اسوئہ رسول ﷺ اور خواتین

محمد عبد اللہ جاوید

(8) خصوصی تعلیمات اور نصیحتیں

مختلف حالات و ضروریات کے تحت نبی اکرمﷺ نے خواتین کو خصوصی تعلیمات اور نصیحتوں سے نوازا ہے۔ اس کا محرک ایک طرف تو حالات کا تقاضہ تھا تو دوسری طرف صحابیاتؓ کی دلچسپی و آمادگی۔ان نصیحتوں کے سبب خواتین کا نہایت ہی شاندار کردار سامنے آتا ہے۔……

رہنمائی

عَنْ عَائِشَۃَ ؓ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یُکْثِرُ التَّعَوُّذَ مِنَ الْمَغْرَمِ وَالْمَاْثَمِ فَقِیْلَ لَہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّکَ تُکْثِرُ التَّعَوُّذَ مِنَ الْمَغْرَمِ وَالْمَاثَمِ فَقَالَ اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا عَزِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ وَوَعَدَفَاَخْلَفَ۔

(نسائی: کتاب الاستعاذہ)

’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ قرضداری سے پناہ مانگتے تھے کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! آپ قرضداری سے پناہ مانگتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جب آدمی قرض دار ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔‘‘

حدیث بتاتی ہے کہ اگر ایک دوسرے کی امداد و اعانت کی جاتی رہے تو پھر کوئی مقروض نہیں ہوگا۔اسی جذبہ کے تحت صحابیات کے قابل تحسین کام سامنے آتے ہیں۔

عملی نمونے

َ حضرت عائشہؓ اس قدر فیاض تھیں کہ جو کچھ ہاتھ آجاتاتھا اس کو صدقہ کردیتی تھیں۔ان کا معمول یہ تھا کہ جو کچھ ملتا ‘جمع کرتی جاتی تھیں جب ایک قابل لحاظ سرمایہ جمع ہوجاتا تھا تو اس کو تقسیم کردیتی تھیں۔حضرت اسماءؓ ان سے بھی فیاض تھیں۔ کل کے لئے کچھ نہیں رکھتی تھیں اور روز خرچ کردیا کرتی تھیں۔

َ حضرت ام سلیمؓ نے اپنا ایک خاص نخلستان اللہ کے رسولﷺ کے لئے وقف کردیا تھا۔

َ صحابیات مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں اور ہمسایہ صحابیات اپنی پڑوسنوں کو ہر قسم کی مدد دیتی تھیں۔حضرت اسماءؓ کو روٹی پکانا نہیں آتا تھا ‘ پڑوسنیںان کی روٹی پکایا کرتی تھیں۔

(9) ازواج مطہرات و دختران رسولﷺ کی عملی زندگیاں

رسول اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کا ایک عملی پہلو آپ ؐ کی خانگی زندگی سے متعلق ہے۔ ازواج مطہرات‘ دختران رسولؐ اور دیگر اعزہ و اقربا کے اخلاق و کرداراورمعاملات ‘معاشرے میں بڑے نمایاں تھے۔کسی شخص کا اپنے قریبی ماحول کی اصلاح کرنا‘اور لوگوں کوفکری اور عملی اعتبار سے مصروف عمل رکھنا ‘اس کے حق پر ہونے کی بہت بڑی دلیل مانی جاتی ہے۔ آپؐ کے اسوہ سے افراد خاندان نے نہ صرف رہنمائی حاصل کی بلکہ اس کے ذریعہ اپنی زندگیوں کا ایسا اعلیٰ معیار قائم کیا کہ رہتی دنیا تک اصلاح و تربیت کے لئے عورتوں کے سامنے یہی ایک مثالی نمونہ ہوگا۔

رہنمائی

آپؐ نے کھلے عام دعوت کا آغاز اپنے خاندان کے افراد سے کیا۔ مختلف موقعوں سے یہ بات واضح کرتے رہے کہ یہ دنیا عارضی ہے‘ آخرت اصل ٹھکانا ہے۔وقت کے پیغمبر ہونے کے باوجود وہ کسی کو خدا کی گرفت سے بچا نہیں سکیں گے۔ایک مرتبہ اپنی پھوپھی سے مخاطب ہوکر فرمایا:

یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَا اُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئاً

’’اے صفیہ اللہ کے رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکتا۔‘‘

اس طرح کی وعظ و نصیحتیں افراد خاندان میںاحسن تبدیلیوں کا ذریعہ بنیں۔

عملی نمونے

َامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو با اثر صحابیاتؓ انجام دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے ایک گھر میں مہمان کی حیثیت سے قیام کیا۔میزبان کی دو جوان لڑکیوں کو دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں۔آپؓ نے انہیںتاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بغیر چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے رسول اکرمﷺ نے یہی فرمایا ہے۔

َ جن چیزوں سے منع کیا گیا ان سے دور رہتیں۔حضرت عائشہؓ کا حال یہ تھا کہ باجا تو دور کی بات ہے اونٹ کی گھنٹی کی آواز سننا بھی پسند نہیں کرتی تھیں۔ اگر سامنے سے گھنٹی کی آواز آتی تو راستے ہی پر تھوڑی دیر ٹہر جاتیں یا پھر تیزی کے ساتھ گذرجاتی تھیں۔

َ ام المومنین حضرت سودہ ؓ اطاعت و فرمانبرداری میں ممتاز تھیں۔آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھاکہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا۔چنانچہ حضرت سودہؓ نے اس حکم پر اس شدت سے عمل کیا کہ پھر حج کے لئے نہ نکلیں‘ فرماتی تھیں کہ میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں اور اب رسول خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی۔

َ ازواج مطہرات میں حضرت زینبؓ بنت حجش نہایت فیاض تھیں۔وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی تھیلیاں بناتیں اور جو کچھ آمدنی ہوتی ‘ مساکین کو دیدیتی تھیں۔ایک بار رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہوگا وہ مجھ سے سب سے پہلے ملے گی۔ اس بنا پر ازواج مطہراتؓ اپنے ہاتھوں کو ناپتی تھیں۔حضرت زینبؓ کے ہاتھ سب سے چھوٹے تھے۔جب سب سے پہلے ان کا انتقال ہوا تو ازواج مطہرات ؓ کو معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھ سے مراد فیاضی اور سخاوت تھی۔

َ صحابیاتؓ اپنے والدین کی حمایت سخت موقعوں پربھی کرتیں۔ ایک بار کفار نے حالت نماز میں رسول اکرمﷺ کی گردن میں اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی ۔یہ دیکھ کر حضرت فاطمہؓ دوڑ کر آئیں۔ اس کو آپؐ کی گردن سے نکال کر پھینک دیا اور کفار کو برا بھلا کہا۔

(10) ازدو اجی زندگی اور دیگر مخصوص مسائل میں رہنمائی

انسانیت کے فروغ و بقا اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں مرد اور عورت کا بڑا نمایا ںکردار ہے۔اسلام نے ان دونوں کو ازدواجی رشتہ میں باندھ کراس فطری عمل کو بامعنی بنادیا ہے۔ہر انسان کی اپنی ایک ذہنی ساخت ہوتی ہے جس کے تحت اس کے روز مرہ کے معمولات انجام پاتے ہیں۔جب ایک مرد اور عورت ازدواجی رشتہ میں بندھ جاتے ہیں تو دھیرے دھیرے ان کے درمیان محبت و الفت‘ معاونت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی جاتی ہے۔ جن مراحل سے گذر کر مرد اور عورت ایک کامیاب زندگی گزارنے لگتے ہیں‘ ان میں مناسب رہنمائی کا بڑا کلیدی رول ہوتا ہے۔پھر یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ کامیابی سے چلنے والی ازدواجی زندگی کے لئے حالات و ضروریات کے تحت بھی موثر رہنمائی کی جاتی رہے تاکہ کوئی تلخی پیدا نہ ہو۔

حضرات صحابہ کرامؓنے بلا تکلف مرد اور عورت کی فطرت‘ شادی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال‘ خواتین کے مخصوص مسائل اور آداب مباشرت وغیرہ سے متعلق اپنے مسائل حضور اقدسﷺ کی خدمت میںپیش کئے اور آپ ؐنے رہنمائی فرماتے ہوئے خوشگوار عائلی زندگی کے آداب واضح فرمائے۔

رہنمائی

قال یَارَسُوْلَ اللّٰہِِ ﷺاَیُّ النِّسَآئِ خَیْرٌ قال اَلَّتِیْ تَسُرُّہٗ اِذَا نَظَرَ وَ تُطِیْعُہٗ اِذَا اَمَرَ وَلاَ تُخَالِفُہٗ فِیْ نَفْسِھَا وَمَالِھَا بِمَا یَکْرَہ

’’کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ کون سی بیوی بہترین ہے؟(آپؐ نے فرمایا) وہ بیوی بہترین ہے جس کو اسکا شوہر دیکھے تو خوش ہوجائے‘ جب وہ حکم دے تو مانے اور اپنے بارے میں کوئی ایسارویہ اختیار نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو ۔‘‘

(عن ابی ہریرہؓ نسائی)

عملی نمونے

َصحابیاتؓ نہایت دلسوزی کے ساتھ شوہر کی خدمت کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نبی ﷺ کی مسواک دھویا کرتیں۔اور جب آپؐ احرام باندھتے یا احرام کھولتے تو حضرت عائشہ ؓ جسم مبارک پر خوشبو لگاتی تھیں۔

َ ہر حال میں اپنے شوہر کی اطاعت کرتیں۔غزہ تبوک میں عدم شرکت کی بنا پر جب آپؐ حضرت بلال بن امیہ ؓ سے ناراض ہوئے اور آخر میںدیگر دواصحابؓ کی طرح آپ کو بھی اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنے کا حکم دیا تو ان کی بیوی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں‘ ان کے پاس نوکر چاکر نہیں ہیں اگر میں ان کی خدمت کروں تو کیاآپؐ ناپسند فرمائیں گے؟ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں۔ اور انہیں اپنے شوہر کی خدمت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

َ شوہرکی رضامندی اور خوشنودی کا بڑا خیال رکھتیں۔ ان کے مال و اسباب اور گھر بار کی حفاظت کرتیں۔ اگر چہ یہ وصف عموماً تمام صحابیاتؓ میں پایا جاتا تھا لیکن اس سلسلہ میں قریش کی عورتیں خاص طور پر ممتاز تھیں۔چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ان کی اس خصوصیت کو نمایاں فرمایا ہے:

نعم النساء نساء قریش احناھن علی الولدوارعاھن علی الزوج

’’قریش کی عورتیں سب سے اچھی ہیں ‘ بچوں سے محبت رکھتی ہیں اور شوہر کے مال و اسباب کی نگرانی کرتی ہیں۔‘‘

َ آنحضرتﷺ سے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بہت محبت کیا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ اس کی وجہ کیا ہے کہ ہمارا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ تو آپؐ نے یہ آیت پڑھی:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ …

(الاحزاب:۳۵)

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘ مومن مرد اور مومن عورتیں…..‘‘

َایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ پراگندہ نظر آئے تو ام المومنین حضرت میمونہؓ نے کہا بیٹا! اس کی کیا وجہ ہے کہ تمہاری ایسی حالت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ام عمار(انکی اہلیہ) میر ے سر میں کنگھا کرتی تھیں۔اور آج کل ان کے ایام کا زمانہ ہے۔حضرت میمونہؓ نے فرمایا کیا خوب! آنحضرتﷺ ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے اور ہم اسی حالت میں ہوتے تھے۔ کہیں یہ ہاتھ میں بھی ہوتا ہے؟

َ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت فاطمہؓ پر کچھ سختی کی۔وہ حضور اکرمﷺ کے پاس شکایت لے کر چلیں۔پیچھے پیچھے حضرت علیؓ بھی آئے۔حضرت فاطمہؓ نے حضور اکرم ﷺ سے شکایت کی۔آپؐ نے فرمایا بیٹی! تم کو خود سمجھنا چاہئے کہ کون شوہر اپنی بیوی کے پیچھے پیچھے خاموش چلا آتا ہے؟۔حضرت علیؓ پر آپؐ کے اس قول کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے حضرت فاطمہؓ سے کہا – اب میں تمہارے مزاج کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا۔

( 11) اسوہ رسولﷺ سے استفادہ کی قرآنی صفات

قرآن کریم میں اسوہ رسولﷺ سے مستفید ہونے والوں کی نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے: (۱) اللہ کی طرف پلٹنا (۲) آخرت کی فکر (۳) اللہ کا ذکر

اللہ کے رسولﷺ نے صحابیات کے تزکیہ نفس سے متعلق جو ہدایات دیں ، ان کی روشنی میں انھوں نے اپنی زندگیاں اسطرح سنواریں کہ انہی نمایاں خصوصیات کی جیتی جاگتی تصویربن گئیں۔

رہنمائی

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ فِیْ بَعْضِ صَلٰوتِہٖ اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْراً قُلْتُ یَانَبِیَّ اللّٰہِﷺ مَاالْحِسَابُ الْیَسِیْرُ قال اَنْ یَّنْظُرَ فِیْ کِتَابِہٖ فَیُجَاوِزُ عَنْہُ َ اِنَّہٗ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَئِذٍ یَّاعَآئِشَۃُ ھَلَک۔

’’میں نے رسولؐ اللہ کو اپنی ایک نماز میں فرماتے ہوئے سنا اے اللہ! مجھ سے آسانی کے ساتھ حساب لینا۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ (آپؐ نے فرمایا) یہ کہ اللہ تعالیٰ (کسی شخص کی) کتاب (نامہ اعمال) کو دیکھ کر درگزر فرمائے۔ اگر حساب کے وقت کسی سے پوچھ گچھ اور کرید شروع ہوگئی اے عائشہ !وہ تو ہلاک ہوگیا۔‘‘

عملی نمونے

َ حضرت جویریہؓ بڑی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ ایک دن صبح کو ذکر و اذکار اور دعائوں میں مشغول تھیں۔نبی کریمﷺ گذرے تو دیکھتے ہوئے چلے گئے۔دوپہر کے قریب جب گھر آئے تب بھی ان کو اسی حالت میں دیکھا۔پھر آپؐ نے ذکر و اذکار کے چند جامع کلمات تلقین فرمائے۔

َ حضرت عائشہؓ نے رسول اکرمﷺ سے فرمایا کہ قرآن مجید کی یہ آیت:

مَنْ یَّعْمَلْ سُوْ ٓائً یُّجْزَ بِہٖ (النساء:۱۲۳)

’’جو شخص کوئی برائی کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا ۔‘‘

نہایت سخت ہے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہؓ !کیا تم کو خبر نہیں کہ مسلمان کے پائو ں میں اگر کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو وہ اس کے برے اعمال کا کفارہ ہوجاتا ہے۔حضرت عائشہ ؓ نے کہا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ تو کہتے ہیںکہ ہم ذرا ذرا سی برائی کا حساب لیں گے؟

آپؐ نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عمل اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا۔ عذاب اسی کو دیا جائے گا جس کے حساب میں پوچھ گچھ ہوگی۔

اس اثر پذیری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابیات ؓ نہایت تیزی کے ساتھ قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کو تیار ہوجاتی تھیں۔

(12) منطقی نقطئہ نظر

یہ بات مسلمہ ہے کہ اچھے اخلاق و کردار کے انسان کی ہر کوئی قدر کرتاہے۔ لوگوں کی آپس میں محبت کی ایک بنیاد اچھاوصف ہوتا ہے۔ نیک سیرت باپ بیٹی کے لئے‘ اور نیک سیرت شوہر ‘بیوی کے لئے نمونہ ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اعلیٰ اخلاق و کردار سے متصف انسان کی قربت ‘ اس کی رہنمائی‘ سعی و جہد اور ایثار و قربانی سے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔اللہ کے رسولﷺ کے اخلاق حسنہ اپنے اندر وہ تمام خوبیاں رکھتے ہیں‘ جن کے سبب محبت و عقیدت کا ایک اعلی ٰ ارفع جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے کہ دنیا کا کوئی انسان آپؐ کے اخلاق حسنہ کی حد تک پہنچ نہیں سکتا۔اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۴)

’’بے شک (اے نبیؐ )آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر ہیں۔‘‘

کسی انسان کے بہتر ہونے کی پہچان اعلیٰ اخلاق و کردار ہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر اس خدا کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جس نے انسانوں کو بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ حضرت اسماءؓ بنت یزیدسے روایت کردہ حدیث میں اللہ کے رسولﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

اَلاَ اُنَبُِّٔکُمْ بِخِیَارِکُمْ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قال خِیَارُکُمْ الَّذِیْنَ اِذْرُأُوْا ذُکِرَ اللّٰہِ

’’کیا میں تمہیں نہ بتائوں کہ تم میں بہترین آدمی کون ہیں؟لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے ۔‘‘ ( مشکوۃ – کتاب الآداب)

آپؐ سے بڑھ کر انسانوں کا سچا خیر خواہ کوئی اور نہیں۔حتی کہ جنم دینے والے ماں باپ بھی اپنے بچوں کی ایک عمر تک فکر کرتے ہیں۔ لیکن رسول ؐ انسان کی دنیوی فلاح کے بھی حریص ہیں اور اخروی فلاح کے بھی۔ اس برگزیدہ ہستی سے ایسا تعلق اور ایسی محبت مطلوب ہے جس کے تابع دوسرے تعلقات اور محبتیں ہوں۔ایسا طرز عمل ہی ایمان کی پہچان ہے۔اور ایمان ہی اللہ کی رضا اور اسکی خوشنودی کو حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔

آخری بات

ان امور کی روشنی میں یہ بات بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ اسوہ رسولﷺ ‘ خواتین کی نفسیات‘ دائرہ کار‘ ان کی ذہنی ساخت کے لحاظ سے بڑی مطابقت رکھتا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو جب کہ انسانوں کے رب نے یہ اعلان کردیا ہے :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔ (الاحزاب:۲۱)

’’حقیقت میں تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘

دور حاضر میں خواتین کے حقوق و مقام کے لئے کوششیں ہر طرف نظر آتی ہیں۔اکسویں صدی کے آغاز سے ہیعورت کو حقوق و اختیار دینے کی صدائوں میںبڑی تیزی آنے لگی ہے۔ خواتین تنظیموں کی کثرت ہے۔لیکن ان کی تمام کوششیںبے سود نظر آتی ہیں۔ عورت کی عزت اور اسکا مقام روبہ زوال ہے ۔

اس کا ایک بنیادی سبب تویہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی پاسداری و ادائیگی مرد حضرات کے ہاتھوں میں قید ہے۔ جتنایہ اپنے مفادات کے تئیں مناسب سمجھیں گے اتنے ہی حقوق عورتوں کو حاصل ہوں گے۔ اور دیگر حقوق کو پامال کرنے کے لئے عورتوں کے سامنے پرکشش نعروں‘ پر رونق دنیا اور اسکی رنگینیوں کو اجاگر کرتے رہیںگے تاکہ وہ اس حسین دنیامیں عزت و نام کمانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارنے کی دھن میں اپنی ساری توانائیاں صرف کریں۔

دین اسلام عورتوں کے حقوق کا پاسبان ہے۔ وہ نہ صرف ان کی حفاظت ووضاحت کرتا ہے بلکہ عورت کوایسا مرتبہ اور مقام عطاکرتاہے کہ وہ اپنے آپ کو انسانیت کا ایک اٹوٹ حصہ محسوس کرتے ہوئے اپنے حقوق کا شعور حاصل کرتی ہے۔ اور ان کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔

آج اگر کوئی خاتون اپنی زندگی سنوارنا چاہتی ہو ‘ عزت و وقار حاصل کرنا چاہتی ہو ‘ عفت و پاکدمنی اور شرم و حیا کو اپنا شیوہ بنانا چاہتی ہو تو وہ اسوئہ رسولﷺ سے رجوع ہو۔یقینا دنیا و آخرت میں اسے عزت و سربلندی کی زندگی نصیب ہوگی ؎

کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں