زندگی کا خون

نجمہ عثمان

میں کافی عرصے سے اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ ایک طویل مدت تک تو وہ مجھے روز آآکر پریشان کرتی تھی۔ جہاں بھی جاؤں میرے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ میںاچھے کپڑے پہنوں تو وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت لباس میں ملبوس میرے آگے پیچھے یوں اترا اترا کر چلتی کہ مجھے اپنے کپڑوں سے شرم آنے لگتی۔ میں ہنسوں تو وہ اتنے جاندار قہقہے لگاتی کہ مجھے اپنی ہنسی پر رونا آجاتا، میری افسردگی اسے اتنا پژمردہ اور غمگین بنادیتی کہ مجھے اپنا غم، غم نہیں لگتا اور میں سب کچھ بھول بھال کر اس کی دل جوئی کرنے لگتی۔ میں چاہتی تھی کہ اسے سات پردوں میں چھپا کر رکھوں اور وہ تھی کہ ایک پل کو بھی میرا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔

اس کا میرے سامنے یوں بار بار آنا مجھے کتنے دکھ دیتا تھا، اذیت کے میں کیسے کیسے عذابوں سے گزرتی تھی۔ وہ شاید اس بات سے بالکل انجان تھی یا شاید جان بوجھ کر مجھے اس عذاب میں گرفتار دیکھنا چاہتی تھی۔

اس دن میرے صبر و ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میں اپنی حالیہ زندگی کو اپنا مستقبل سمجھ کر گزارنے کی حد تک گزار رہی تھی اور اس نے اچانک آکر میرا حال ہی چکنا چور کردیا۔ میں نے غصہ میں اسے بہت کچھ کہہ ڈالا۔

’’تو تم مجھے اپنی زندگی سے نکال پھینکنا چاہتی ہو۔‘‘ اس نے بڑے دکھ سے پوچھا تھا۔

’’ہاں ہاں!‘‘ میں چلائی ’’اب تم میری زندگی کا حصہ نہیں ہو۔ مجھے میرے حال کے ساتھ جینے دو۔‘‘

وہ افسردگی سے مسکرائی ’’رہ سکوگی میرے بغیر؟ اور میں تو تمہارا سایہ ہوں، تمہارے اس وجود کی پہچان ہوں جسے تم نے زبردستی اپنے سے الگ کردیا ہے۔ میں چلی گئی تو تم ادھوری رہ جاؤ گی۔‘‘

’’میں رہ لوں گی، لیکن تمہیں جانا ہوگا۔‘‘

وہ حیران تھی۔ ’’تم ہی تو مجھے یہاں لائی تھیں۔ دل کی دھڑکنوں میں چھپا کر، آنسوؤں میں پروکے، آنچل کے پلو میں باندھ کر اورخوابوں میں بسائے ہوئے، اب تم ہی جانے کو کہہ رہی ہو؟‘‘

’’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تمہیں اس طرح ساتھ ساتھ رکھنے سے میں دوہرے عذابوں میں گھر جاؤں گی۔‘‘ میں زارو قطار رو رہی تھی۔ ’’اب تمہیں مجھ سے الگ ہی ہونا پڑے گا۔‘‘

اسے میری بیچارگی پر رحم آگیا۔ ’’تو ٹھیک ہے میں چلی جاتی ہوں۔‘‘

وہ چلی گئی تھی۔ مجھ سے جدا ہوکر، مجھے تنہا چھوڑ کر اور میری زندگی جیسے خود سے بچھڑ گئی تھی، اداس اور ادھوری ادھوری سی رہ گئی تھی۔ پھر میں نے اپنے آپ کو حال کے تیز دھارے پر بہنے کے لیے چھوڑ دیامیرے ارد گرد رشتے ناطوں کے حصار بلند ہوتے گئے۔

کمانے والے شوہر، پیارے پیارے بچے۔ ملنا ملانا، ہنسنا ہنسانا۔ گھر کی مصروفیت کے باوجود میں کہانیاں بھی لکھتی رہی۔ بہ حیثیت کہانی کار میری ایک شناخت تھی۔ زندگی میں آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات میری کہانیوں کا محور ہوتے۔ کبھی کبھی مجھے اس کا خیال آتا، اس کی یاد ستاتی تو میں جلدی سے خود کو حال سے پیوستہ کرلیتی۔ اس کے بارے میں سوچا تو موجودہ زندگی بیکار ہوجائے گی۔ اور یہ زندگی بھی اب میری کہاں تھی؟ اس پر تو بچوں اور ان کے بچوں کا قبضہ تھا۔ شوہر نے کبھی ازدواجی زندگی کو رومانوی زندگی کا رنگ نہیں دیا۔ البتہ دنیاوی زندگی کی ہر خوشی بن مانگے ہی میرے دامن میں بھردی۔

دامن پرانا ہوجائے تو تار تار ہوجاتا ہے۔ زندگی یکساں رفتار سے چلتی رہے تو تھکنے لگتی ہے۔ شجر بوڑھا ہوجائے تو بدلتے ہوئے موسم بھی اس کی جڑوں میں اترتی ہوئی خزاں کی زردی کو کم نہیں کرسکتے۔ میری زندگی کے دروازے پر عمر کی خزاں آلود شام دستک دینے لگی۔ میں کئی دن سے کسی کہانی کی تلاش میں تھی۔ کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، کسی بھی چیز کا سرا قلم کی گرفت میں نہیں آرہا تھا۔ جو لکھتی تھی وہ خود کو اتناپھسپھسا محسوس ہوتا کہ لکھے ہوئے کو پھاڑ کر پھینک دیتی۔ یہ شاید عمر کا تقاضا تھا ورنہ سوچنے کے لیے تو میرے پاس فرصت ہی فرصت تھی۔ جب بچے تھے تو ان کے ساتھ مصروفیت تھی۔ وہ نہ صرف گھر چھوڑ گئے بلکہ ملک کو بھی خیر باد کہہ گئے۔ یہاں کوئی فیوچر نہیں یہ زیادہ تر نئی پود کا خیال تھا اور باپ کا پیسہ کب کام آتا؟

بیٹا امریکہ گیا اور لڑکی شادی شدہ ہوکر لندن چلی۔ میرے شوہر کا بزنس بیرون ملک تک پھیلا ہوا تھا اور بچوں کے بغیر ان کا دل نہیں لگتا تھا اب وہ بزنس کے بہانے زیادہ تر ملک سے باہر رہتے۔ میں نے ان کے ساتھ بہت لمبے لمبے سفر کیے لیکن اب وہ بھی نہیں کیے جاتے تھے۔

اس رات میں دیر تک بیٹھی کسی کہانی کو کھوجتی رہی۔ کیا لکھوں؟ بوڑھے ہوتے ہوئے ماں باپ کی کہانی، اولاد سے دوری کے دکھ کی داستان، ملک میں نفسا نفسی کے واقعات، عورت پر سماج کے ظلم کی بپتا … کیا لکھوں … یہ سب تو روز کا قصہ ہے۔ کوئی نئی چیز کہاں سے لاؤں، کوئی نئی اچھوتی کہانی…؟

میں نے تھک ہار کر قلم رکھ دیا اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ عروج بیگم، میں نے اپنے عکس کو مخاطب کیا۔ کہاں ہے وہ حالات سے لڑتی جھگڑتی، مشکلوں کا سامنا کرتی ہوئی لڑکی؟ وہ چپکے سے میرے عکس سے الگ ہوکر میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ ایک نظر میں تو میں اسے پہچان نہ پائی اتنی کمزور ہوگئی تھی۔ اس کا بے رونق چہرہ، خشک بال، ویران آنکھیں، دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا۔

’’تم کہاں چلی گئی تھیں؟ پچھلے کئی دنوں سے میں تمہیں برابر ڈھونڈ رہی ہوں۔ اور یہ کیا حال بنالیا ہے تم نے؟‘‘

جسم کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی کمزور ہوگئی تھی۔ ’’میں نے تمہاری آواز سن لی تھی لیکن میں اتنی نقاہت محسوس کرتی ہوں کہ کہیں بھی آنے جانے میں بڑی دیر لگتی ہے۔ اور میرا یہ حال تم نے کیا ہے، جب تک میں تمہارے ساتھ تھی، تروتازہ تھی، شاداب تھی۔ اب تو فقط چلتا پھرتا لاشہ ہوں۔ اور اب تمہیں میری کیا ضرورت ہے۔‘‘ اس کی آواز میرے دل کے زخموں پر نشتر کا کام کررہی تھی۔

’’میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا کہ تم اتنی کمزور اور دکھی ہوجاؤ کہ میرے پکارنے پر بھی میرے پاس نہ آسکو۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں تمہیں الفاظ کا جامہ پہنادوں۔ اور دیکھنا تم پھر سے تروتازہ ہوجاؤ گی۔‘‘

اس کے ویران چہرے پر لمحہ بھر کی مسکراہٹ جگمگا کر رہ گئی۔

’’میںنے کہا تھا نا مجھے لکھ کر محفوظ کرلو۔ ابدی حیات دے دو۔ ان جذبات و احساسات کے ہر عکس میں رنگ بھر دو جو تمہارے ادھورے خوابوں کا حصہ ہیں۔ پھر میں چلی جاؤں گی۔ تم تو ایک کہانی کارہو، تمہارے لیے کیا مشکل تھی… یہ جو تم فرضی کہانیاں لکھ لکھ کر اپنے آپ سے جھوٹ بولتی رہی ہو۔ اس سے تو اچھا تھا کہ تم سچ لکھتیں…‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’میں نے ہمیشہ اپنے اطراف کی کہانیاں لکھی ہیں… لیکن میں تمہیں نہیں لکھ سکی، میری بہت بڑی مجبوری تھی۔ میں اپنے حال کو مستقبل سے جوڑنا چاہتی تھی اور تمہیں لکھ کر میں واپس ماضی کی طرف لوٹ جاتی۔‘‘

’’سب بہانے ہیں۔ تم اپنی رسوائی سے ڈرتی تھیں۔‘‘

’’میں نے کوئی گناہ نہیں کیا جو مجھے خوف رسوائی ہو۔ مجھے خوف آتا تھا تو ان جذبوں سے جنھیں میں نے کن مشکلوں سے تھپک تھپک کر سلادیا۔‘‘

’’یہی تو بات تھی۔ اب وہ جذبات سرد پڑگئے ہیں۔ تم انہیں الفاظ کا گرم الاؤ دے کر بھی نہیں بیدار کرسکتیں۔ لکھو، بلاؤ اس الھڑ، بے فکر اور رومانیت سے محبت کرنے والی لڑکی کو … جسے تم نے اپنے وجود سے الگ کرکے ماردیا۔‘‘

’’میں اپنے وجود کو کیسے مار سکتی ہوں۔ میں اسے ابھی بلاتی ہوں۔ بات بے بات مسکراہٹیں بکھیرتی۔ روشن آنکھوں والی لڑکی کو۔ اس لڑکی کو جس کے دل میں دھڑکتا دل تھا اور دماغ میں فکر کا شعلہ۔ اب میں اس کی کہانی کو الفاظ کا روپ دوں گی۔ ان نرم و نازک جذبوں کی داستان جو محبت کے نام پر پروان چڑھے اور دولت کی خاطر قربان بھی کردیے گئے۔ دل زخم زخم ہوا، جذبات کا خون ہوا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے؟

گھروالوں کے آگے، حالات کے سامنے اس نے گھٹنے ٹیک دئیے محبت ہار گئی، روحانیت پیچھے رہ گئی۔ دولت جیت گئی اور سماج غالب آگیا۔ سماج کی اس بدنیتی اور حوس کی اس غلامی پر میں نے بہت کچھ کہنا اور لکھنا چاہا لیکن نہیں لکھ سکی۔ محبت کی ایسی تضحیک اور اعلیٰ قدروں کی یہ پامالی۔ شاید یہ وہ کمزور لمحہ تھا جس نے آنکھوں میں خواب سجانے والی عروج کو مضبوط کیا اور ا س نے اپنے مستقبل کی پلکوں پر یادوں کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں سجا کر خوابوں کی سمت جانے والا ہر راستہ بند کردیا۔‘‘

’’لکھو، لکھو۔‘‘وہ ہذیانی انداز میں ہنستی چلی گئی۔

میں قلم ہاتھ میں تھامے اسے گھورتی رہی۔ کتنی بوڑھی اور بدشکل ہوگئی تھی وہ … میرا ماضی اتنا بدنما تھا … نہیں نہیں … یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میرے خواب … احساسات … وہ جسم و جان میں گدگدی کرنے والے جذبات اور لوگوں میں زندگی کی لہر دوڑادینے والے افکارات و خیالات … میں اذیت سے چیخ اٹھی۔

’’کہاں ہے میرے ماضی کا سنہرا خواب اور کہاں ہے وہ ہنستی کھلکھلاتی لڑکی! یہ سب میں نے تمہارے پاس امانت کے طور پر رکھوائے تھے اور تم نے انہیں کھودیا اور … اور … ‘‘ میں بے بسی سے رودی۔

’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ تم نے اپنے سے الگ کرکے مجھے جیتے جی ماردیا۔ اب میں ایک زندہ لاش ہوں۔ لکھ سکتی ہو تو لکھو میری ذات کا نوحہ۔ اور ظالم سماج کے ظلم کی داستان۔ مگر تم بھی تو اندر سے مرچکی ہو۔‘‘

میں نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے قلم کی طرف دیکھا۔ اس کی سیاہی میں خون کی آمیزش تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں