تندور سے اترے ہوئے گرم گرم نان کا ٹکڑا سالن کے شوربے سے تر کرکے وہ منہ میں رکھنے ہی کو تھا کہ کسی نے پیچھے سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے گردن موڑی تو سامنے افضل کھڑا تھا۔
’’افضل؟‘‘ شوکت منہ میں دبے ہوئے نوالے کو بمشکل حلق سے اتارتے ہوئے بولا۔
’’ہاں، شوکت! کہو کیسے ہو یار؟‘‘ افضل مسکرارہا تھا۔
’’اچھا ہوں، آؤ آؤ روٹی کھاؤ۔‘‘ شوکت اپنے قریب افضل کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ ’’تم تو اب بڑے آدمی ہوگئے ہو! یہ سوٹ بوٹ کدھر سے مارا دوست؟‘‘ شوکت افضل کے بدن پر منڈھے ہوئے قیمتی لباس اور پاؤں میں چمکدار جوتوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔
’’چلو، ادھر، شیزان میں کھانا کھائیں گے اور باتیں بھی کریں گے۔‘‘ افضل نے بھٹیار خانے کے گرد و پیش پر حقارت آمیز نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں تو کھا چکا ہوں۔‘‘ شوکت نے حیرت سے کہا۔
’’اٹھ یار، کا ہے کو نخرے کرتا ہے۔‘‘ افضل نے اس کے کوٹ کا کالر پکڑ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ شوکت ہنستا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور بھٹیار خانہ کے مالک کو چند روپے دے کر افضل کے ساتھ باہر نکل آیا۔
’’کیسی گندی اور بدبو دار جگہ ہے۔‘‘ افضل نے ناک بھوں چڑھائیں’’میرا تو سانس گھٹنے لگا اتنی دیر میں۔‘‘ وہ باہر کی کھلی ہوا میں گہرے گہرے سانس لیتا ہوا کہہ رہا تھا۔
’’تم نے بھی یہیں بہت دن کھانا کھایا ہے افضل!‘‘ شوکت قدرے چہک کر بولا ’’انہی گندی میزوں اور تپائیوں پر، انہی پلیٹوں میں اور انہی درودیوار کے بیچ!‘‘ وہ جیسے کچھ یاد کررہا تھا ’’ہم تو برسوں یہاں ساتھ مل کر بیٹھے ہیں اور ہنستے بولتے وقت کاٹا ہے، کیوں یاد آیا؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’اس وقت کو بھو ل جاؤ، بھول جاؤ!‘‘ افضل جیسے چیخ پڑا۔
’’کیوں؟‘‘ شوکت حیرانی سے افضل کو تک رہا تھا ’’کیوں بھول جائیں دوست؟ حقائق سے فرار کیونکر ممکن ہے؟ اور پھریادیں تو زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں!‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
’’ چھوڑویار!‘‘ افضل نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ شیزان ہوٹل سامنے تھا۔ انھیں دیکھ کر سفید وردی میں ملبوس بیرے نے شیشے کے دروازے کھول دیے۔ شوکت کچھ شرما رہا تھا، لیکن افضل گردن کو اکڑائے دوست کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل ہوا۔
کھانے کا ائیر کنڈیشنڈ کمرہ روشنی میں جگمگا رہا تھا۔ مغربی موسیقی کی دھیمی، مگر جذبات انگیز دھن ہال کی خنک فضاؤں میں ہلکورے لے رہی تھی۔ سینٹ کے جھونکے، سرخ اور زرد آنچل، میک اپ کیے ہوئے چہرے اور صندلی جسم رنگ و نور کا ایک طوفان اٹھا رہے تھے۔ عجب خوابناک ماحول تھا۔ شوکت کی آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں۔وہ کئی دفعہ پھسلتے پھسلتے بچا، فرش چکنا بھی تھا اور سپاٹ بھی!
افضل اور شوکت آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کونے کی ایک میز پر جابیٹھے۔ بیرا میز پر پلیٹیں سجانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے مرغن و لذیذ کھانوں اور مشروبات سے میز اٹ گئی۔
’’کیوں عادت خراب کرتے ہو یار۔‘‘ شوکت نے میز پر رکھی ڈشوں سے اٹھتی اشتہا انگیز بھاپ کو نگلتے ہوئے ہنس کر کہا ’’تم تو ایک دن کھلا دو گے، اس کے بعد؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’اب تم ہمیشہ یہی کچھ کھایا کروگے!‘‘ افضل نے نیپکن اپنی گود میں پھیلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میرے ہوتے ہوئے تم اس ذلیل بھٹیار خانے میں نہیں جاسکتے۔‘‘ وہ چمچے سے چکن سوپ پینے لگا۔
’’اچھا؟‘‘ شوکت کھلکھلا کر ہنس پڑا۔‘‘ میں نے مانا کہ تم جیسے مخلص دوستوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں سب کچھ ممکن ہے مگر تم میرے نصیب کو کیسے بدل سکتے ہو دوست!‘‘اس نے مرغ بریانی کی پلیٹ اپنے آگے کھسکالی۔
’’چھری کانٹے سے کھاؤ یار۔‘‘ افضل نے اپنے گرد و پیش دیکھتے ہوئے شوکت کو پیار آمیز انداز میں سرزنش کی ’’کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا؟‘‘
’’یہی کہ ہوٹل میں کوئی گنوار اجڈ گھس آیا ہے۔‘‘ شوکت نے کہا: ’’میں تو ہاتھ ہی سے کھاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اور بھی لمبے لمبے ہاتھ چلانے لگا۔ افضل جز بز ہوکر رہ گیا۔
’’یہ تو بتاؤ افضل‘‘ شوکت نے پوچھا ’’یہ مایا کی دیوی ایکا ایکی تمہارے اوپر کیسے مہربان ہوگئی؟ کیا الٰہ دین کا چراغ ہاتھ لگ گیا یا چالیس چوروں کا خزانہ؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ ’’ابھی دو سال پہلے تک تو تم میرے ساتھ یہیں صدر بازار میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قلموں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے۔ صبح سے شام تک بمشکل چند روپوں کی مزدوری ہوتی اور ہم دونوں اسی بھٹیار خانے میں جہاں سے تم مجھے کھینچ کر لائے ہو، تندوری روٹی اور بناسپتی گھی کا سالن چٹخارے لے لے کر کھاتے تھے،میں حیران ہوں کہ ’’یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا…‘‘ اور وہ بڑے زور سے ہنسا۔
’’ش ش …‘‘ افضل نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کرادیا۔‘‘ اگر اپنی نہیں تو میری عزت کا کچھ خیال کرو۔‘‘ وہ کچھ ناگواری کے ساتھ بولا: ’’تم نہیں جانتے کہ ’ہائی سوسائٹی‘ میں میں نے اپنے لیے کس قدر اونچی جگہ بنالی ہے۔ بات کو سمجھا کرو اور غور کرو کہ ہم کہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ افضل نے سرزنش کی۔
’’میرے لیے تو تم اب بھی وہی افضل ہو…… میرے کالج کے ساتھی اور فٹ بال کے رفیق۔‘‘اب شوکت کچھ دبی آواز میں بولا: ’’ہم ایسی جگہ بیٹھیں ہی کیوں جہاں ایک دوست اپنے دوست جگری اور لنگوٹیے دوست سے کھل کر اور ہنس کر بات بھی نہ کرسکے’’ لعنت ہے!‘‘ شوکت بڑبڑایا۔
’’تم تو ناراض ہوگئے۔‘‘ افضل نے ایک ہاتھ اس کی گردن میں ڈال دیا ’’میرے اچھے دوست۔‘‘
’’ارے ارے! تم نے تو چکنے چکنے ہاتھ لگا کر میرے قیمتی سوٹ کا ناس مار دیا۔‘‘ افضل نے شوکت کو پرے دھکیلتے ہوئے کہا اور شوکت دھک سا ہوکر افضل کی شکل دیکھنے لگا۔
’’شوکت!‘‘ مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی!‘‘ افضل نے صورت حال سنبھالتے ہوئے قدرے میٹھے لہجے میں کہا ’’تمہارے بدن پر میلے اور پیوند لگے کپڑے ہیں … اور پھر ذرا آئینے میں اپنی صورت تو دیکھو، گالوں کی ہڈیاں کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ جوانی کی راتیں مرادوں کے دن اور حال کیا؟ چہ چہ چہ‘‘ افضل چکن تکہ کی ہڈی کو دانتوں سے بھنبھوڑتے ہوئے بڑے ڈرامائی انداز میں کہہ رہا تھا۔ ’’نہیں نہیں، مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی، میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جس حال میں خود رہوں گا تمہیں بھی اسی حال میں رکھوں گا۔ کیا میرے ساتھ مل کر کام کرو گے؟‘‘ افضل نے پوچھا۔
’’کام؟‘‘ شوکت چونکا ’’مجھے کیا کرنا ہوگا دوست؟‘‘
’’بس وہی جو میں کرتا ہوں۔‘‘ افضل مسکرایا۔ پر اسرار مسکراہٹ۔
’’یعنی؟‘‘ شوکت کے ہاتھ میں نوالہ تھا اور منہ کھلا کا کھلا۔
’’یعنی یہ کہ کام دھام کچھ نہیں اور ٹھاٹ رئیسوں کے… ایک فقیری گر ہاتھ آگیا ہے بزرگوں کی دعا سے!‘‘ افضل نے گوشت کی بوٹی کانٹے میں پروتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنی پر غرور نظریں شوکت پر جمادیں۔
’’بڑی عجیب بات ہے!‘‘ شوکت کچھ حیران حیران اور چونکا چونکا نظر آرہا تھا۔ ’’ایسا بھی کوئی دھندا ہوسکتا ہے کہ جس میں کام کچھ نہ کرنا پڑے اور دولت چھپر پھاڑ کر آئے۔ حیرت ہے۔‘‘ وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ چکا تھا اور اب افضل کی چمکدار نیلی آنکھوں کو تک رہا تھا۔
’’میرے ساتھ کام شروع کرکے دیکھو، تم پر خود ہی سارا راز آشکارا ہوجائے گا۔‘‘ افضل نے بڑے خاص انداز سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری گھمائی۔’’دیکھتے ہی دیکھتے وارے نیارے نہ ہوجائیں تو کہنا، ہمیں یاد کروگے!‘‘ افضل نے پڈنگ کا ایک قتلہ منہ میں رکھ کر گھلاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کیا کرنا ہوگا بھلا؟‘‘ شوکت کی حیرانی دم بدم بڑھ رہی تھی۔
’’کچھ نہیں، بس یہاں سے ممبئی اور وہاں سے مختصر اور ہلکے پھلکے سامان کے ہمراہ ہانگ کانگ تک کا ہوائی جہاز کا شاندار سفر، اس کے بعد ہانگ کانگ کی سیر، وہاں کے نائٹ کلبوں کی تفریح اور پھر واپسی۔ اس ایک دورے میں اسی نوے ہزار روپے تک کی رقم ملنا معمولی بات ہے۔‘‘ اب افضل کے چہرہ پر ایک عیارانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
’’کچھ ساتھ لے جانا یا لانا بھی ہوگا؟‘‘ شوکت نے پوچھا۔ جواب پوری طرح سنبھل چکا تھا۔
’’ہاں، پیلا!‘‘ افضل نے آواز دبا کر کہا۔ ’’پیلا؟‘‘ شوکت چونکا ’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’پیلا نہیں جانتے؟ سرسوں دیکھی ہے نا؟ سرسوں کے لہلہاتے پیلے پیلے کھیت جو نگاہ کو سرور اور راحت بخشتے ہیں، بس وہی پیلا! نہیں سمجھے؟ نہیں سمجھے نا؟ لوسنو میں سونے کی بات کررہا ہوں جو دنیا کی سب سے قیمتی اور خوش کن دھات ہے۔ اسی کو ہم اپنی اصطلاح میں ’’پیلا‘‘ کہتے ہیں۔ سونے کی سلاخوں کا ایک مختصر اور کم وزن پیکٹ جو قسمت کا تالا کھولنے کی واحد کنجی ہے۔ ایسا ہی ایک پیکٹ تمہیں لے جانا ہوگا اور واپسی پر غیر ملکی کرنسی کا ایک بنڈل تمہارے ساتھ ہوگا۔ کس قدر آسان، پر لطف اور خوش آئند کام ہے، کیوں ہے نا؟ کیا تمہیں منظور ہے؟‘‘ افضل نے ایک عیار سودا گر کے سے انداز میں دریافت کیا اور شوکت کسی بھولے خریدار کی طرح اس کی صورت تکنے لگا۔ افضل نے اس کے اندر سوئی ہوئی بھوک اور طلب کو جگادیا تھا۔ اسی نوے ہزار روپے کی خطیر رقم صرف ایک دورے میں، حیرت ہے!
’’بولو، منظور ہے تمہیں؟‘‘ افضل اپنا جادو چلا رہا تھا۔ اب شوکت اپنی سوچوں میں گم ہوگیا۔ میری بوڑھی ماں بیٹے کی کم مائیگی کے باعث دوا دارو کے بغیر بستر پر پڑی ہے۔ میری بیوہ بہن بھائی کی بے بضاعتی کے سبب نکاح ثانی سے محروم ہے اور میرے چھوٹے بہن بھائی جنہیں اچھی خوراک، اچھا لباس اور ضروری تعلیم بھی میسر نہیں اور میں خود، میں خود بھی تو اپنی چیختی، چنگھاڑتی جوا نی کو کسی کیتلی میں بند بھاپ کی طرح سنبھالے بیٹھا ہوں۔ کون جانے وہ دن کب آئے گا جب میں اپنے خوابوں کو حقیقت بناسکوں گا۔ ایک پرچھائیں، جو سدا میرے ساتھ ساتھ لگی رہتی ہے، جو میرے احساسات و جذبات پر چھائی ہوئی ہے وہ نہ جانے کب میری بانہوں میں حقیقت بن کر سمائے گی، کون جانے؟ کون جانے؟
’’بولو منظور ہے، تمہیں منظور ہے نا؟‘‘ افضل اسے مجبور کردینے پر تلا ہوا تھا۔
’’پانی!‘‘ شوکت نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’بیرا ! پانی!‘‘ افضل نے بیرے کو پانی لانے کااشارہ کیا۔ پانی کے آتے آتے شوکت اپنے ذہن میں ایک فیصلہ کرچکا تھا۔ گھونٹ گھونٹ پانی حلق سے اتارتے ہوئے اس نے سوچا کہ یہ پانی ختم ہولے تو وہ اپنے فیصلے سے افضل کو آگاہ کرے گا اور اسے بتائے گا کہ اسے افضل کی پیش کش قبول ہے، بسرو چشم قبول ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کو ایڑیاں رگڑتا نہیں دیکھ سکتا، اپنی بہن کی پہاڑسی جوانی کو آنکھوں کے راستے پگھل پگھل کر بہتے نہیں دیکھ سکتا، اپنے ننھے بہن بھائیوں کو بھوکا، ننگا اور جاہل نہیں چھوڑ سکتا اور خود اپنے جذبات اور محسوسات کا گلا گھونٹے جانا بھی اب اس کے بس اور قابو سے باہر ہوچکا ہے، لہٰذا وہ حالات کے اس گورکھ دھندے سے نکلنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیا رہے،سب کچھ…!
مگر پانی کا گلاس خالی ہوتے ہوتے شوکت نے ایسا حیران کن منظر دیکھا کہ ’’ہاں‘‘ اس کے ہونٹوں پرآتے آتے رہ گئی۔ اس نے دیکھا کہ افضل جو ابھی کچھ دیر پہلے خوب چہک رہا تھا، یکایک گھبرایا گھبرایا اور پریشان نظر آنے لگا۔ اس کے ہاتھوں میں تھمی ہوئی چھری اور کانٹا لڑکھڑانے لگے۔ افضل کی خوفزدہ نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے شوکت جلد ہی معاملے کی نوعیت بھانپ گیا۔ سامنے کی میز پر ایک پولیس انسپکٹر بیٹھا تھا جس نے افضل پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں۔ پولیس انسپکٹر کے ہاتھ میں کوئی چیزتھی، غالباً کوئی تصویر جسے وہ بار بار دیکھتا اور پھر افضل پر ایک نگاہ ڈالتا گویا اسے تصویر سے ملا رہا ہو۔
شوکت نے دیکھا کہ افضل کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوئیں اور وہ سخت پریشانی کے عالم میں پہلو پر پہلو بدلنے لگا۔ یکایک وہ اٹھ کھڑا ہوا، اس نے ایک تعارفی کارڈ شوکت کی مٹھی میں تھماتے ہوئے بوکھلاہٹ کے ساتھ کہا ’’تم کل مجھ سے اس پتے پر آکر ملو، مجھے اس وقت کچھ کام یاد آگیا ہے! میں تو چلا۔ اور یہ لو پانچ سو روپئے، ہوٹل کا بل ادا کردینا۔‘‘ یہ کہہ کر افضل تیز تیز قدم اٹھاتا ہوٹل سے باہر نکل گیا۔ اسی دم سامنے کی میز پر بیٹھا ہوا پولیس انسپکٹر بھی اٹھ کھڑا ہوا اور افضل کے پیچھے پیچھے لپکا۔ شوکت انھیں دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔
’’اے آر افضل، بی-۹۲۱، روز گارڈن، دہلی۔‘‘
شوکت کے ہاتھ میں تھمے ہوئے کارڈ پر پتا درج تھا۔ وہ سینٹ کی خوشبو میں بسا ہوا تھا۔ شوکت نے اسے غور سے دیکھا، مسکرایا پھر پرزے پرزے کر ڈالا۔
شوکت نے میز پر نظر ڈالی، افضل کے سامنے دھری ہوئی پلیٹوں پر تقریباً سارا کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ ایکا ایکی اٹھ جانے کے باعث وہ کچھ بھی نہ کھا سکا تھا، بے چارا!
شوکت نے ہوٹل کا پانچ سو پانچ روپے کا بل افضل کی مرحمت کردہ رقم اور پانچ روپے اپنی جیب خاص سے دے کر ادا کیا۔ پھر میز سے دانت کریدنے کا ایک تنکا اٹھایا اور دانتوں میں خلال کرتا ہوا ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا جب وہ بھٹیار خانے کے سامنے سے گزرا تو بھٹیارے کے لڑکے نے آواز لگائی، شوکت بھیا! کھانا کھا آئے شیزان میں؟‘‘
’’کھایا اور خوب کھایا۔‘‘ شوکت نے مسکرا کر جواب دیا ’’مگر کل سے پھر تمہارے ہاں ہی کھائیں گے۔ بڑے ہوٹلوں میں بل تو بڑا ہوتا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اللہ میاں نے پیٹ میں گنجائش فقط دو روٹیوں ہی کی رکھی ہے اور وہ بھی ہضم ہوجائیں تو غنیمت۔ اچھا دوست! کل پھر ملیں گے۔ خدا حافظ!‘‘