید امت نے اپنی قوم کو نفع پہنچایا۔ اس نے داد شجاعت دی اور آخر کار شہیدوں کے آسمان کا ایک انتہائی روشن بن گیا اور وہ دیدئہ بینا رکھنے والی لڑکی جس نے پوری دنیا کو ٹھکرا کر حضرت رسالت مآبؐ کے حکم کی بجا آوری کی شہید کی بیوی کہلائی۔

ذرا سوچیے کہ حلیبیب اپنی کرتوتوں سے پوری سوسائٹی میں شک کی نگاہ سے دیکھنے جانے لگتے ہیں یہاں تک کہ خواتین مدینہ کو ان کے شوہروں کی طرف سے یہ حکم نامہ ملتا ہے کہ وہ جب بھی آئیں انہیں بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا جائے لیکن آپؐ ان سے مشفقانہ برتاؤ کرتے ہیں اور وہ خوش نصیب لڑکی جو صرف آپؐ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس بدنام شخص سے شادی کرلیتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی۔

تو آئیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بھی دنیا و آخرت دونوں سنورے تو یتیم مکہ کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ بلا جھجک دے دیجیے۔ آپ کا وہ حسین مقصد ضرور پورا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146