اسوئہ رسول ﷺ اور خواتین

محمد عبد اللہ جاوید

(4) اطاعت رسولؐ

رسول اکرمﷺ پر ایمان کا لازمی تقاضہ ہے کہ ہر حال میں آپؐ کی اتباع کی جائے۔حتی کہ دنیا کا کوئی تعلق اس راہ کی رکاوٹ نہ بنے۔ او رایک بندہ مومن کے نزدیک تمام تعلقات سے بڑھ کر آپؐ سے تعلق اور محبت ہو۔یہی ایمان کی پہچان ہے:

وَاللّٰہ لَا یُؤْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَ وَلَدِہِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔

’’بخدا! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ‘ اسکی اولاداور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔‘‘

رسول اکرم ﷺ کی اطاعت میں صحابیاتؓ پیش پیش رہتیں۔مختلف امور و مسائل میں رہنمائی حاصل کرتیں۔مختلف موقعوں سے آپؐ نے انہیں دینی احکامات ‘اخلاق وکردار‘ حسن سلوک ‘ ازدواجی زندگی کے اصول ‘بچوں کی تربیت‘دعوت دین اورجہاد وغیرہ سے متعلق ہدایات دیں۔اور تادم حیات اللہ کی یہ نیک بندیاں اس رہنمائی سے استفادہ کرتی رہیں۔

رہنمائی

عن ابی ھریرہؓ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اَیُّ الْاَعْمَالِ اَفْضَلُ وَاَیُّ الْاَعْمَالِ خَیرٌ؟

’’رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کونسے اعمال فضیلت اور خیرکی مناسبت سے بہتر ہیں؟‘‘

٭ اِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ……

(آپؐ نے فرمایا) اللہ اور اسکے رسولؐ پر ایمان لانا

اَیُّ الْعَمَلِ اَفْضَلُ؟

کون سا عمل افضل ہے ؟

٭ اِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ …..

’’(آپؐ نے فرمایا) اللہ اور اسکے رسولؐ پر ایمان لانا۔‘‘

عملی نمونے

َ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کو حدیث سننے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن بال گوند وا رہی تھیں کہ حضور اکرمﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے زبان مبارک سے ایھا الناس (اے لوگو) کے الفاظ نکلے تو فوراً بال باندھ کر کھڑی ہوئیں اور کھڑے ہوکر پورا خطبہ سنا ۔

َ زمانہ جاہلیت میں عرب کی عورتیں نہایت بے پروائی کے ساتھ ڈوپٹہ اوڑھتی تھیں اس لئے سینہ وغیرہ کھلا رہتا تھا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوبِھِنَّ (النور:۳۱)

’’عورتوں کو چاہئے کہ اپنے ڈوپٹوں کو اپنے سینوں پر ڈالیں۔‘‘

اس کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں نے اپنے تہ بند اور متفرق کپڑوں کو پھاڑ کر ڈوپٹے بنائے اور اپنے آپ کو سیاہ چادروں سے اس طرح ڈھانپ لیا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سر پرندوں کے آشیانے بن گئے ہیں۔

َ حضرت فاطمہؓ بنت قیس جن سے ایک طرف حضرت عبد الرحمن بن عوف جیسے دولت مند صحابی نکاح کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف آپؐ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے متعلق ان سے گفتگو کی تھی۔ لیکن فاطمہؓ بنت قیس نے آپؐ کو اس سلسلہ میں پورا اختیار دیا اور کہا کہ میرا معاملہ آپؐ کے ہاتھ میں ہے جس سے چاہیں نکاح کردیں۔

(5) خواتین کے قرآنی اوصاف

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلم خواتین کے اوصاف کا مختلف انداز میں ذکر فرمایا ہے۔ سورہ التوبہ کی آیت 71کی روشنی میں مومنات کی درج ذیل ذمہ داریاں بتائی گئیں:

(۱) نیکیوں کا حکم دینا (۲) برائیوں سے روکنا (۳) نماز قائم کرنا (۴) زکوۃ ادا کرنا (۵) اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت کرنا۔

سورہ الاحزاب کی آیت 35کی روشنی میں مومن عورتوں کے حسب ذیل اخلاق و کردار کو بیان کیا گیا ہے:

(۱)قانتات – انتہائی فرمانبردار(۲)صادقات- راست باز (۳) صابرات- ہر حال میں صبر کرنے والی(۴)خاشعات – خشوع اختیار کرنے والی (۵) متصدقات- صدقہ و خیرات کرنے والی (۶) صا ئمات – روزہ رکھنے والی(۷)حافظات- اپنی عفت کی حفاظت کرنے والی(۶) الذاکرات- اللہ کا ذکر کرنے والی۔ ان کے علاوہ جہاں بھی مومنین اور صالحین کے اعلیٰ اوصاف کا ذکر ہے‘ ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔

رسول اکرمﷺ نے خواتین کی تربیت اس طرح فرمائی کہ یہ قرآنی اوصاف ان کے اندر پروان چڑھے اور صحابیاتؓ کا طرزفکرو عمل عین انہیںکے مطابق رہا۔

رہنمائی

— قَالَت النِّسَآئَ لِلنَّبِیِّﷺ غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِّنْ نَّفْسِکَ فَوَعَدَھُنَّ یَوْمًا یلتَقِیْھُنَّ فِیْہِ فَوٰعَظَھُنَّ وَامَرَھُنَّ فَکَانَ فِیْمَا قَالَ لَھُنَّ مَا مِنْکُنَّ اِمْرَئَ اۃٌ تُقَدِّمُ ثَلٰـثَۃً مِّنْ وَلَدِھَا اِلاَّ کَانَ لَھَا حِجَابًا مِّنَ النَّار — فَقَالَتْ امْرَأَۃٌ وَّاثْنَیْنِ وَاثْنَیْنِ۔

(عن ابی سعید الخدریؓ – بخاری – کتاب العلم )

’’عورتوں نے بنیؐ سے عرض کیا کہ مرد آپؐ سے تربیت حاصل کرنے میں ہم پر غالب آگئے۔لہٰذا آپؐ اپنی طرف سے خاص ہمارے لئے ایک دن مقرر فرمادیجئے (تاکہ ہم بھی آپؐ سے تربیت حاصل کرسکیں)؟‘‘آپؐ نے ان سے ایک دن ملنے کا وعدہ فرمایا۔اس دن انکو نصیحت کی اور شریعت کے احکام بتلائے۔ ’’آپؐ نے جو نصیحت فرمائی اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیجے (یعنی ان کی بہتر تعلیم و تربیت کا نظم کرے) ۔‘‘ ’’تو (آخرت میں ) اس کے لئے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائیں گے۔‘‘ ایک عورت نے پوچھا کیا اگر کوئی دو بھیجے تب بھی؟ آپؐ نے فرمایا ’’اور دو بھیجے تو بھی (یعنی دو بچوں کی پرورش پر بھی)‘‘

— اِنَّ لِیْ جَارَیْنِ فَاِلیٰ اَیِّھِمَا اُھْدِیْ؟

’’ ایک عورت نے سوال کیا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میر ے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کے یہاں ہدیہ بھیجوں؟‘‘

٭ اِلیٰ اَقْرَبِھِمَا مِنْکَ بَاباً

آپ ؐنے جواب دیا: اس پڑوسی کے یہاں جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (عن عائشہ ؓ – بخاری)

شرعی احکامات کی تعلیم کے ساتھ بچوں کی پرورش سے متعلق بھی آپؐ نے نصیحت فرمائی۔ آپ ؐ کی اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابیات ؓ کاموں کو انجام دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتیں۔

عملی نمونے

َ سخاوت اورفیاضی ام المومنین حضرت سودہؓ کی خاص خوبی تھی۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی ۔انھوں نے لانے والے سے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ درہم ہیں۔ بولیں کہ کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں؟ یہ کہہ کر اسی وقت سب کو تقسیم کردیا۔وہ طائف کی کھالیں بناتی تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس کو بڑی فراغ دلی کے ساتھ نیک کاموں میں خرچ کرتی تھیں۔(سیرالصحابہ)

َ حضرت ام الفضلؓ بڑی عبادت گذار تھیں۔اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دے رکھا تھا اس پر راضـی رہتیں۔ہر دو شنبہ اور پنجشنبہ کو روزہ رکھتی تھیں۔(سیرالصحابہ)

َ حضرت ام سُلیمؓ نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں۔ ابو عمیر‘ ان کا بہت لاڈلا اور پیارا بیٹا تھا۔ لیکن جب اس کا انتقال ہوا تو نہایت صبر سے کام لیا اور گھر والوں کو منع کیا کہ ابوطلحہ ؓ کو اس واقعہ کی خبر نہ کریں۔رات کو جب ابوطلحہؓ گھر آئے تو ان کو کھانا کھلایا اور نہایت اطمینان سے بستر پر لیٹے۔کچھ رات گذرنے پر ام سُلیمؓ نے اس واقعہ کا تذکرہ بڑے پر اثر انداز سے کیا۔ بولیں اگر تم کو کوئی شخص عاریۃً ایک چیز دے اور پھر اس کوواپس لینا چاہے تو کیا تم اس کے دینے سے انکار کروگے؟ ابوطلحہؓ نے کہا کبھی نہیں۔کہا تو اب تم کواپنے بیٹے کے سلسلہ میںصبر کرنا چاہئے۔ابو طلحہؓ یہ سن کر غصہ ہوئے‘ کہ پہلے کیو ں اطلاع نہیں دی۔ صبح اٹھ کر نبی اکرمﷺ کے پا س گئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔آپؐ نے فرمایا – اللہ تعالیٰ نے اس رات تم دونوں کو بڑی برکت دی۔ (صحیح مسلم ج۲)

(6) عورتوں کے حقوق کی پاسبانی

اسلام میں عورتوں کے حقوق کابڑا واضح تصور ہے۔یہاں ان تمام حقوق کو لازمی قرار دیا گیا ہے جن سے ایک عورت عزت و وقار اورعفت و پاکدامنی کے ساتھ اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت میں زندگی گذارسکے۔قرآن و سنت کے مطالعہ سے حسب ذیل حقوق واضح ہوتے ہیں۔

زندہ رہنے کا حق (التکویر:۸ -۹) ‘ پرورش کا حق (البقرہ:۲۳۳) ‘ تعلیم کا حق‘ نکاح کا حق ‘ مہر کا حق (النسآء :۴) ‘ نان نفقہ کا حق ‘ کاروبار اور عمل کی آزادی کاحق‘مال و جائداد کا حق(النسآء:۳۲)‘ عزت و آبرو کا حق (النور:۴-۵) ‘ تنقید و احتساب کا حق (التوبہ:۷۱)۔

حضور اکرمﷺ کے زمانے میں نہ صرف عورتوں کو ان کے یہ تمام حقوق حاصل تھے بلکہ لوگ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ اگر عورتوں سے باآواز بلند بات کی جائے تو کہیں کو ئی وعید والی آیت نہ نازل ہوجائے۔اس سلسلہ میں اللہ کے رسولﷺ نے رہنمائی فرمائی تا کہ صحابہ کا طرز عمل حقوق کی پاسبانی کے لئے ہو۔

رہنمائی

— عن ابی ہریرہؓ قَالَ رَجُلٌیَارَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصَّحَابَۃِ

ایک شخص نے رسولؐ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟

٭ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اَبَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ

(آپؐ نے فرمایا) تمہاری ماں‘ پھر ماں‘ پھر ماں‘ پھر والد اور پھر وہ لوگ جو قریب ہیں پھروہ جو قریب ہیں۔

عن ابن عباس … اَنَّ جَارِیَۃً بِکْراً اَتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَذَکَرْتُ اَنَّ اَبَاھَا تَزَوَّجَھَا وَھِیَ کَارِھَۃٌ ٭ فَخَیَّرَھَا النَّبِیُّ ﷺ

ایک کنواری لڑکی بنیؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ اسکے والد نے اسکی مرضی کے خلاف اسکا نکاح کردیا ہے؟ پس بنیؐ نے اس کو اختیار دیا۔ (یعنی اگر وہ چاہے تو اس نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کردے)

— عن حکم بن معاویہ مَا حَقُّ زَوْجَۃِ اَحَدِنَا عَلَیْہِ ٭ اَنْ تُطْعِمَھَا اِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوْھَا اِذَا اَکْتَسَیْتَ وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلاَ تُقْبِّحْ وَلاَ تَھْجُرْ اِلاَّ فِیْ الْبَیْت

کسی نے پوچھا (اے اللہ کے رسولؐ) شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے؟ (آپؐ نے فرمایا)جب تو کھائے تو اسے بھی کھلائے‘ جب تو پہنے تو اسے بھی پہنائے‘ اس کے چہرے پر نہ مارے اور اسکو بددعا نہ دے۔ اور اگر جائز اور معقول بات نہ مانے اور ترک تعلق ناگزیر ہوجائے تو اپنا بستر الگ کرلے۔

عملی نمونہ

َ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں عورتیں اپنے شوہروں کی شکایت لے کر حاضر ہوتیں اور اپنا دکھ درد بیان کرتیں۔حضرت عائشہؓ ان مسائل کو اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میںپیش کرتیں اور نہایت پرزور طریقہ سے ان کی سفارش کرتی تھیں۔ ایک بار ان کی خدمت میں ایک عورت سبز ڈوپٹہ اوڑھ کر آئی اورحضرت عائشہؓ کو اپنا ڈوپٹہ ہٹا کر جسم دکھایا کہ شوہر نے اس قدر مارا ہے کہ بدن نیلا ہوگیا ہے۔ رسول اکرمﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے کہا کہ مسلمان عورتیں جو مصیبت برداشت کرررہی ہیں ہم نے ایسے مصیبت نہیں دیکھی ۔دیکھئے اس کا جسم اس کے ڈوپٹے سے زیادہ سبز ہوگیا ہے۔

بخاری شریف میں اس روایت کے آخر میں عورتوں سے متعلق یہ الفاظ ہیں:

والنسآء ینصرن بعضھن بعضاً۔ (بخاری – کتاب اللباس)

’’ عورتوں کی یہ فطرت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مددکرتی ہیں۔

(7) تبدیلیوں میں یکسانیت

جس طرح صحابہ کرام ؓ نے آپ ؐ کی زیر تربیت اپنی زندگیاں سواریں‘ اسی طرح کا طرز عمل صحابیات ؓ کا بھی رہا۔ سر چشمہ بنوتؐ سے فیض یاب ہونے والی خواتین نے ایسے حیرت انگیز کارنامے انجام دئے جو اس وقت کی رائج تہذیب اور معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ سے کہیں زیادہ عالیشان تھے۔اسلام کے اقرار کے ساتھ ہی اس دین کی اقامت کے لئے صبر و ثبات کا نمونہ بن کر خواتین نے اپنی جد جہد جاری رکھی۔علم کے حصول اور اسکی اشاعت کے لئے نمایاں کام انجام دئے۔ آغاز اسلام میں مختلف موقعوں پر ہوئی جنگوں اور صلح میں حصہ لیا۔ حبشہ اور مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق بنیؐ سے بیعت کی۔ ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے تعاون دیا۔اپنی نوجوان نسل کے اند ر علم وحکمت اور دین و دانش کی روح پھونکی اوراللہ کے کلمہ کو غالب کرنے کو کو مقصد زندگی بنانے کا عزم پیدا کیا۔ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ بھی صحابیاتؓ کی قیمتی خدمات سے خالی نہیںہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرات صحابہ کرامؓ کی جدوجہد کے پیچھے بھی صحابیات ؓ کا بے مثال ایثار اور قربانیاں کارفرما ہیں۔نسوانی شخصیت میں یہ صالح انقلاب اسوہ رسولﷺ کے سبب ہی ممکن ہوا۔اللہ کے رسول ﷺراہ خدا میں جد و جہد کے لئے خواتین سے بھی مخاطب ہیں۔

رہنمائی

–عن عائشۃ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی النِّسَآئِ جِھَادٌ ٭ نَعَمْ عَلَیْھِنَّ جِھَادٌ لاَ قِتَالَ فِیْہِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ۔

’’(حضرت عائشہؓفرماتی ہیں) اے اللہ کے رسولؐ کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ (آپؐ نے فرمایا) ہاں۔انکا جہاد ایسا ہے جس میں لڑائی نہیں ہے یعنی وہ حج اور عمرہ ہے۔ ‘‘

اور راہ خدا میں جہاد کا یہ جذبہ بھی قابل غور ہے:

— نَامَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْماً قَرِیْباً مِنِّی ثُمَّ اسْتَیْقَظَ یَتَبَسَّمُ

’’(حضرت ام حرامؓ فرماتی ہیں) بنیؐ ایک روز میرے گھر میں قریب ہی سو رہے تھے۔پھر آپؐ تبسم فرماتے ہوئے بیدار ہوئے

— عن انس بن مالک فَقُلْتُ مَااَضْحَکَکَ ٭ اُنَاسٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عُرِضُوْا عَلَیَّ یَرْکَبُوْنَ ہٰذَا الْبَحْرَ کَالْمُلُوْکِ عَلَی الْاَسِرَّۃِ — قَالَتْ فَادْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلْنِیْ مِنْھُمْ — فَدَعَا لَھَا ثُمَّ نَامَ الثَّانِیَۃَ — فَفَعَلَ مِثْلَھَا فَقَالَتْ مِثْلَ قَوْلِھَا فَاَجَابَھَا مِثْلَھَا — فَقَالَتْ اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلْنِیْ مِنْھُمْ ٭ اَنْتِ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ….

’’میں نے عرض کیا آپ ؐ کو کس چیز نے ہنسایا؟(آپؐ نے فرمایا) مجھ پر میری امت کے کچھ لوگ (خواب میں) پیش کئے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اس سمندر کے سینے پر اسطرح سوار ہیں جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر سوار ہوتے ہیں حضرت ام حرامؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ مجھے ان میں شمار فرمائے آپؐ نے ان کے حق میں دعا دی اور پھر دوبارہ سوگئے اس کے بعد پھر پچھلے واقعہ کی طرح نظر آیا‘اور انہوں نے حضورؐ سے وہی درخواست کی کہ اے اللہ کے رسولؐ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس گروہ میں شامل فرمادے (آپؐ نے فرمایا) تم تو پہلے گروہ میں شامل ہوچکی ہو۔‘‘

عملی نمونے

َ حضرت ام شریکؓ آغاز اسلام میں مخفی طور پر قریش کی عورتوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتی تھیں۔ جب قریش کو ان کی دعوتی جد وجہد کا حال معلوم ہوا تو انہیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا ۔

َ حضرت ام حکیمؓ بنت الحارث کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی۔ ام حکیمؓ فتح مکہ کے دن اسلام لائیں لیکن ان کے شوہر یمن چلے گئے ۔ام حکیمؓ نے یمن کا سفر کیا اور ان کو دعوت اسلام دی وہ مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے انہیں دیکھ کر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا۔ (موطا امام مالک)

َ حضرت حفصہ ؓ میں دین کی سمجھ بوجھ اعلیٰ درجہ کی تھی۔ اس سلسلہ میں واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اکرمﷺ نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدر اور حدیبیہ جہنم سے محفوظ رہیں گے۔ حضرت حفصہؓ نے یہ سن کر کہا یہ کیسے؟ اللہ تعالیٰ توفرماتا ہے :

وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّوَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا (مریم:۷۱)

’’کہ تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہوگا۔یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کے ذمہ ہے۔‘‘

آپؐ نے فرمایا ہا ں لیکن یہ بھی تو ہے:

ثُمَّ نُنَّجِی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِـیًّا (مریم:۷۲)

’’پھر ہم پرہیز گاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں زانوں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل)

َ حضرت ام سُلیم ؓ غزوات میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیتی تھیں۔صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرتﷺ ام سلیمؓ اور انصار کی چند عورتوں کو غزوات میں ساتھ رکھتے تھے۔جو لوگوں کو پانی پلاتیںاور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔(صحیح مسلم)

َ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے جمے ہوئے قدم اکھڑگئے تھے ‘ وہ نہایت مستعدی سے کام کررہی تھیں۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیم کو دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ مشک خالی ہوجاتی تھی تو پھر جاکر بھر لاتیں تھیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146