دہشت گردی کی دو شکلیں

شمشاد حسین فلاحی

۱۱؍جولائی کو ملک کی تجارتی راجدھانی ممبئی میں ہوئے سیریل بم دھماکے ایسی خوفناک اور بدبختانہ حرکت ہیں جس کی مذمت اورگھناؤنے پن کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ ڈھائی سو کے قریب معصوم اور بے گناہ انسانی جانو ںکا اتلاف ناقابل تلافی نقصان ہے۔ سیکڑوں افراد کا زخمی ہونا اور ان میں سے بعض کا زندگی بھر کے لیے معذور ہوجانا، سیکڑوں خاندانوں کے لیے رنج و الم کا باعث ہے۔

اس طرح کی دہشت گردی جہاں کہیں بھی ہو اور جو کوئی بھی کرے وہ قابلِ مذمت ہے۔ اس کی تحقیق و تفتیش غیر جانبدارانہ انداز میں ہونی چاہیے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ حکومت ایسا نہیں کرپاتی تو یہ مرنے والوں، زخمیوں اور ملک کے ان کروڑوں شہریوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی، جنھیں ان حادثوں سے دلی تکلیف پہنچی ہے۔ یہ انصاف پسند عوام کے دل کی آواز ہے کہ مجرم لوگ بچ کر نہ نکل پائیں۔

مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اہل کار اور سیاست داں حضرات اس طرح کے حادثات کے وقت حوش و خرد، غیر جانبداری اور فراست کا استعمال کیے بغیر محض جذباتی انداز میں او ر سیاسی بیان بازی کرڈالتے ہیں اور غیر جانبدارانہ تحقیق کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی یہ اعلان کر بیٹھتے ہیں کہ فلاںفلاں گروپ نے ایسا کیا ہے۔ اس سے پوری تحقیق کا عمل متاثر ہوتا ہے اور تمام تر تفتیشی کارروائیاں ان بیانوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کی جانے لگتی ہیں۔

۱۱؍جولائی کے ان دھماکوں کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے میں آیا اور ایک ایسی مسلم تنظیم کا نام لیا گیا جس پر محض سیاسی وجوہات کی بنا پر گذشتہ حکومت نے پابندی عائد کی تھی اور جو اب اپنا وجود کھوچکی ہے۔ انتظامیہ اور سیاست دانوں کا رویہ اس حیثیت سے افسوسناک ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں کو مشکوک بناتا ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس نے کئی بار بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کو غلط انداز سے اٹھایا اور پھر انھیں حراساں کیا۔ یہ رویہ عدل و انصاف اور ہندوستان کے بنیادی قانون اور دستور کے خلاف ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو قانون کے نگراں اور اس کے رکھوالے ہیں۔ حالانکہ حالات اور کوائف بتاتے ہیں کہ ان حادثات کے پیچھے ان کے علاوہ عناصر ہیں جن کا نام لیا جارہا ہے۔

اس سلسلہ میں مشہور صحافی رام پنیانی نے اپنے حالیہ مضمون میں بعض حقائق کی طرف نشاندہی کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان منظم اور منصوبہ بند بم دھماکوں میں سنگھ پریوارکے گروپس شامل تھے۔ ان کے اس اشارے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ گذشتہ دنوں آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر پر ہونے والا مبینہ دہشت گردانہ حملہ پوری طرح فرضی پایا گیا۔ اس سے پہلے بھی سنگھ پریوار کے لوگ ناندیڑ میں خطرناک اسلحوں اور دھماکہ خیز مادوں کے ساتھ دہشت گردانہ منصوبے اور بم بناتے ہوئے خود اپنے ہی دھماکوں سے ہلاک ہوئے۔ اور ان کے گھروں سے مسلمانوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی ٹوپیاں، کرتے، تسبیحیں اور مساجد کے نقشے برآمد کیے گئے۔ حالیہ دنوں میں ان سلسلہ وار واقعات سے کم سے کم اتنی بات تو واضح ہوگئی کہ دہشت گردی کو سنگھ پریوار ہر دو اعتبار سے مسلمانوں کے خلاف اور ملک کے خلاف آزما رہا ہے۔

حالات کے تسلسل اورعدل و انصاف کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ہماری پولیس، انتظامیہ کے اہل کار اور سیاسی شخصیات کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حادثہ پر جذباتی سیاست اور تعصب کی سوچ سے اوپر اٹھ کردیکھیں ا ور عمل کریں نیز صبر سے کام لیتے ہوئے بیان بازی کو ترک کرکے غیر جانب دارانہ انداز سے تیز رفتار تحقیق کا عمل جاری کریں اور تحقیق کی ان کوششوں کے نتیجہ میں جو باتیں سامنے آئیں انہیں عوام کے سامنے پیش کریں کیونکہ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔

٭٭٭

گزشتہ جنوری کے آخری ہفتہ میں جب سے فلسطین میں نئی حکومت آئی ہے، اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ مسلسل فلسطینیوں کے خلاف سازشوں اور بلیک میلنگ میں لگے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو اب تو اس گناہ پر سزائے موت دینا چاہتے ہیں کہ انھوں نے الفتح کی جگہ حماس کو کیوں منتخب کیا۔ پہلے فلسطینی ریاست کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی تاکہ اسے فاقہ کشی پر مجبور کرکے اس بات کے لیے آمادہ کیا جاسکے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے اور اب صورت حال یہ ہے کہ امن، انصاف، انسانیت، سیاست اور حقوق انسانی تمام کی ساری حدوں کو روندتے ہوئے وہ فلسطین کے نہتے عوام، ان کے گھروں، تعلیمی اداروں، بجلی و پانی کے مراکز اور پناہ گزیں کیمپوں تک کو نشانہ بناکر آگ و خون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور اب تو اس کی دہشت گردی فلسطینی ریاست کی سرحدوں سے نکل کر شام اور لبنان تک کو نشانہ بنارہی ہے۔ اسرائیل کی بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس کے جنگی جہازوں نے گذشتہ ہفتہ شام کے صدارتی محل پر انتہائی نیچی پروازیں کیں۔ اسرائیل مستقل طور پر شام کو اپنا نشانہ بنانا چاہتا ہے اور مسلسل اس بات پر اصرار کررہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو پناہ دیتا ہے۔

نہتے فلسطینی عوام کے خلاف قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے لیے اسرائیل نے اپنے ایک فوجی کے اغوا کو وجہ جواز بنایا ہے جبکہ لبنان میں حزب اللہ کے ذریعہ دو فوجیوں کے اغوا کرلیے جانے پر اسرائیل نے لبنان کے خلاف گویا اعلان جنگ کرکے پورے مشرق وسطیٰ میں عجیب و غریب اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی ہے۔ اسرائیلی افواج نے ۱۲؍جولائی سے بیروت کے سول ہوائی اڈے، فوجی ہوائی اڈے اور لبنانی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ اور اب باقاعدہ جنگ پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیارے بیروت اور دمشق پر مسلسل بمباری کررہے ہیں اور درجنوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں کے ذریعہ گرائے گئے بموں سے شہری ائیرپورٹ ہی نہیں آبادیاں بھی ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ ادھر لبنان کی فضائیہ کو بھی باقاعدہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ حالات کی شدت کو دیکھتے ہوئے لبنان کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جہاں امریکہ نے اسرائیل کے خلاف مذمتی قرار داد کو یہ کہہ کر ویٹو کردیا کہ یہ غیر متوازن ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ کھلے طور پر اسرائیل کی اس دہشت گردی کا موید اور حامی ہے ۔یہ وہی امریکہ ہے جس نے پہلے عراق کو کویت پر حملہ کے لیے اکساتیا اور پھر اسی بات کو بہانہ بناکر کویتی عوام کو آزادی دلانے کی خاطر عراق کو تاراج کرڈالا۔ اور یہ وہی امریکہ ہے جو دنیا کے تمام ممالک کا داروغہ بن کر ان کے یہاں حقوق انسانی کا ریکارڈ دیکھتا اور اس پر رپورٹیں شائع کرکے صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ مگر یہاں یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ اسرائیل نے لبنان کے خلاف غیر اعلان شدہ جنگ چھیڑ دی ہے یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ لبنانی حکومت کو نقصان پہنچائے بغیر صرف حزب اللہ پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔

کیا امریکہ کی آنکھیں ابھی تک یہ نہیں دیکھ پائی ہیں کہ وہ کس طرح سول اور فوجی ہوائی اڈوں، رہائشی علاقوں، عبادت گاہوں، پلوں اور شاہراہوں پر بم برسا کر تباہی پھیلا رہا ہے۔

اسرائیل دنیا کا وہ تنہا ملک ہے جس نے سلامتی کونسل جیسے ادارے کو لاچار اور بے بس بناکر رکھ دیا ہے۔ اب تک جتنی قراردادیں اسرائیل کے خلاف پیش ہوئی ہیں ان میں سے ایک بھی نافذ نہیں ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس عالمی ادارے کی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔ اور دنیا کے نام نہاد عالمی ادارے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے اپنے مقصد سے کتنا دور ہیں۔ اس لیے اب وقت آگیاہے عرب اور مسلم دنیا اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر قیام امن کا اپنا منصوبہ بنائیں۔ اس لیے کہ جب تک امریکہ اور عالمی ادارووں پر ہمارا انحصار قائم رہے گا اس وقت تک عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے لیے حقیقی امن کی منزل دور رہے گی۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146