ایک مثالی شادی

محمد مصطفی خان

گذشتہ دنوں راقم کو اپنے ایک عزیز دوست کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اطلاعات کے مطابق لڑکی گریجویٹ اور لڑکا انجینئر ہے۔ خبر تھی کہ اس شادی میں جہیز کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ لڑکی کو سونے کا زیور بہت ہی مختصر دیا جائے اور اگر نہ بھی دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے معاشرہ میں جہاں شادیاں شان و شوکت اور دکھاوے کا ذریعہ بن گئی ہیں یہ بات قابل ستائش تھی۔

نکاح پڑھانے کے لیے پٹنہ کے ایک مشہور عالم دین پروفیسر شمیم نعیمی صاحب سے کہا گیا ۔ نکاح سے ٹھیک آدھا گھنٹہ پہلے میں نے دیکھا کہ لڑکے اور لڑکی کے والد ایک گوشہ تنہائی میں محوِ گفتگو ہیں اور دونوں میںکسی معاملے پر بات طے نہیں ہوپارہی ہے۔ چونکہ میں لڑکی کے والد کا بہت ہی قریبی دوست بھی ہوں۔ اس لیے بلا تکلف ان لوگوں کے درمیان پہنچ گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکے کے والد اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ لڑکا شادی کی رسومات ادا کرنے، عورتوں کے درمیان نہیں جائے گا۔ نکاح اور کھانے کے بعد سیدھے رخصتی ہوجائے گی اس بات کو لے کر میرا دوست پس و پیش میں تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس شادی میں شریک ہے اور سبھوں کی خواہش دولہا کو دیکھنے کی ہوتی ہے۔ جبکہ لڑکی کی والدہ نے بھی رشتہ طے ہونے سے اب تک دولہے کو نہیں دیکھا تھا۔ صرف اس کی تصویر دیکھی تھی۔ مگر لڑکے کے والد کا اصرار تھا کہ شادی میں عورتیں جو رسومات ادا کرتی ہیں وہ مشرکانہ ہیں اور غیر مسلموں سے منتقل ہوکر مسلم سماج میں داخل ہوگئی ہیں۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے لیکن سماجی، معاشرتی اور جذباتی اعتبار سے اہم ہے۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شرعی اعتبار سے دیکھیں تو عملاً اس سے اسلامی تعلیمات کی کس قدر پامالی ہوتی ہے۔

مہر شریعت کا ایک واجب الادا حکم ہے۔ لیکن معاف کیجیے ہم اسے بہت ہی ہلکے انداز میں لیتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ تو اس کی ادائیگی کرتے ہی نہیں اور کچھ ایسے ہیں جوحیلہ بہانہ سے کام لے کر معاف کرالیتے ہیں۔ مگر یہاں لڑکے کی جانب سے ۲۵ ہزار روپیہ کا ڈرافٹ لڑکی کو پیش کیا گیا جو مہر کی متعینہ رقم ٹھہری تھی۔اور اس شادی کی خاص بات یہ ہے کہ ہمارے علم کی حد تک یہ شادی اسلامی شریعت کے مطابق سادگی سے انجام پائی۔ اس میں جہیز کی کوئی فہرست نہیں تھی اور میز کے نیچے سے بھی کوئی معاملہ نہیں تھا۔نکاح انتہائی سادگی سے انجام پاگیا۔ لیکن میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ آج ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے۔ نکاح جو آسان ہے اسے کس قدر مشکل بنادیا گیا ہے۔ کم ظرف قسم کے مسلم نوجوان کس بے حیائی سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بازار میں جس طرح مختلف چیزوں کے ریٹ مقرر ہیں اسی طرح لڑکوں کے ریٹ بھی مقرر ہیں۔ میٹرک پاس، بی اے پاس، ایم اے ، کلرک، بزنس مین، سرکاری نوکر، سرکاری افسر، آئی اے ایس غرض سب کے ریٹ متعین ہیں۔

موٹر سائیکل تو اب معمولی چیز ہے جس کی قیمت تیس سے چالیس ہزار روپئے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کار، لاکھ، دو لاکھ نقد وغیرہ آج کل معمولی چیزیں ہیں۔ایک باپ جو اپنی بیٹی کو پال پوس کر جوان کرتا ہے، تعلیم و تربیت پر اپنی کمائی صرف کرتا ہے اور پھر اپنی لخت جگر کو لڑکے کے حوالے کردیتا ہے کیا یہ بات ایسی نہیں کہ لڑکے والے اس بات پر لڑکی کے والدین کے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ایک تعلیم یافتہ اور مہذب لڑکی ان کے حوالے کی۔ اس کے برعکس ایک اعلیٰـ تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے والدین اور زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور عام حالات تو بڑے تکلیف دہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سماج میں لڑکی کی پیدائش کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو لڑکیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ لعنت ہو ان الٹراساؤنڈ کرنے والوں پر جو ’’دختر کشی‘‘ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

عام سماج میں شادی جس طرح ایک نمائش اور اظہارِ شان و شوکت کا ذریعہ بن گئی ہے وہ کسی کے لیے ہو یا نہ ہو غریب والدین کے لیے ضرور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ لاکھوں والدین ایسے ہیں جو اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹاکر بھی ایک بیٹی کی شادی کے لیے ایک لاکھ روپے جمع نہیں کرپاتے جو آج کے دور میں ایک شادی کے لیے معمولی رقم ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ غریب خاندانوں ہی کی نہیں کھاتے پیتے گھروں کی بیٹیاں بھی اپنی زندگیوں کو گنواں رہی ہیں کیونکہ سماج کے متعین کردہ معیاروں کو پہنچنا ان کے لیے دشوار ہے۔

کچھ بھی ہو اصل سبب اور حقیقت صرف ایک ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت اختیار کی ہے اور نتیجہ حاصل سماج کی اندھی رسوم و رواج ہمارے ہاتھوں وپیروں کی زنجیریں اور بیڑیاں بن گئی ہیں۔ اللہ کے رسول نے شادی کو آسان بنانے کی تاکید فرمائی اور ہم نے اسے مشکل بنادیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کے کچھ لوگ اٹھیں اور ان جاہلانہ رسموں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں اور پھر ایک انقلاب کی آوازبن جائیں تاکہ ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کو ’’زندگی‘‘ مل سکے۔ اور لاکھوں خاندانوں کو تباہی سے بچا کر آبادی کی راہ پر لایا جاسکے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146