آنے والا ’وقت‘ قریب آرہا ہے!!! آپ کے تعلقات اگر وسیع ہیں تو بھی، اگر نہیں … آپ کے کئی دوست اور عزیز آپ کی نظروں کے سامنے اس دنیا سے کوچ کرچکے ہوںگے۔ کیسے کیسے توانا و تندرست جوان، کیسے کیسے ورزشی، کسرتی پہلوان، کیسے کیسے نوعمرونازک اندام نونہال، کیسے کیسے ہنستے کھیلتے بچے، جن کی موت کبھی آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ آئی ہوگی، دیکھتے دیکھتے چل بسے ہیں۔ نامور علماجن کے علم و فضل کی شہرت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی۔ ممتاز مصنفین جن کے قلم کی ایک ایک سطر کے لیے شوق و عقیدت کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں، مشہور سردارانِ قوم جن کے ہرہرنقش قدم کو آنکھوں سے لگانے کے لیے کروڑوں عقیدت مند منتظر رہتے تھے۔مقدس بزرگانِ دین جن کے زہد و تقویٰ پر انسانیت کو ناز تھا، طاقتور پہلوان جو رستم و سہراب کا نام زندہ کیے ہوئے تھے۔ محبت کرنے والے شوہر، جان نثار کرنے والی بیوی، مامتا کی ماری ماں، سعادت مند فرزند، خدمت گزار بیٹی، جگری دوست، ان سب کے بے سان و گمان، یک بیک اٹھ جانے کی درد ناک اور جگر خراش مثالیں کثرت سے آپ کی نظروں سے گزرچکی ہیں۔
پھر کیا بات ہے کہ سب کچھ جاننے، سب کچھ سمجھنے اور سب کچھ دیکھنے کے باوجود آپ بدستور اس طرح غفلت، بے فکری اور بے حسی میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، ہر جگہ، ہر وقت، ہر لمحہ، ہر گھڑی ہر انسان کو موت کا نہ ٹلنے والا پیام پہنچ سکتا ہے لیکن اپنے دل میں آپ اپنی موت کو کبھی اپنے قریب نہیں پاتے۔ موت جب قریب آپہنچتی ہے، تو نہ جوان کو چھوڑتی ہے، نہ بوڑھے کو، نہ بچے کو، نہ نیک کو نہ بد کو، نہ تندرست کو نہ بیمار کو۔
دوسروں کی مثالیں دیکھ دیکھ کر مجبوراً آپ کو برحق موت کا کلیہ قائم کرنا پڑتا ہے لیکن اس کلیہ سے آپ اپنی ذات گرامی، اپنے وجود عزیز، اپنی جان شیریں کو ہمیشہ مستثنیٰ کرکے سوچتے ہیں کہ فلاں امتحان فلاں سال پاس کریں گے، فلاس سال اتنا روپیہ جمع کریںگے، فلاں سال لڑکے کی شادی کریں گے، فلاں سال آپ سفر کریں گے، فلاں سال فلاں عہدے سے پنشن لیں گے، فلاں سال آپ اس قدر جائیداد خریدیں گے، فلاں سال کاروبار سے اتنا نفع حاصل کریں گے۔
موت اور پھر بے وقت موت کی گرم بازاری آپ ہر وقت دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کا ذہن ہر وقت اس قسم کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ یاد رکھیے کہ وہ وقت قریب ہی ہے۔ جب آپ دوسروں کے مکان پر نہیں دوسرے آپ کے مکان پر آپ کی تعزیت کے لیے جمع ہوں گے۔ آپ کا بے حس و حرکت برف سے ٹھنڈا جسم تخت پر غسل کے لیے پڑا ہوگا، جب آپ اس درجہ بے بس ہوجائیں گے کہ خود بے بسی اور بے کسی کو بھی آپ پر رحم آئے گا، جب آپ کے بچے بلبلا بلبلا کر آپ کو پکاریں گے اور آپ اشارہ تک نہ کرسکیں گے۔
جب آپ کی پیاری بیوی ر وتے روتے دیوانی ہوجائے گی اور آپ اس کا ایک آنسو بھی خشک نہ کرسکیں گے، جب آپ کے بوڑھے والدین پچھاڑیں کھا کھا کر گریں گے اور آپ انھیں مطلق تسلی نہ دے سکیں گے، جب آپ کا جسم چارپائی پر ڈال کر اٹھایا جائے گا، جب دوسرے آپ پر نماز پڑھیں گے، جب آپ ایک تنگ و تاریک گڑھے میں ڈال دیے جائیں گے، جب آپ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبے ہوں گے۔
’’قریب آرہا ہے وہ وقت، بہت قریب آگئی ہے وہ گھڑی، آن پہنچی ہے وہ نہ ٹلنے والی ساعت۔‘‘
تو کیا آپ اپنی دلچسپ و شگفتہ مجلسوں میں، پر بہار و طرب انگیز صحبتوں میں،رنگین و پرلطف جلسوں میں کبھی اس وقت کو، جب ان چہچہوں اور قہقہوں پر افسوس ہی افسوس ہوگا، یاد کرلیتے ہیں اور اپنے عمل پر محاسبے کی اک نظر ڈال لینا گوارا کرتے ہیں؟