سادہ لوح

حامد علی اختر

منظر کی آمد آج کافی دنوں بعد ہوئی تھی۔ ورنہ اس کا معمول تھا کہ وہ اپنے گھر جانے سے پہلے میرے گھر ضرور آتا تھا اور اپنے پورے دن کی روداد سناتا۔ منظر کی اس غیر حاضری کی صورت میں مجھے بھی اتنی فرصت نہیں ملی کہ اس کی کوئی خیر خبر لیتا۔

سامنا ہوتے ہی میں نے کئی دن غائب رہنے کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگا: ’’اماں الیکشن میں مصروف ہوں۔‘‘

’’آپ الیکشن لڑ رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا

’’اماں! تمہیں معلوم نہیں، اپنے پیر شاہ ولایت حسین صاحب قبلہ کو ٹکٹ ملا ہے۔‘‘

’’اس مرتبہ تو ان کی پارٹی کی پوزیشن بہت خراب ہے وہ تو ہار جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا اور منظر فوراً آگ بگولہ ہوگیا اور بولا:

’’شاید تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت کے قبضہ میں جنات ہیں۔‘‘

’’تو پھر؟کیا جنات ووٹ ڈال دیں گے؟

’’آدمی کہیں پر بھی مہر لگائے، مگر جب گنتی ہوگی، تو سب کے سب ووٹ حضرت کے ہی نکلیں گے۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔

یوں تو حضرت شاہ صاحب کا نام میں نے بارہا سنا تھا اور ان کے کشف و کرامات کے قصے بھی سن رکھے تھے، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ آپ کے زیر اثر تھا۔ ان کے چاہنے والوں کے خیال میں حضرت شاہ صاحب ’’ہستی بعد از خدا‘‘ تھے۔ انسانو ںکا کوئی مسئلہ ایسا نہ تھا جس کے حل پر وہ قادر نہ ہوں۔

منظر کے علاوہ ان کے کئی چاہنے والوں سے میرا تعلق تھا۔ ان کی زبانی کئی مرتبہ سن چکا تھا کہ حضرت کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ لیکن آج اچانک ان کے الیکشن میں کھڑے ہونے کی خبر نے مجھے تعجب میں ڈال دیا۔ اس تعجب کا اظہار جب میں نے منظر سے کرہی دیا۔ جواباً اس نے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’حضرت کو دنیا کے منصب کی کوئی ضرورت نہیں، وہ تو قوم کی خدمت اور اس کی فلاح کی خاطر کھڑے ہوگئے ہیں، بلکہ کھڑے کردئیے گئے ہیں۔‘‘

خدمت کے ضمن میں میں نے بحث مناسب نہ سمجھی، کیونکہ یہ منظر کے جذبات کا مسئلہ تھا۔ میں خاموش ہوگیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس سلسلہ میں وہ کوئی بھی مزاج کے خلاف بات گوارا نہیں کرسکتا۔ اگر میں پیر صاحب کی کسی بھی کرامت کو خلاف شریعت یا خلافِ عقل قرار دے دیتا تو منظر مجھ سے فوراً خفا ہوجاتا اور بعض اوقات تو کئی کئی دن ناراض رہتا۔ پچھلی مرتبہ بھی جب منظر نے حضرت شاہ صاحب کی پنج وقتہ نمازیں خانہ کعبہ میں ادا ہونے کا مژدہ سنایا تھا تو طویل بحث کے بعد یہی نتیجہ نکلا تھا کہ منظر نے کئی دنوں تک بول چال بند کردی تھی۔میں مسلسل اس کوشش میں تھا کہ کسی صورت اس کی کج فکری کو درست کیا جائے۔ مگر ناکامی ہی اب تک حاصل ہوئی تھی۔

میں نے کافی غوروفکر کے بعد ایک خاکہ تیار کیا اور منظر سے معاہدہ کرلیا کہ وہ جب بھی حضرت کے پاس جایا کرے گا میں بھی ا سکے ساتھ رہا کروں گا۔ میں نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ اس الیکشن میں جس طرح بھی ہوسکے گا ان کی مدد کی کوشش کروں گا۔خوش قسمتی سے چند روز بعد ہی حضرت کا دیدار نصیب ہوا۔ حضرت ماشاء اللہ چھ فٹ کے لمبے چوڑے ڈیل ڈول کے مالک، رنگ سانولا، بڑی بڑی لال لال آنکھیں معلوم ہوتا تھا جیسے ابھی ابھی چلہ کشی کرکے آئے ہیں گول مٹول چہرہ، شکم خود بخود گواہی دے رہا تھا کہ یہی حضرت ہوسکتے ہیں۔

الیکشن کے ماحول، مریدوں کی بھیڑ بھاڑ نے شرف مصافحہ سے محروم کردیا۔ منظر نے فوراً تسلی دی ’’اماں الیکشن بعد صحیح سے ملوائیں گے۔‘‘

حضرت کی شہر کے مختلف حصوں میں چناوی سبھائیں تھیں، ان کی افادیت کا علم ہمیں پہلے ہی سے تھا۔ پروگرام کا ایک حصہ ہی ہمیں قابل توجہ معلوم ہوا اور وہ تھا حضرت جی کو اپنے ایک سپوٹر کے یہاں جن اتارنے جانا تھا۔ میں نے منظر سے کہا اس پروگرام میں شرکت ضروری ہے اور مناسب یہ ہے کہ پہلے ہی صاحب خانہ کے یہاں پہنچ جائیں تاکہ سب کچھ قریب سے دیکھ سکیں۔

پہلے تو منظر صاحب ذرا کچھ آنا کانی کرنے لگے مگر جب میں نے کہا کہ آپ خلیفہ ہوجائیں گے تو آپ کیا کریں گے۔ تو وہ تیار ہوگیا۔ اور وقت سے پہلے ہی جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ حضرت بھی وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔

مرض میں مبتلا ایک حسین و جمیل لڑکی کو حضرت جی کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت جی نے (جن) لڑکی سے مصافحہ کیا،انداز بتارہا تھا کہ حضرت معانقہ کرنے کے فراق میںتھے مگر حالات شاید اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ کارروائی شروع ہوئی اور حضرت نے کڑک دار آواز میں کہا ’’ابے تو ریشما پر کیو ںآیا؟‘‘ جن نے جواب دیا: ’’اتنی خوبصورت لڑکی چھوڑ کر کہاں جاتا؟‘‘

مجھے برجستہ جواب دینے کی بیماری ہے اس بیماری کے سبب حضرت جی کی موجودگی کا بھی احساس نہیں رہا اور میری زبان سے فوراً نکلا ابے ہیمامالنی یا ایشوریرائے کیا مرگئیں۔ حضرت نے فوراً غضبناک آنکھوں سے مجھے گھورا میں نے خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔

حضرت جی نے مختلف سوالات و جوابات کے بعد جن کو بھسم کرنے کا فیصلہ کرلیا اور مختلف قسم کی حرکات و سکنات کے بعد جن کے بھسم ہوجانے کا اعلان کردیا۔

اگلے روز لڑکی کے والد پھر وہی شکایت کررہے تھے کہ جن کا اثر اب بھی باقی ہے۔ میں نے کہا : ’’آپ مطمئن رہیے ممکن ہے مرنے والا جن جاٹ رہا ہو اس لیے تیرہویں کا انتظار کیجیے اثر خود بخود ختم ہوجائے گا۔‘‘ منظر نے سرگوشی کی: ’’اماں حضرت نے جن کو مارا ہی کہاں ہے۔ وہ تو صرف دکھانے کے لیے انھوں نے وہ سب کچھ کیا تھا۔‘‘ مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے کہا: ’’تو کیا حضرت شاہ صاحب جن کو مارنے پر قادرنہیں ہیں۔‘‘

’’اماں تم بھی بالکل بچوں والی باتیں کرتے ہو، قادر تو ہیں، مگر الیکشن کا ماحول چل رہا ہے اور جنات حضرت کے الیکشن میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی لیے فی الحال سزائے موت ملتوی کردی گئی ہے۔ عین ممکن تھا کہ دوسرے جنات بھڑک جاتے۔‘‘ میں نے کہا یا اللہ تیرا شکر ہے، ہم تو سمجھے تھے کہ اس سیاست کا اثر صرف انسانوں پر ہی پڑتا ہے مگر یہ تو آج معلوم ہوا کہ بے چارے جنات بھی اس سیاست سے محفوظ نہیں ہیں۔

چناؤ پرچار اپنے پورے عروج پر تھا۔ ہر پارٹی کا امیدوار اپنی جیت کا دعویٰ کررہا تھا ادھر حضرت کے چاہنے والے جنات کی بدولت اپنی جیت یقینی سمجھ رہے تھے۔ جوں توں کرکے پولنگ کا مرحلہ ختم ہوا۔ رزلٹ آنے میں ابھی آٹھ روز کی مدت درکار تھی۔ منظر کی مصروفیت بھی ختم ہوچکی تھی اور برابر آنا جانا ہونے لگا تھا روز ملاقات میں حضرت جی کی جیت کا تذکرہ ہوتا۔ جیت کا تذکرہ وہ کچھ اس طرح کرتا جیسے خود جیت رہا ہو۔

کل ووٹوں کی گنتی ہونی تھی منظر دو دن کی چھٹی لے کر گیا تھا اور وعدہ کرگیا تھا پرسوں جیت کی مٹھائی لے کر گھر حاضر ہوجاؤں گا۔

منظر صاحب کی واپسی وعدہ کے مطابق ہوئی مگر ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ نہیں تھا۔ حالات سب کچھ بیان کررہے تھے مگر پھر بھی میں نے پوچھ ہی لیا: ’’کیا ہوا؟‘‘

’’ارے غضب ہوگیا الیکشن کمیشن نے بہت بڑا دھوکا کیا۔‘‘

’’منظر وہ سب تو ٹھیک ہے مگر حضرت کے جنات کیا کررہے تھے۔‘‘

’’یہی تو دھوکہ کیا جنات کو اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔‘‘

’’الیکشن کمیشن جنات کو کیسے روک سکتا ہے؟‘‘میں نے سوال کیا

’’اماں یار روک ہی تو دیا۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’کیسے کیا! جس دن اپنے یہاں الیکشن تھے اسی دن جنات کے یہاں بھی الیکشن تھے۔ اب تم خود ہی سوچ لو وہ حضرت کا الیکشن دیکھتے یا اپنا۔‘‘

’’منظر صاحب یہ انکشاف کیسے ہوا؟‘‘

’’کیسے ہوا… ہار نے کے بعد حضرت جی نے فوراً جنات کی کلاس لی تب انھوں نے بتایا کہ حضرت کیا کرتے ہم سب مجبور تھے۔ ایک ہی تاریخ پڑگئی۔‘‘

’’منظر صاحب یہ اطلاع ایک ہفتہ بعد کیوں آئی جبکہ پولنگ والے دن سے لے کر آج تک تو آپ کے حضرت شاہ ولایت حسین صاحب جیت کا دعویٰ کرتے آرہے تھے۔‘‘

اب منظر لاجواب تھا اور جواب ڈھونڈنے کے لیے اب وہ میرے ہمراہ میرے استاد کے پاس جارہا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں